الٹے نام اور تخلص

سعد اللہ جان برق  جمعـء 4 اکتوبر 2019
barq@email.com

[email protected]

اپنی تحقیقی کیریئر میں پہلی مرتبہ ایک نہایت ہی دل چسپ، دل خوش کن اور دل نشین پراجیکٹ ملا تھا۔ ہم تو ہم کہ ہمارے ٹٹوئے تحقیق نے بھی حسب عادت کسی ناراضگی، ہراسگی یا ناراستگی کے بجائے آمادگی کشادگی اور خوشادگی کا اظہار اپنی’’دُم‘‘ سے کر دیا تھا ۔ وہ انسان ہے نہیں بے زبان ہے اور اس نے اپنی دُم ہی کو زبان آلہ بیان و عیان بنایا ہوا ہے۔

چنانچہ اس مرتبہ بلکہ شاید پہلی مرتبہ اس نے اپنی دُم کو دائیں سے بائیں صرف ہلانا شروع کیا تو ہم سمجھ گئے یہ اس کا ذریعہ گفتار واجب الاظہار ہے کہ خوش ہوتا ہے تو دُم کو دائیں سے بائیں گھماتا ہے ناراض ہو تو بائیں سے دائیں اور جب دُم کسی بھی طرف نہیں ہل رہی ہو بے دم بے خم اور بے غم پڑی ہو تو اس کا مطلب ہوتا ہے۔

بیزاری، لاتعلقی اور ہر اظہارسے انکاری۔ اس کے دُم ہلاتے ہی ہم سمجھ گئے کہ پراجیکٹ کو منظوری مل گئی اور یہ پراجیکٹ تھا نام کا۔ یا ناموں کا۔ چلیے ’’نام‘‘ رکھنا توضروری ہے کہ آدم کی خاصیت ہی علم الا سماء ہے اور ایک باپ اپنے سارے بیٹوں کانام بیٹا تو نہیں رکھ سکتا اس لیے کوئی نام رکھے گا۔ اور یہی ہمارا تحقیقی پراجیکٹ تھا کہ یہ نام کیا ہوتے ہیں۔

کیوں ہوتے ہیں کس لیے ہوتے ہیں اور کس کس جذبے یا ذہنیت کا اظہار کرتے ہیں۔ ایک لطیفہ بھی اس سے متعلق ہے کہ ایک بی بی نے ’’کرگدان‘‘ کا نام کر گران رکھا تو کسی نے پوچھا کہ ’’کر گران‘‘ ہی کیوں؟ تو انھوں نے بتایا کہ یہ شکل ہی سے ’’کرگدان‘‘ لگتا ہے لیکن حیرت انگیز طور پر یہ انسان لوگ اپنے اجداد کے بالکل برعکس نام رکھتے ہیں۔

برعکس تو خیر یہ اور بھی ’’الٹے‘‘ کام کرتے ہیں مثلاً وہ بوٹا گندم کا ہو یا سیب کا۔ تھا تو ہمارے اجداد کا دشمن اور ان کو نہایت ہی بہت بڑی سزا دلوانے والا۔ اس لیے اصولی طور پر اسے ان دونوں یعنی گندم اور سیب سے اگر دشمنی نہیں تو ناپسندیدگی تو ہونی چاہیے تھی لیکن آج اگر اولاد آدم کا سب سے پسندیدہ فیورٹ اور محبوب چیز کوئی ہے تو وہ یہی دونوں گندم اور سیب ہیں۔ اور انھی الٹے کاموں میں ایک الٹا کام نام رکھنے میں بھی ہے۔

عام طور پر ’’نام‘‘ دو طرح کے ہوتے ہیں ایک وہ جو والدین رکھتے ہیں اور دوسرے وہ جو انسان خود اپنے لیے ’’تخلص‘‘ وغیرہ کی شکل میں رکھتا ہے۔ تکنیکی طور پر ہم پہلے والے ناموں کو ’’تمنائی‘‘ کہہ سکتے ہیں یعنی والدین کی تمنا ہوتی ہے کہ ان کی اولاد وہ بن جائے جو نہیں ہے چنانچہ کالے کلوٹوں چندے توا چندے کا نام چاند خان چاندبی بی چنو چندا۔ یا چھپا چھپی کا۔ کہ وہ جو نہیں ہوتا ہے تخلص میں وہی ہوتا ہے اس سے پہلے کہ ہم صابر شاکر، لائق، فائق، صادق اور غمگین زدہ اور مغموم وغیرہ کا پوسٹ مارٹم کریں ۔

خلق خدا کی ناراضگی سے بچنے کے لیے اپنے آپ سے شروع کرتے ہیں برق۔ آپ یقین کریں کہ اتنے عرصے میں ہم نے اپنے اندر بجلی کی کوئی صفت پائی ہے تو وہ لوڈشیڈنگ، بروقت غیر حاضر، بار بار فیل ہونے اور ذرا سی بات یعنی ہوا کے جھونکے بارش کے قطرے سے ’’فالٹ‘‘ ورنہ عام طور پر ہمارے اندر بجلی کی کوئی بھی خاصیت نہیں۔ہمارے جن جن دوستوں کا تخلص ’’غم‘‘ کے خاندان سے ہے جسے غم زدہ، مغموم، غمگین، غم خور، غم پسر، غم خوار وغیرہ سارے سارے ہر وقت ہنسی مذاق اور قہقہے لگانے والے ہیں، مجال ہے کہ کسی بڑے سے بڑے غم کو بھی انھوں نے کبھی گھاس ڈالی ہو ایسے ہی بے شمار صابر بھی ہیں بلکہ تھے وہ اتنے بے صبرے تھے کہ نہایت بے صبری سے زندگی تک بے وقت چھوڑ گئے۔ایک دوست کانام سیلاب تھا۔ اتنا سوکھا ساکھا کہ پتھر بھی اس کے مقابلے میں موم لگے ہر وقت سوکھا سڑا منہ لے کر آتے تھے اور پھر جم کر بیٹھ جاتے تھے ۔

سیلاب ایسے ہوتے ہیں؟ اور جن کا نام طوفان تھا وہ اتنے سبک رفتار تھے کہ چلتے بھی گویا ٹھہرے ہوئے لگتے تھے۔ شعر اتنے دھیمے لہجے میں پڑھتے تھے کہ سوائے خود کے اور کسی کو سنائی نہیں دیتے تھے۔ ایک لفظ کے درمیان اتنا ’’پاز‘‘ ہوتا تھا کہ سونے کا گمان ہوتا  تھا۔ بیچ میں ایک اور بات یاد آ گئی، دوست محمد کامل جو علی گڑھ کے پڑھے ہوئے عالم فاضل مورخ اور محقق تھے، پیشے سے وکیل تھے، نہایت سنجیدہ لیکن اندر اخروٹ چنانچہ خاص دوستوں میں مذاق بھی بہت اچھاکرتے تھے، انھوں نے ایک مرتبہ اس وقت کے شاعروں کے تخلصات کا ہندی ترجمہ شروع کیا تھا طوفان کو وہ جھکڑ سنگھ کہتے۔ اسے درشن سنگھ کانام دیا ہوا تھا سائل کو بھکشو سنگھ کہتے تھے۔ سمندر خان سمندر کو ساگر سنگھ۔ غنی خان کو دھنوان اور ولی خان کو ’’رشی ‘‘ کا نام دیا تھا۔ خیر یہ تو درمیان میں ایسی ہی چھوٹی سے بریک آ گئی تھی اصل سلسلہ ناموں اور تخلصوں کا الٹا ہونا ہے۔

اور اس کے پیچھے انسان کی وہی نفسیات ہیں اپنی کمی کمزوری اور عیب کو چھپانے کے لیے اس پر خوبصورت سا پردہ ڈالنا۔ جسے فارسی میں برعکس نہند نام زنگی ’’کافور‘‘۔ یا پردے میں رہنے دو۔ ہے ۔ مطلب یہ کہ الٹے نام اور تخلصات کو شاعروں یا عام لوگوں تک محدود رکھیے۔ ریاستوں اور صادقوں امینوں تک مت لے جایے اور نہ ہی اس میں بھی ’’کچھ‘‘ چھپانے یا کوڑے کے ڈھیر پر قالین ڈالنے کا مفہوم تلاش کیجیے کہ وہ ہمارے لیول سے بہت اوپر کے لیول کی باتیں ہیں اور اونچے لیول کے لوگ ہی ان پربات کرنے کے مجاز ہیں ہماری کنجشک فرو مایہ کو شاہین سے لڑانے کی کوشش نہ کریں کہ کہیں کنجشک فرومایہ کے پر پرزے ہوا میں نہ اڑیں

مگرغبار ہوئے پر ہوا اڑا لے جائے

وگرنہ تاب و تواں بال و پر میں خاک نہیں

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔