آپ کی توجہ درکار ہے…

پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کےانتخابات کے بعد18کروڑعوام کو ’’ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم‘‘ جیسی کیفیت میں ڈال دیا گیا۔



اپر دیر میں فوجی قافلے پر حملے، فوجیوں کی شہادتیں اور پشاور چرچ میں قتل عام کے المناک واقعات ہوں یا برسر پیکار گروہوں سے مذاکرات کے ذریعے امن کی بحالی کی کوششیں، آواران اور مشکے میں زلزلے جیسی ہولناک آفات ہوں یا متاثرین کے لیے امدادی سامان لے جانے والوں کے خلاف شورش پسندوں کی کارروائیاں سب ایسے امور ہو چلے ہیں جنھیں عام آدمی کے لیے شجر ممنوعہ بنا دیا گیا ہے۔ پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے بعد 18 کروڑ عوام کو ''ٹک ٹک دیدم دم نہ کشیدم'' جیسی کیفیت میں ڈال دیا گیا ہے۔ یہ احساس دن بہ دن پختہ کیا جا رہا ہے کہ ایسے ریاستی امور اپنے داخلی اور خارجی اثرات اور سیاسی و عسکری مضمرات کے باعث عوام کی سوچ اور دسترس میں نہیں آ سکتے۔

طویل مارشل لاؤں اور آمرانہ طرز کی جمہوریت نے اسی مائینڈ سیٹ کو فروغ دیا۔ اگرچہ ایسے ر یاستی امور میں کیے جانے والے مبہم اور ناقص فیصلوں سے عوام بھی براہ راست متاثر ہوئے ان کی بھی جانیں تلف ہوئیں اور انھیں بھی شدید مالی نقصان بھگتنا پڑا۔ پھر بھی نہ ان میں اسٹیک ہولڈر بننے کی امنگ جاگی اور نہ ہی کسی نے انھیں اس معاملے میں شریک کر کے متحرک کرنا چاہا۔ خارجی اور دفاعی امور میں عوام الناس پر اس غیر اعلانیہ پابندی نے عوام کی عدم توجہی میں اضافہ کیا ہے جو کسی اعتبار سے صحت مند علامت نہیں ہے۔ اسی غیر صحتمندی کا شاخسانہ ہے کہ ہمارے 18 کروڑ عوام ان کے گھروں، خاندانوں اور ان کی زندگیوں کو متاثر کرنے والے واقعات سے بھی لاتعلق سے محسوس ہوتے ہیں۔

گزشتہ دنوں بڑے تواتر سے ایسے سنگین حادثات منظر عام پر آئے جنہوں نے گھریلو زندگیوں کو بری طرح جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ہمارے خاندانی و معاشرتی نظام کی دھجیاں بکھیر دیں۔ مغل پورہ (لاہور) کی پانچ برس کی معصوم بچی سے زیادتی پر چیخ و پکار جاری تھی کہ ملتان، گوجرانوالہ، اوکاڑہ، منڈی بہاؤالدین، کراچی اور حیدر آباد میں معصوم بچوں کے اغواء ہونے اور پھر زیادتی اور قتل کے دردناک واقعات رونما ہوئے۔ یہ سانحات اچھا طرز حکمرانی رکھنے والے صوبہ پنجاب اور بری انتظامی کارکردگی دکھانے والے صوبہ سندھ دونوں ہی میں وقوع پذیر ہوئے۔ ان کا ہدف عوام کا کوئی مخصوص طبقہ یا گروہ نہیں تھا بلکہ عام مزدور اور قلفی فروش سے لے کر بے ضرر سی زندگی گزارنے والے سفید پوشوں اور پروفیسروں کے بچوں کو بھی سفاکی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ پروفیسر دلاور خان کے کم سن مغوی بیٹے احمد رضا شہید کی نماز جنازہ کے موقعے پر کئی اکابرین کے یہ کلمات کہ معصوم بچے نے شہادت کا رتبہ پا کر اپنے ماں باپ کے لیے جنت میں اعلیٰ مقام یقینی بنا دیا ہے تھوڑی دیر کے لیے سب کو مسحور کر گئے۔

بے چارگی اور بے کسی کا عروج ہو تو ایسی باتوں سے دل کو قدرے اطمینان ملتا ہے اور دکھوں کو فراموش کرنے کی ڈھارس بندھتی ہے۔ ایسی ہی تسلیاں ملک کے طول و عرض میں سانحات سے گزرنے والے افراد کو دی جاتی ہیں۔ شاید ہی کسی نے سوچا ہو کہ کیا اب ہمارے جنت میں جانے کا یہی راستہ بچا ہے کہ اپنے بچوں کو تاوان کی غرض سے اغواء اور پھر قتل ہوتے ہوئے دیکھیں یا کم سن بچیوں کو سفاکی اور درندگی کی بھینٹ چڑھنے کے لیے پرورش کرتے رہیں۔ ایسے المناک واقعات پر عوام الناس کی بے حسی اور خاموشی مزید تشویش کو جنم دیتی ہے۔ بے حسی اور انسان کی بے توقیری کے اس گھناؤنے کھیل میں کہیں سے کوئی توانا آواز نہیں ابھرتی۔ کبھی کچھ سیاسی اور مذہبی قوتیں عوام اور ان کی زندگی میں ایک ارتعاش پیدا کرتی ہیں لیکن جلد ہی یہ راز کھل جاتا ہے کہ ان کا ہدف بیمار معاشرے کا علاج نہیں بلکہ کچھ اور تھا۔ ایسی قوتیں چند ''نامعلوم افراد'' کے ذریعے ہوائی فائرنگ کر کے سڑکوں پر سناٹا اور دلوں میں خوف و ہراس پیدا کر کے اسے عوام کی ترجمانی کا نام دیتی ہیں۔

کاروباری مراکز، روزمرہ استعمال کی اشیاء کی دکانیں، بسیں اور رکشے سب بند ہو جاتے ہیں کہیں کہیں سڑکوں پر ٹائروں کے جلنے اور گاڑیوں کے سلگنے کا دھواں ضرور نظر آتا ہے۔ عوام کی شمولیت کا بھرم اس وقت کھل جاتا ہے جب شام گئے تاجر اور کاروباری حضرات دن بھر کی بندش سے ہونے والے ذاتی نقصان اور قومی خزانے کو پہنچنے والے کھربوں روپے کے نقصان کا ذکر کرتے ہیں۔ ایسے مواقعے پر کئی جہاندیدہ افراد جو احتجاج کے محرکین کی پیشانیوں پر پڑنے والے بل شمار کرنے میں طاق ہو چلے ہیں خود ہی بندش کا اعلان جاری کر دیتے ہیں کسی کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی اور وہ سب کچھ ہونے لگتا ہے جس کی توقع تھی۔ نہیں ہوتی تو ان لوگوں کی دادرسی نہیں ہوتی جو گرتی ہوئی معیشت اور مہنگائی کے اس سیلاب میں بہے چلے جا رہے ہیں وہ کولہو کے بیلوں کی طرح پھر سے اپنے کاموں میں جوت دیے جاتے ہیں اور ان کے دکھ درد انھی کے سینے میں دفن رہتے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں پرورش پانے والے غیر انسانی طرز عمل کے خلاف کبھی کبھی سول سوسائٹی کا ردعمل سامنے آتا ہے۔ خوش پوش اور خوشحال گھرانوں کے مرد و خواتین اور سکہ بند دانشوروں کی ٹولیاں کہیں کتبے اور کہیں بینر آویزاں کیے نظر آتی ہیں۔ متاثرین سے اظہار یکجہتی کے لیے شمعیں روشن کرنے کی روایت بھی دہرائی جاتی ہے۔ عوام کو ایسے کئی مظاہروں کا پتہ اس وقت پڑتا ہے جب مظاہرین خود چل کر کسی پریس کلب کے سامنے براجمان ہوتے ہیں یا ٹی وی کیمروں کے سامنے صف آراء ہو جاتے ہیں۔ این جی اوز کی فراوانی کے بعد مغربی ممالک کی طرح سول سوسائٹی نام کا یہ ادارہ ہمارے معاشرے میں بھی متحرک ہو چلا ہے۔ بیشتر ریٹائر جنرل، بیورو کریٹ، جج، بیگمات قسم کی خواتین، ترقی پسندی کے دعویدار دانشور اور براہ راست سیاست کاری میں ملوث ہونے سے پہلو بچانے والے مرد و خواتین ایسے مظاہروں کے لیے ایک دوسرے سے رابطے میں رہتے ہیں۔ فیس بک اور ٹویٹر بھی ان کے ساتھ متحرک ہوتے ہیں لیکن وہ عوام جن کے دکھوں کے لیے یہ سب پاپڑ بیلے جاتے ہیں الگ تھلگ نظر آتے ہیں۔ انھیں تو یہ بھی معلوم نہیں ہوتا کہ ان کے ہمدردوں نے ان کے لیے کتنے سیمینار اور ورکشاپ منعقد کیے ہیں کتنی کانفرنسیں کر ڈالی ہیں۔ میڈیا پر کتنی کوریج ہوئی ہے اور ترقی یافتہ دنیا کے کرتا دھرتا ان کے بارے میں کس درجہ فکرمند ہیں۔ جنھیں صدمہ پہنچتا ہے وہ اس کے اثرات سے خود ہی نبرد آزما ہونے کے لیے تنہا سرگرم عمل رہتے ہیں۔ احساس اور دردمندی کی لہریں رفتہ رفتہ ماند پڑ جاتی ہیں۔

معصوم اور بے گناہ انسانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے خلاف قومی ردعمل مفقود ہو چلا ہے۔ جب کوئی پرسان حال نہ رہے تو لوگوں کو خود ہی ہاتھ پیر مارنے پڑتے ہیں۔ ایسے چند مظاہر اس وقت منظر عام پر آئے جب اجتماعی قتل عام کے شکار کوئٹہ کے ہزارہ قبیلہ اور پنجاب و خیبرپختونخوا کے مسیحیوں نے دھرنے دیے اور احتجاج کیا۔ بظاہر یہ ردعمل فطری تھا اور کسی نئے تشدد اور خونریزی کو دعوت دیے بغیر اختتام پذیر ہو گیا۔ ملک کی کئی بھاری بھر کم شخصیات اور قوتوں نے ان سے اظہار یکجہتی بھی کیا لیکن ہزارہ شیعہ کمیونٹی اور مسیحیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کوئی کھڑا نہ ہوا کسی نے انھیں صدق دل سے قبول کر کے اپنا حصہ ڈالنے کی ہمت نہیں کی۔ لگتا ہے ہم انفرادی اور اجتماعی بے حسی کا شکار ہو چلے ہیں بلکہ اب تو وہ آکاس بیل کی طرح ہمیں چاروں سمت سے گھیرے میں لے چکی ہے۔ بچوں کے اغواء اور بہیمانہ تشدد کے پس پردہ مہنگائی اور بے روزگاری کی تباہ کاریوں کو جواز بنانے کی حماقت بہت ہو چکی۔

ان واقعات کے محرکین میں مغرب سے درآمد شدہ لٹریچر اور ہندوستانی فلموں کے مناظر کا تذکرہ بھی بہت دن ہوتا رہا۔ ہماری نئی نسل یا ہمارے بعض آوارہ گرد نوجوان ان کے مناظر سے متاثر ہوتے ہیں تو ایسے کاموں کے عبرت ناک نتائج بھی ان کے علم میں آتے ہیں ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم سے کہاں کوتاہیاں ہو رہی ہیں اور ان کا سدباب کیسے کیا جا سکتا ہے؟ یہ کام متاثرہ افراد اور خاندان نہیں کر سکتے بلکہ انھیں کرنا ہو گا جو ہمدردی اور انسان دوستی کے دعویدار ہیں۔ اس سے پہلے کہ ہم سب متاثرین کی فہرست میں شامل کر دیے جائیں ہمیں اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ عمرانیات، نفسیات، سیاسیات (سیاست نہیں) اور ہو سکے تو جرمیات سے متعلق شخصیات اس بارے میں غور و فکر کریں اور یہ کام اخبارات کے کالموں اور ٹی وی اسکرینوں کے چوکٹھوں کے اندر نہیں بلکہ عوام تک رسائی کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے۔ اپنے معاشرے میں شکست و ریخت کے اسباب تلاش کرنا ہماری اجتماعی ذمے داری ہے۔ ایسے واقعات میں ملوث افراد کی گرفتاریاں اور سخت سزائیں ایک مثبت پہلو ضرور ہیں لیکن ان واقعات کو تمام پہلوؤں سے دیکھنا ہو گا۔ اس سے پہلے کہ بے حسی کا عفریت ہماری اجتماعی زندگیوں کی طرح ہماری انفرادی زندگیوں میں بھی زہر گھول دے، ہمیں اپنی سی کاوشیں کرنی ہوں گی۔

مقبول خبریں