ایک خوشخبری

سعد اللہ جان برق  منگل 8 اکتوبر 2019
barq@email.com

[email protected]

اب تو۔تو نہیں بچنے والا بالکل اور ہر گز ہرگز بچنے والا نہیں چاہے آکاش پر چڑھے یا دھرتی میں گھسے۔ کیونکہ میرا لالا آگیاہے۔پہلے توہمیں اس وقت علم الیقین ہوگیا جب ہمارے محبوب وزیراعظم سے متاثر ہوکر دنیا کی سب سے ’’ٹیڑی لکڑی‘‘ٹرمپ نے ان سے پوچھا ، مانگ کیا مانگتا ہے۔جواب میں ہمارے وزیراعظم نے کہا کشمیر۔ اور ٹرمپ نے ہاتھ اٹھاکر کہا تتاآستو۔یعنی دیا۔

پھرجب ہم نے اپنے نہایت ہی باوثوق میڈیا سے سنا کہ ساری دنیا کشمیر کے بارے میں ’’متحرک‘‘ہوگئی یعنی جوسویاتھا وہ ’’جاگ‘‘گیا جوجاگا تھا وہ بیٹھ گیا جو بیٹھا تھا وہ ’’کھڑا‘‘ ہوگیا جو کھڑا تھا وہ’’چل‘‘پڑا جو چل رہاتھا وہ دوڑ پڑا۔ کشمیر کشمیرکش میر۔ساتھ اسی ثقہ میڈیا کے دانادانشوروں، تجزیہ کاروں،کالم کاروں اور ہرکاروں(ہرکام کرنے والے) نے عالمی ضمیرکو جگانا بھی شروع کیا۔

جو ایک زمانے سے سویا ہوا تھا۔اور پھر ہمارے پیارے پیارے راج دلارے وزیراعظم نے ہفتے میں ’’تیس منٹ‘‘  کشمیریوں کے ساتھ پورے ملک میں جوجہاں ہے وہیں پریک جہتی کرنے کا اعلان کیا۔مطلب کہ اب’’عین الیقین‘‘ کا درجہ آگیا تھا۔ایک پشتو ٹپے کے مطابق’’شاخ آج کل ہی میں پھول ہوجائے گی کیونکہ میں نے اس میں ’’کلیاں‘‘ دیکھ لی ہیں۔حق الیقین کادرجہ اس وقت آیا جب ہمارے صوبہ ’ ’خیرپخیر‘‘کے وزیراعلیٰ نے اعلان کیا کہ اگر وزیراعظم حکم دیں تو ہم انڈیا کانام ونشان تک مٹا کررکھ دیں گے۔

ع پھر اس کی داستاں تک بھی نہ ہوں داستانوں میں۔اگلا ’’مارچ‘‘دہلی میں ہوگا۔اور صرف کشمیر ہی نہیں بلکہ انڈیا بن جائے گا پاکستان۔اور اسے ہم نے حق الیقین کادرجہ اس لیے دیا کہ ایک تو ہمارے وزیراعلیٰ جھوٹ نہیں بولتے،  جوبھی بولتے ہیں سچ بولتے ہیں اور سچ کے سوا کچھ نہیں بولتے۔بلکہ ان ہی کے صحبت یافتہ ہوکر باقی وزیر بھی سچ ہی سچ بولتے ہیں۔’’امین‘‘ توپہلے تھے اب’’صادق‘‘بھی ہوگئے ہیں۔دوسری دلیل جواس سے بھی بڑی ہے کہ وزیراعلیٰ نے یہ ساری باتیں ہمارے بازوئے شمیرزن عرف قبائلی عوام کے حوالے سے کی ہیں۔

کہا، ہمارے یہ بازوئے شمیرزن کشمیر تقریباً لے چکے تھے کہ بزدل ڈرپوک اور کمزور انڈیا بھوں بھوں رونے لگا۔اور روتاہوا اقوام متحدہ چلا گیا لیکن اس مرتبہ اسے ہرگز ہرگز نہیں چھوڑیں گے۔اور یہ بات صد فی صد سے بھی ٹھیک ہے کہ ہمارے بازوئے شمشیرزن جو ستر سال پہلے کشمیر میں اپنا ’’جذبہ جہاد‘‘ دکھا چکے تھے، اب وہ پھر زور کرنے لگے ہیں۔کہ اگر انھیں کشمیر پرچھوڑ دیاجائے تو زیادہ سے دومنٹ لگیں ایک منٹ میں کشمیر اور دوسرے منٹ میں بھارت کوکچل کر رکھ دیں گے۔  اس زمانے میں بھی ایک وزیراعلیٰ نے ہی ان کو کشمیرپرچھوڑا تھاجس کانام ویسے تو عبدالقیوم تھا۔

لیکن پشاور میں عبدالقایم خان ہوگیا اور وزیراعلیٰ بننے پر خان عبدالقیوم خان ہوگیاتھا اور جناب بھٹو انھیں پیار سے ڈبل بیرل خان کہتے تھے۔ جن کو ایک مرحوم صحافی نے خان اعظم اور مرد آہن کانام دیاتھا۔اور وہ یہ دونوں تھے۔کہ ایک تو اس کی عظمت قائداعظم کوبچانے کے سلسلے میں ہی ظاہر ہوگئی جنھیں خدائی خدمتگار اور باچاخان اپنے مرکز سردریاب بلا کرقتل کرنے والے تھے کیونکہ خدائی خدمتگار اور باچاخان ایک تو ’’قتل وقتال‘‘کا پیشہ کرتے تھے اور دوسرے پشتون بھی تھے اور پشتون گھر بلاکرمہمانوں کو قتل کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں لیکن اچھا ہوا قائداعظم تو سادہ لوح آدمی تھے وہ باچاخان کی دعوت پرپشاور تک آبھی گئے تھے لیکن شکر ہے کہ یہاں خان اعظم موجود تھا اور اس نے ان کو خطرے سے خبردار کرکے روک لیا تھا ورنہ نہ جانے کیا ’’انرتھ‘‘ہوجاتا لیکن خٓان اعظم کی خوش تدبیری سے خطرہ ایک چھوٹے سے انرتھ یاکربلا پرٹل گیا جسے بھابڑہ کہا جاتا ہے۔خان اعظم مردآہن اس لیے بھی تھا کہ وہ بات بھی منہ کے بجائے بندوق کی نالی اور گولی کی زبان سے کرتا تھا۔

چناچنہ ان ہی خان اعظم نے قبائلیوں عرف بازوئے شمشیرزن میں اعلان جہاد کیا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ بازوئے شمشیرزن نے وہاں جاکر کیا کیا کارنامے دکھائے۔ان کارناموں کا ذکر تو ویسے پاکستان کی تاریخی تحقیقی اور تدریسی کتابوں میں بھی آتاہے لیکن بہت سارے کارنامے صرف سینہ بسینہ اور زبان در زبان بھی ہم تک پہنچے ہیں جوکمال کے ہیں بلکہ اپنی جگہ ایک داستان جہاد ہیں لیکن اس وقت گزرے زمانوں پرمٹی پا۔اور آگے ’’بتا‘‘کا وقت ہے۔

جوہمارے وزیراعلیٰ نے بتا بھی دیاہے لیکن رکاوٹ صرف وزیراعظم کے حکم کی ہے جوکسی بھی وقت دور ہوسکتی۔ دراصل ہمارے وزیراعظم بھی صاحب تدبر وفہم و ادارک بہت  ہیں اس لیے ایک توان کو ’’عالمی ضمیر‘‘کے جاگنے کا انتظار ہے جو اب کچھ ہی دیر کی بات  ہے اور دوسرے ہمارے وزیراعظم ’’میر‘‘کی طرح سادہ بھی ہیں کہ اسی’’عطار‘‘کے لونڈے سے ’’دوا‘‘لے رہے ہیں جس کے طفیل بیمارہوئے ہیں۔ عطار اک تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ برطانیہ کانام ہے اور اس کا ’’لونڈا‘‘بھی ظاہر ہے جس کے ہم مبتلائے عشق ہیں۔

ویسے بھی جب کام سیدھے طریقے سے۔مطلب یہ کہ گھی سیدھی انگلیوں سے نکلنا ممکن ہو تو خواہ مخواہ ٹیڑھی کرنے سے کیا فائدہ۔یہ جووزیراعظم نے ہفتے میں تیس منٹ کی یکجہتی کانسخہ تجویز کیا ہے اچھا خاصا تیربہدف، بلٹ ان ٹارگٹ نسخہ ہے۔ کچھ بے وثوق ذرایع سے ہمیں پتہ چلا ہے کہ گزشتہ یکجہتی ریلی میں جب سب کچھ جام ہوگیا تو مودی کے پسینے چھوٹ گئے ،تھر تھر کانپنے لگا اور پیٹ پکڑلوٹ لوٹ ہونے لگاتھا۔ وہ منہ’’رام رام رام‘‘نکال رہاتھا اور وہ مرا مرا مرا سنائی دے رہاتھا۔ کون کہتاہے کہ دعاوں میں تاثیر نہیں۔ اور ابھی تو ابتدائے عشق ہے روتا ہے کیا آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا۔جمعے کے مبارک دن پورے تیس منٹ کی یکجہتی برداشت کرنا کوئی خالہ جی کا گھر نہیں، اس موذی مودی یہودی کولگ پتہ جائے گا کہ اس نے کس قوم سے لوہا لیا ہے کس شیر کوجگایا ہے اور کن لوگوں کو للکارا ہے

دل سے جوآہ نکلتی ہے اثررکھتی ہے

’’پر‘‘نہیں طاقت پرواز مگر رکھتی ہے

اور یہ اگر اسی تسلسل جوش وخروش جذبے اور حوصلے سے ہوتا رہا تو کشمیر بنے گاپاکستان۔بلکہ آپ کویہ خوش خبری دینا بھی ضروری ہے کہ گاڑیوں کے پچھلے شیشوں پر بھی ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ابھرنے اور اگنے لگاہے جس طرح ایک زمانے میں گاڑیوں کے پچھلے شیشوں پر ’’کریش انڈیا‘‘ابھرا ہواتھا۔اور پھر۔ لیکن چھوڑیے جو ’’پھر‘‘ہے وہ ’’پھر‘‘ہوچکا ہے۔

بہرحال کسی اور کے بارے  میں تو کچھ بھی نہیں کہہ سکتے لیکن اپنا یہ ہے سینہ گز بھر اور کلیجہ فٹ بھرکا چوڑا  ہوگیا اور دل پر جو تشویش کا بھاری پتھررکھاہوا تھا وہ موم ہوکر بہہ گیا ہے ، اب کشمیرتو سمجھیے کہ پاکستان بن چکا ہے اور اگر ہمارے وزیراعلیٰ کو وزیراعظم کا حکم ملا تو۔ہمیں تو تصور میں ابھی سے دہلی کے لال قلعے پر سبزہلالی پرچم لہراتاہوا نظرآنے  لگاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔