قربانی اخلاص نیت کا نام

عدنان اشرف ایڈووکیٹ  اتوار 6 اکتوبر 2013
advo786@yahoo.com

[email protected]

آج کل قربانی کا فریضہ مذہبی سے بڑھ کر سماجی حیثیت، خود نمائی، بڑائی، تکبر کے اظہار کا ذریعہ اور نمود و نمائش کے تہوار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے۔ قربانی کا فلسفہ یہ ہے کہ بندے کا جینا مرنا اور زندگی کا ہر عمل اﷲ کی اطاعت اور بندگی کی علامت اور اپنی خواہشات کو قربان کرکے اﷲ کی خوشنودی اور قرب حاصل کرے۔ قربانی سے متعلق فرمان الٰہی ہے کہ ’’اﷲ کے پاس قربانی کے جانور کا گوشت پہنچتاہے نہ ہی ان کا خون، البتہ اس کے پاس تمہارا تقویٰ پہنچتا ہے، اﷲ نے ان جانوروں کو تمہارے زیر حکم کردیا ہے تاکہ تم اﷲ کی راہ میں ان کی قربانی کرکے اﷲ کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تم کو قربانی کرنے کی توفیق بخشی۔ اے نبیؐ اخلاص والے نیک نیت والے لوگوں کو خوش خبری سنا دیجیے۔‘‘ قربانی کے فریضے میں شکر، اطاعت، ایثار اور رضائے الٰہی کا حصول بنیادی عوامل ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ نے جس طرح آتش نمرود میں کود کر اﷲ پر توکل اور بھروسے کا مظاہرہ کیا اور سو سال کی عمر میں اکلوتے اور مرادوں سے مانگنے والے بیٹے اور اپنے بڑھاپے کے واحد سرمایے کو اﷲ کی راہ میں قربان کرنے کا عمل کیا اور صابر و شاکر بیٹے نے اپنے باپ کو اﷲ کے حکم کی تعمیل کرنے اور خود صابر و شاکر رہنے کی یقین دہانی کرائی اس میں ایک فلسفہ پنہاں ہے۔

آج کل لوگ اس فلسفے اور تصور کو بھلا بیٹھے ہیں۔ پہلے ذی الحج کا مہینہ آتا تھا تو ابراہیم ؑ کے جذبہ قربانی اور اطاعت الٰہی کو زیر بحث لایا جاتا تھا، بچوں کو اس کی اہمیت، تصور اور تفصیل بتائی جاتی تھی، قربانی کے جانور کو محض اﷲ کی رضا کی خاطر خریدا جاتا تھا، خوبصورت اور صحت مند جانور تلاش کیے جاتے تھے، انھیں گھروں میں رکھ کر ان کی خاطر و مدارات کی جاتی تھی، خود نمائی، بڑائی، تکبر اور مقابلہ بازی کا کوئی تصور نہیں تھا، قربانی خاصی کم تعداد میں ہوا کرتی تھیں۔ صرف صاحب نصاب افراد ہی اس فریضے کو انجام دیا کرتے تھے، لیکن نہ تو قربانی کرنے والوں کے دلوں میں خود نمائی، تکبر اور غرور و نمائش کا جذبہ ہوتا تھا نہ ہی قربانی نہ کرنے والوں کے دلوں میں احساس کمتری و ندامت کا احساس ہوتا تھا، قربانی نہ کرنے والوں کا گوشت کی تقسیم کے وقت خاص خیال رکھا جاتا تھا، ذبح اپنے ہاتھ سے کرنے کی کوشش کی جاتی تھی، قربانی کے وقت ہاتھوں میں ذبح سے متعلق خطا ہوا کرتی تھی، خشوع خضوع و عاجزی کے ساتھ قربانی کا فریضہ ادا کرنے کے بعد اﷲ کا شکر بجا لایا جاتا تھا۔ کسب حلال کمانے والے تاجروں و سرمایہ داروں کی جانب سے انتہائی بیش قیمت جانوروں کی خریداری کی خبریں اس وقت بھی آتی تھیں لیکن ان سے نمود و نمائش کے بجائے ترغیب کا پہلو نکلتا تھا۔

لیکن آج کل قربانی کا فریضہ نمود و نمائش، تکبر و بڑائی، ریا کاری، دھینگا مشتی کے تہوار کی حیثیت اختیار کرچکا ہے جس میں تمام شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد و طبقات شامل ہیں۔ جانور بیچنے والے خریداروں کی جیبوں پر ڈاکا ڈالنے میں مصروف نظر آتے ہیں، جانوروں کی انتہائی قیمتوں کے باوجود عیب دار اور بیمار جانوروں کو بھی دھوکا دہی اور جھوٹ سے فروخت کردیتے ہیں، جانوروں کے سینگ اور دانت وغیرہ توڑے بھی جاتے ہیں اور مصنوعی طور پر ایلفی اور تاروں سے لگا بھی دیے جاتے ہیں۔ بیسن و دیگر غذائیں یا دوائیاں کھلاکر وقتی طورپر ان کو فربہ اور پرکشش دکھادیا جاتا ہے۔ ایسے بیش قیمت جانور بھی فروخت کے لیے پیش کیے جاتے ہیں جو دودھ، بادام، پستہ اور اصلی گھی وغیرہ کی خوراک لیتے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے جو قدرتی غذائیں جانوروں کے لیے رکھی ہیں ان میں ان کے لیے توانائیوں کے سرچشمہ موجود ہیں۔ ان جانوروں کی بڑی قیمتیں حاصل کرنے کے لیے انھیں یہ مصنوعی طور پر قدرتی غذائوں کے بجائے مصنوعی غذائوں کے استعمال پر مجبور کرنا جن کے استعمال کا عام شہری تصور بھی نہیں کرسکتا، کیا یہ انسانوں اور جانوروں دونوں کے ساتھ ظلم و زیادتی اور اسراف کا عمل نہیں ہے۔

اسی طرح جانوروں کو کثیر المنزلہ عمارتوں کی چھتوں پر غیر فطری اور مصنوعی ماحول میں پالنے اور عین قربانی کے دنوں میں انھیں کرینوں یا ہیلی کاپٹر کے ذریعے چھتوں سے اتارنے کا مظاہرہ خود نمائی، نمائش کے علاوہ ان جانوروں کے ساتھ غیر فطری و غیر حقیقی رویے کی نشاندہی نہیں کرتا ہے۔ عید قربان کے موقع پر جانوروں کے بیوپاری، مویشی منڈیوں کے کرتا دھرتا و ذمے دار سرکاری اہلکار، پولیس والے، گاڑیوں کے ذریعے جانوروں کو منتقل کرنے والے، جانوروں کے علاج کے لیے کلینک قائم کرنے والے، بھتہ گیر، چور، ڈاکو، قصائی اور کھالیں لینے والے اور خریدار تک سب اپنی اپنی فنکارانہ صلاحیتوں کا استعمال خوب کرتے ہیں۔ بچوں تک میں قربانی کے جانور لانے، فرمائش اور ضد اور ایک دوسرے کے جانوروں کی قیمتوں اور ان کی جسمانی ساخت ہیئت کا موازنہ کرنے کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اول تو مرد حضرات بھی خود نمائی و نمائش کے اس جذبے میں کسی طرح پیچھے نہیں ہوتے اور جو اس سے اجتناب برتنے کی کوشش کرتے ہیں وہ بھی بیوی بچوں کی فرمائش و تقاضے اور خاندان، رشتے داروں اور محلے میں ناک کٹ جانے اور بیوی بچوں میں احساس کمتری کے خوف سے کسی نہ کسی طرح جائز و ناجائز ذریعہ استعمال کرکے یا قرض لے کر قربانی کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

قربانی صرف صاحب نصاب پر عائد ہوتی ہے، صاحب نصاب کی بڑی تعداد زکوٰۃ جیسے فریضے کی ادائیگی کو پس پشت ڈال دیتی ہے جو فرض عین اور لازم ہے لیکن قربانی واجب عمل کی بجا آوری کے لیے صاحب نصاب نہ ہونے کے باوجود بھی ہر جائز و ناجائز طریقہ کار کو بروئے کار لاتے ہیں۔ ایک صاحب ہر سال قربانی کے لیے شاندار گائے یا اونٹ لاتے تھے، بچے سال بھر اس جانور کا انتظار کرتے تھے۔ دور دور سے بچے اور عورتیں اس کے جانور کی زیارت کرنے آتے تھے۔ پھر ایک دن میڈیا میں خبریں آئیں اس شخص نے اپنے ایک مقروض پڑوسی سے جس نے اس شخص سے چند ہزار روپے ادھار لے رکھے تھے قرض کی واپسی کا مطالبہ کیا اور معمولی تکرار کے نتیجے میں اس کو گولیاں مار کر ہلاک کردیا، پھر خاندان کے ہمراہ بیرون ملک فرار ہوتے ہوئے گرفتار کرلیا گیا۔ سنت ابراہیمی کی اتباع میں لاکھوں روپے کے جانور کی قربانی کرنے والا اگر اس کے حقیقی تصور سے آگاہ ہوتا تو محض چند ہزار کی خاطر کسی انسان کی زندگی لینے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔

ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پوری قوم سنت ابراہیمی کی روح کو بھلا بیٹھی ہے، میڈیا عوام کی توجہ محض مویشی منڈیوں، اس میں لائے گئے جانوروں، ان کی قیمتوں اور بیوپاریوں اور خریداروں کو درپیش معاملات کے علاوہ کسی بات پر توجہ نہیں دیتا۔ اس سلسلے میں علمائے کرام کے علاوہ گھر کے بزرگوں اور خاص طور پر میڈیا اور حکومت پر ذمے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ بچوں اور نوجوان نسل کو قربانی کے فلسفے، اس کی روح اور حقیقی تصور سے آشنا کریں، اس کی تاریخ بتائی جائے، ان مقامات کی فلمیں دکھائی جائیں، مویشی میلوں میں شریک افراد میں آگاہی اور شوق پیدا کرنے کے لیے اس واقعے سے متعلق سوالات کریں، کچھ انعامات دے کر بھی ترغیب دینے کا سلسلہ شروع کیا جائے۔ مختلف قومی تہواروں اور قومی شخصیات کے دنوں کے موقعوں پر عوام الناس کے علاوہ ارباب اقتدار و ارکان پارلیمنٹ کا چہرہ تو کھل کر سامنے آتا رہتا ہے کہ وہ اپنے ملک اور اسلاف سے کتنے آشنا و آگاہ ہیں لیکن یہ مذہبی معاملہ اس سے کافی مختلف ہے۔ قرآن میں اﷲ تعالیٰ قربانی کا ذکر کرنے کے بعد فرماتا ہے کہ ’’اے نبیؐ اخلاص والے (نیک نیت) لوگوں کو خوش خبری سنادیجیے‘‘ اس حکم ربانی پر ہم سب کو غور و فکر کرنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔