ہیلتھ قانون سازی کے معاملے کو مشاورت سے طے کرنے کی ضرورت

شاہد حمید  بدھ 2 اکتوبر 2019
اس وقت حکومت ایک طرف کھڑی ہے جبکہ ڈاکٹر برادری اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں دوسری جانب۔

اس وقت حکومت ایک طرف کھڑی ہے جبکہ ڈاکٹر برادری اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں دوسری جانب۔

پشاور: صوبائی حکومت کی جانب سے ریجنل اور ضلعی ہیلتھ اتھارٹیز کے قیام کے حوالے سے قانون سازی میں جلدی کرنے اور دفعہ 144 کا نفاذکرتے ہوئے ڈاکٹروں کو لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی حدود کے اندر ہی روکنے کی کوششوں میں ناکامی پر ان پر لاٹھی چارج اور تشدد سے یہ معاملہ ایشو کی صورت اختیارکرگیا ہے جس کے حوالے سے اپوزیشن جماعتیں بھی میدان میں نکل آئی ہیں۔

صوبائی حکومت اگر اس قانون سازی کے سلسلے میں جلد بازی نہ کرتی اور یہ معاملہ صوبائی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے صحت کے حوالے کر دیا جاتا تو وہاں مشاورت سے بہتری کی راہ نکالی جا سکتی تھی، چونکہ وزیر صحت خود بھی ڈاکٹر ہیں اور قائمہ کمیٹی کی چیئرپرسن سمیرا شمس بھی ڈاکٹر ہی ہیں اس لیے اگر یہ معاملہ کمیٹی میں زیر بحث لایا جاتا تو بہتر صورت بن سکتی تھی کیونکہ کمیٹی میں اپوزیشن کی نمائندگی بھی موجود ہے اور جب کمیٹی میں اس ایشو پر مشاورت ہو جاتی اور یہ بل کمیٹی کی جانب سے ایوان میں لایا جاتا تو نہ صرف یہ کہ اس کی منظوری سہل طریقے سے ہوتی بلکہ اس پر ڈاکٹر برادری مشتعل ہوکر بھی میدان میں نہ نکلتی۔

اس وقت حکومت ایک طرف کھڑی ہے جبکہ ڈاکٹر برادری اور اپوزیشن سے تعلق رکھنے والی سیاسی جماعتیں دوسری جانب،اور دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑکی جا رہی ہے،گرفتار ڈاکٹروں کو تین ایم پی او کے تحت جیلوں میں بند کرنے کا معاملہ بھی جلتی پر تیل کا کام کر رہا ہے، حکومت کے موقف میں سختی ہے جو ہر صورت اس قانون کا نفاذ چاہتی ہے اور دوسری جانب سے حکم عدولی اور بغاوت کی سی صورت حال ہے۔

ان حالات میں بہرکیف حکومت ہی کو اپنا سینہ کشادہ کرتے ہوئے معاملے سے اچھے طریقے نمٹنے کی راہ نکالنی ہوگی جس کے لیے اگر فوری طور پر پارلیمانی کمیٹی تشکیل دے دی جائے اور دونوں جانب سے بالغ نظر اورصحت سے متعلق امور پر گرفت رکھنے والے ارکان کو اس کمیٹی کا حصہ بناتے ہوئے اسے ڈاکٹروں کے ساتھ مذاکرات اور مشاورت سے معاملات کو ڈیل کرنے کی راہ اختیار کی جائے تو اسی میں سب کی بہتری ہوگی ،گوکہ بل اسمبلی میں منظور ہوچکاہے تاہم اب بھی گورنر خیبرپختونخوا شاہ فرمان اس پر دستخط کرنے کی بجائے اسے دوبارہ زیر غور لانے کے لیے اسمبلی کو واپس بھیج سکتے ہیں ۔

اگر حکومت اپوزیشن پر اعتما د کرنے کے لیے تیار نہیں تو اپنے ہی وزراء پرمشتمل کابینہ کمیٹی بناکر یہ معاملہ اس کے بھی حوالے کیا جا سکتا ہے جو محکمہ صحت اور ڈاکٹروں،دونوں اطراف سے مشاورت کے ذریعے ان نکات کے حوالے سے درمیانی راہ نکال سکتی ہے جو وجہ تنازعہ بنے ہوئے ہیں تاہم حکومت نے لچک نہ دکھائی تو اس صورت میں ڈاکٹروں کا احتجاج بھی بڑھے گا اور حکومت کی مشکلات بھی کیونکہ اگر ڈاکٹر برادری نے اپنے احتجاج کا سلسلہ پورے ملک تک پھیلا دیا تو عوام کی جانب سے سخت ردعمل آنے کی توقع ہے جو پہلے ہی خیبرپختونخوا کے ہسپتالوں میں طبی سہولیات کی بندش اور ڈاکٹروں کی ہڑتال کی وجہ سے غصہ سے بھرے ہوئے ہیں۔

کیونکہ اگر حکومت درمیانی راہ نہیں اپناتی تو اس صورت میں یہ معاملہ بھی عدالت جا سکتا ہے اور اس صورت میں حکومت اور ڈاکٹروں، دونوں کے ہاتھوں سے بازی نکل جائے گی اور تمام معاملات عدالتی رحم وکرم پر ہوں گے جس کے بعد عدالت کی جانب سے جو ہدایات اور احکامات جاری کیے گئے ان ہی پر عمل درآمد کیا جائے گا۔

صوبائی حکومت پہلے ہی ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کے معاملے پر خلاف آنے والے فیصلے کی صورت رگڑا کھا چکی ہے کیونکہ پشاور ہائی کورٹ نے اپوزیشن ارکان کے موقف کی تائید کرتے ہوئے ترقیاتی فنڈز کے استعمال کے حوالے سے وزیراعلیٰ کا صوابدیدی اختیار ختم کرتے ہوئے اس سلسلے میں فارمولا مرتب کرنے کی ہدایت کی ہے اور وہ بھی سات دنوں میں جو یقینی طور پر صوبائی حکومت کیلیے دھچکہ ہے اس لیے موجودہ وزیراعلیٰ محمود خان کے پیش رو اپنی صوابدید اور مرضی سے ترقیاتی فنڈز کا استعمال کرتے آئے ہیں جن میں موجودہ اپوزیشن لیڈر اکرم خان درانی بھی شامل ہیں تاہم محمودخان اس عدالتی فیصلے کی وجہ سے پابند ہو گئے ہیں اور پھر وہ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے بھی رجوع کرنے نہیں جا رہے کیونکہ ان کا کہنا ہے کہ وہ عدالت عالیہ کے فیصلے کی پابندی کریں گے۔

اپوزیشن کی جانب سے نہ صرف اس بات کا امکان موجود ہے کہ وہ ڈاکٹروں کی جانب سے ریجنل وضلعی ہیلتھ اتھارٹیز کے قانون کو عدالت میں چیلنج کرنے کے اقدام میں خود بھی فریق بنے بلکہ اس کے ساتھ ہی اپوزیشن ایکشن ان ایڈ سول پاورز ریگولیشنز کے صوبہ بھر میں نفاذ کے خلاف بھی کسی بھی وقت عدالت سے رجوع کرلے گی۔دہشت گردی کی روک تھام کے لیے مذکورہ قانون کا نفاذ سابقہ فاٹا اور پاٹا میں کیا گیا تھا تاہم اس وقت بھی کہ جب صوبہ پوری طرح دہشت گردی کی گرفت میں تھا اس قانون کا نفاذ صوبہ کے بندوبستی اضلاع میں نہیں کیاگیا تاہم اب آرڈیننس کے ذریعے اس قانون کو صوبہ بھر میں نافذ کرنے سے سب کے کان کھڑے ہوگئے ہیں۔

اگرچہ وزیراعلیٰ کا کہنا ہے کہ یہ اقدام دہشت گردوں کے خلاف سیکورٹی فورسز کے اقدامات کو قانونی تحفظ فراہم کرنے کے لیے کیا گیا ہے تاہم مختلف حلقے اس خدشے کا بھی اظہار کررہے ہیں کہ کیا اس کا یہ مطلب ہے کہ دہشت گردی کی کوئی نئی لہر آنے والی ہے؟ جو یقینی طور پر سب کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے جس کے حوالے سے صوبائی حکومت کو پوزیشن بھی واضح کرنی چاہیے اور اگر اس قانون کا نفاذ لازمی اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ضرورت ہے بھی تو اس صورت میں بھی ایک مخصوص مدت کے لیے ہونا چاہیے تاکہ سابقہ قبائلی اضلاع سے جڑے کسی بھی ایسے قانون کا صوبہ پر سایہ نہ پڑ سکے جو ماضی کی یاد دلائے ۔

اور بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے صورت حال یہ ہے کہ ماہ اگست کے اختتام پر بلدیاتی ادارے تحلیل ہوگئے ہیں، ضلعی، تحصیل اور ویلیج ونیبر ہڈ کونسلوں کی سطح کے تمام نمائندے فارغ ہوکر گھروں کو چلے گئے ہیں اور سب منتظر ہیں کہ نئے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کب ہوتا ہے ؟

لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے مطابق تو رواں سال ہی ماہ دسمبر کے اختتام تک بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ہونا چاہیے تاہم قرائن بتا رہے ہیں کہ اس میں ضرور تاخیر ہوگی جس کی ایک وجہ تو صوبائی حکومت کی جانب سے الیکشن کمیشن کو انتخابات کے انعقاد کے لیے درکار تیاری نہیں کی گئی جبکہ دوسری جانب صورت حال یہ ہے ماہ دسمبر ،جنوری میں صوبہ کے بعض اضلاع میں برف باری کی وجہ سے کئی علاقے آمدورفت کے قابل نہیں ہوتے اور قبائلی علاقوں کی شمولیت کے بعد تو ایسے اضلاع کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگیا ہے اس لیے امکان یہی ہے کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد اب آئندہ سال مارچ، اپریل ہی میں ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔