ضرورت مندوں میں مفت بانٹنے کے لیے جوتے جمع کرنے والا بچہ

ویب ڈیسک  جمعـء 4 اکتوبر 2019
اس باہمت بچے نے نہ صرف خود کو صدمے سے باہر نکالا بلکہ دوسروں کے لیے مفت جوتے فراہم کرنے کو اپنی زندگی کا مشن بھی بنا لیا (فوٹو: کائیلرز کِک)

اس باہمت بچے نے نہ صرف خود کو صدمے سے باہر نکالا بلکہ دوسروں کے لیے مفت جوتے فراہم کرنے کو اپنی زندگی کا مشن بھی بنا لیا (فوٹو: کائیلرز کِک)

کولوراڈو: کائیلر نپر کا تعلق امریکی ریاست کولوراڈو سے ہے، ان کی عمر صرف 14 سال ہے اور وہ رضاکارانہ طور پر اچھی حالت والے جوتے جمع کرتے ہیں تاکہ انہیں غریب اور ضرورت مند لوگوں میں تقسیم کرسکیں۔ البتہ، کائیلر کے اس مشن کی بھی ایک کہانی ہے۔

2011ء میں جب وہ صرف 11 سال کے تھے اور چھٹی جماعت میں پڑھ رہے تھے تو ایک روز غلطی سے پھٹے ہوئے جوتے پہن کر اسکول چلے گئے۔ جوتے پھٹے ہونے کی وجہ سے وہ پنجوں کے بل چل رہے تھے جس پر اسکول کے کچھ بدمعاش لڑکوں نے انہیں گھیر لیا۔ پہلے تو خوب مذاق اڑایا اور اس کے بعد انہیں بری طرح سے مارا پیٹا۔ ان میں سے ایک لڑکے نے تو کائیلر پر تشدد کی انتہاء کردی اور نوکیلی پنسل سے ان کا کندھا اور سینہ چھلنی کردیئے جس کی وجہ سے کائل کے پھیپھڑے تک زخمی ہوگئے۔

کائیلر کو شدید زخمی حالت میں اسپتال پہنچایا گیا جہاں بڑی مشکلوں سے ان کی جان بچائی گئی اور وہ تقریباً ایک ماہ تک اسپتال میں زیرِ علاج رہے۔ اس واقعے کی وجہ سے وہ ناقابلِ برداشت اعصابی تناؤ کا شکار بھی ہوگئے جسے ’’پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ نفسیاتی کیفیت کسی شدید صدمے سے گزرنے والے افراد پر طاری ہوتی ہے جس سے نکلنا بہت مشکل ہوتا ہے۔

اگرچہ کائیلر پر تشدد کرنے والے لڑکوں کو گرفتار کرلیا گیا اور بعد ازاں عدالت نے انہیں سزا بھی سنا دی، لیکن اسکول کا نام سنتے ہی کائیلر پر خوف کی وجہ سے ہذیانی کیفیت طاری ہوجاتی۔

یہ حالت دیکھ کر کائیلر کے والدین نے انہیں اسکول سے اٹھا لیا اور گھر پر ہی ان کی تعلیم کا بندوبست کردیا گیا۔ اسی دوران کائیلر نے پھٹے ہوئے جوتوں کی وجہ سے تشدد کا نشانہ بننے والے یا کسی اور مشکل کا سامنا کرنے والے بچوں کے لیے صاف ستھرے اور مضبوط جوتے جمع کرنے کا فیصلہ کیا اور اپنے اس ارادے کو ’’کائیلرز کک‘‘ کا نام دیا۔

گھر پر رہتے ہوئے انہوں نے جوتے بنانے اور فروخت کرنے والے مقامی اداروں سے رابطہ کیا اور ان سے ضرورت مندوں کےلیے جوتے فراہم کرنے کی درخواست کی۔ کچھ ہی دن بعد ان کے گھر میں عطیہ کیے ہوئے جوتوں کا ڈھیر لگنا شروع ہوگیا، اور کائیلر نے اپنے گھر کے باہر ایک پوسٹر پر مفت جوتوں کا اعلان لکھ کر دیوار پر چپکایا اور ساتھ ہی میز پر جوتے رکھ دیئے۔

2017ء میں شروع ہونے والی یہ چھوٹی سی کاوش رفتہ رفتہ مقبول ہوتی گئی اور پھر وہ اپنی والدہ کے ساتھ نواحی بستی میں رہنے والے غریب بچوں کے لیے ہر مہینے میں ایک سے دو مرتبہ جوتے لے کر جانے لگے۔

اس کے بعد مالی مسائل کی وجہ سے ان کے والدین لاس ویگاس چلے آئے۔ یہاں آکر انہوں نے کائیلرز کک کو نہ صرف بہتر طور پر منظم کیا بلکہ کچھ لوگوں نے انہیں ہزاروں ڈالر کا چندہ بھی دیا۔ اس طرح انہوں نے ’’کائیلرز کک‘‘ کو ایک باقاعدہ غیرسرکاری تنظیم میں تبدیل کردیا۔

اب تک ان کی تنظیم 20 ہزار سے زائد ضرورت مند بچوں میں جوتوں کے نئے جوڑے تقسیم کرچکی ہے جبکہ درجنوں رضاکار ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ حال ہی میں انہیں اس نیک مقصد کےلیے 40 ہزار ڈالر کے عطیات بھی موصول ہوئے ہیں۔

یہ واقعہ صرف عجیب و غریب نہیں بلکہ ان لوگوں کے لیے بھی امید کی ایک کرن ہے جو وقتی مسائل اور پریشانیوں سے خوفزدہ ہو کر آگے بڑھنے کا ارادہ ہی ترک کر دیتے ہیں یا کچھ نہ کرنے میں اپنے حالات یا تلخ تجربات کو ذمہ دار ٹھہراتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔