مولانا کی سیاست اور تحریک نجات

ندا ڈھلوں  جمعـء 11 اکتوبر 2019
تحریک انصاف کی حکومت سے نجات کا بوجھ مولانا نے اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

تحریک انصاف کی حکومت سے نجات کا بوجھ مولانا نے اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھا لیا ہے۔ (فوٹو: فائل)

مولا فضل الرحمٰن جس زور و شور سے آزادی مارچ کی تیاری کررہے ہیں اور ہمارا میڈیا جس طرح پل پل کی کوریج کررہا ہے، مجھے تو ایسے محسوس ہورہا ہے کہ مولانا صاحب آزادی مارچ نہیں بلکہ تحریک انصاف کے خلاف تحریک نجات شروع کرنے جار ہے ہیں۔ کیونکہ مولانا کے اس مارچ کا صرف ایک ہی مقصد ہے کہ کسی نے کسی طرح یہ حکومت گرائی جائے۔ اسی لیے تو مولانا بڑے واضح اور دو ٹوک موقف کے ساتھ میدان میں اترے ہیں کہ وہ اب مزید اس حکومت کو برداشت نہیں کرسکتے اور اس سے چھٹکارا نہایت ضروری ہے۔ اگر اس حکومت سے نجات حاصل نہ کی گئی تو نہ جانے پاکستان کا کتنا بڑا نقصان ہوجائے گا۔

یہ بات تو سچ ہے کہ 2018 کے عام انتخابات سے لے کر ابھی تک ایک واحد مولانا ہی ہیں جن سے پی ٹی آئی کی حکومت برداشت نہیں ہورہی۔ الیکشن ہارنے کے بعد سے آج تک ایک بھی لمحہ مولانا نے سکون سے نہیں گزارا۔ پہلے پہل وہ حکومت مخالف محاذ میں اکیلے سامنے نہیں آنا چاہتے تھے۔ اس لیے تو پی پی پی اور مسلم لیگ ن کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی۔ آل پارٹی کانفرنس تک کروائی گئی، مگر جب مولانا نے دیکھا کہ دونوں جماعتیں اس سختی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہی ہیں جس کی اُمید مولانا کو تھی۔ تو ایک سال گزرنے کے بعد وہ ’’اپنی مدد آپ‘‘کے تحت ایک مارچ کرنے جارہے ہیں۔ اب یہ مارچ ناکام ہوگا یا کامیاب؟ یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا۔

مولانا فضل الرحمٰن ایک زیرک سیاست دان ہیں اور پاکستان کی سیاست کا ایک اہم نام بھی۔ اس لیے وہ میدان میں نتائج کی پروا کیے بنا اُتر رہے ہیں۔ اور آج کل وہ جس رفتار سے چل رہے ہیں، ایسا لگ رہا ہے کشتیاں جلانے کا منصوبہ بناچکے ہیں۔

اس وقت اگر دیکھا جائے تو پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں کسی نہ کسی مشکل کا شکار ہیں۔ بھٹو کی پی پی پی کے اہم لیڈران سابق صدر آصف علی زرداری کے ساتھ جیل میں مختلف مقدمات بھگت رہے ہیں۔ اور دوسری طرف مسلم لیگ ن کے تاحیات قائد نواز شریف اپنی بیٹی، بھتیجے، اور دوسرے پارٹی رہنماؤں کے ساتھ جیل میں قید ہیں۔ ان کے بارے میں کبھی ڈھیل اور کبھی ڈیل کی باتیں کی جاتی ہیں۔ مگر عوام کے سامنے ابھی تک اس حوالے سے کوئی خاص نتیجہ سامنے نہیں آیا۔ تیسری طرف پاکستان تحریک انصاف کی پارٹی ہے، جو بہت لمبے عرصے کے بعد پہلی مرتبہ اقتدار کے مزے بہت تکلیف کے ساتھ لے رہی ہے۔ کیونکہ جن نعروں کے ساتھ اس جماعت نے الیکشن جیتا تھا اُن میں سے ایک بھی وعدے پر عمل نہیں کیا گیا۔

جب سے خان صاحب وزیراعظم بنے ہیں، تب سے پاکستان میں جو چیز بڑھ رہی ہے وہ مہنگائی ہے۔ معاشی چیلنجز دن بدن مزید بڑھتے جارہے ہیں، جس کی وجہ سے اندرونی اور بیرونی قرضوں کا بوجھ دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ 2018 کے انتخابات سے اب تک بس عوام صبر کے گھونٹ پی رہے ہیں۔ عوام کی امیدیں بس یہی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح اُن کی زندگی آسان ہوجائے۔ اور ساتھ ہی عوام میں ڈر بھی پایا جاتا ہے کہ مہنگائی کا طوفان امیدیں، روزگار، سب بہا کر نہ لے جائے۔ کیونکہ اس حکومت کے ایک سال اور چند ماہ کے عرصے میں سیکڑوں لوگ بے روزگار ہوچکے ہیں۔ اس افراتفری کے عالم میں مو لانا نے اپنے ناتواں کندھوں پر نئی تبدیلی کا بوجھ اُٹھا لیا ہے اور اس حکومت کے بوجھ کو اُتارنے کے لیے مولانا ہر حد تک جانے کو تیار ہیں۔

اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ مولانا کو عوام کا کیا واقعی اتنا خیال ہے کہ وہ اُن کےلیے چند لوگوں کو اسلام آباد کی سڑکوں پر بٹھادیں گے؟ اور کیا مولانا کا شو اتنا پاور فُل ہوگا کہ پی ٹی آئی کی حکو مت کہے گی کہ مولانا چلیں ہم آپ کی مان لیتے ہیں۔ آپ نے کیوں تکلیف کی لوگوں کو اکٹھا کرنے کی۔ ہم کو پیار سے کہہ دیتے ہم خود ہی استعفے دے دیتے۔

اس آزادی مارچ کے حوالے سے میرے ذہن میں کچھ سوالات ہیں کہ اگر مولانا اپنے مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں اور اگر حکومت چلی بھی جاتی ہے تو کیا ہمارا ملک نئے انتخابات کا متحمل ہوسکتا ہے؟ پی ٹی آئی کے بعد کون سی ایسی پارٹی ہوگی جو ملک کی باگ ڈور سنبھالے گی؟ اور مولانا کے اس دھرنے سے جمہوریت کو کس حد تک خطرہ ہوسکتا ہے؟ کیونکہ ماضی میں بھی جب ایسا کوئی قدم اُٹھایا گیا تو اس کی یہی کہہ کر مذمت کی گئی ہے کہ ’’یہ جمہوریت کے خلاف سازش ہے‘‘۔ اصل میں یہ آزادی مارچ مولانا کے اس غصے اور بے بسی کا عملی مظاہرہ ہوگا کہ وہ کیوں اس بار حکومت کا حصہ نہیں ہیں؟ اس وقت مو لانا کی مثال اس بچے کی ہے جو کہتا ہے کہ مجھے اگر کھیل میں شامل نہیں کیا گیا تو میں کسی کو بھی کھیلنے نہیں دوں گا۔

اب مولانا کو کون سمجھائے اصل قصوروار پی ٹی آئی نہیں بلکہ پاکستانی عوام ہیں۔ کیونکہ عوام نے ہی اس بار آپ پر اعتماد نہیں کیا۔ اس لیے مولانا آپ یہ آزادی مارچ حکومت نہیں عوام کے خلاف کریں۔ مگر مولانا تو اتنے عوام کے خیرخواہ ہیں کہ جنہوں نے ان کو مسترد کیا اُن کی بھلائی کےلیے بندے اکٹھے کررہے ہیں۔ میں مولانا صاحب سے صرف اتنا کہنا چاہتی ہوں آپ کے خلوص پر مجھے شک نہیں ہے۔ مگر اب ہمارے پاس وقت نہیں کہ ہم کسی کے بھی پیچھے اندھادھند چل پڑیں۔ کیونکہ عوام آج کل جس طرح پس رہے ہیں اور جیسے لوگ زندگی کی گاڑی کو چلا رہے ہیں، یہ بہت ہی مشکل عمل ہے۔ اس لیے اب ہماری قوم کو کسی حکومت یا سیاسی پارٹی کے خلاف آزادی مارچ، لانگ مارچ یا پھر کسی دھرنے کی ضرورت نہیں، بلکہ صرف اور صرف تحریک نجات کی ضرورت ہے۔

ایسی تحریک نجات جس کے ذریعے عوام کو کرپٹ عناصر سے چھٹکارا مل سکے۔ ایسی تحریک نجات جس کے ذریعے ہماری قوم کو ایسے سیاست دانوں سے چھٹکارا مل سکے جو عوام کو اپنے اقتدار کےلیے سبز باغ دکھاتے ہیں۔ ایسی تحریک نجات جس کے ذریعے ہمارے لوگوں کو یہ جو تین وقت کی روٹی کمانے کی فکر ہے اس سے نجات ملے اور عزت دار روزگار مہیا ہوسکے۔ لوگ روزی روٹی کی فکر سے آزاد ہوکر ایک بہترین اور تخلیقی زندگی گزار سکیں۔

تحریک نجات ہی وقت کی اہم ضرورت ہے، کیونکہ ہم بحیثیت قوم اپنا بہت کچھ لُٹا چکے ہیں اور مزید کچھ باقی نہیں بچا جو لٹایا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ندا ڈھلوں

ندا ڈھلوں

بلاگر جامعہ پنجاب سے فارغ التحصیل ہیں، مختلف ٹی وی چینلوں سے وابستہ رہ چکی ہیں۔ سیر و سیاحت اور کتب بینی ان کے مشاغل ہیں۔ ان سے ٹوئٹر آئی ڈی @DhillonNida پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔