خراب عدالتی نظام کا پوسٹ مارٹم

خرم شہزاد  ہفتہ 2 نومبر 2019
ہمارے عدالتی نظام میں بہت سی خرابیاں اور کمیاں ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

ہمارے عدالتی نظام میں بہت سی خرابیاں اور کمیاں ہیں۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سانحہ ساہیوال کیس کا فیصلہ کیا آیا کہ ہر شخص نے عدالتوں کو فوج اور ججوں کو جرنیل سمجھ لیا اور جیسے آمریت کے خلاف اور جمہوریت کے بچاؤ کے نام پر تقاریر کی جاتی ہیں، ویسے ہی خراب عدالتی نظام، بدبودار عدالتی نظام، انصاف کی عدم فراہمی، انصاف کے قتل، مظلوموں کے دشمن نظام جیسی بہت سی باتیں سوشل میڈیا اور دکانوں تھڑوں پر ہونے لگیں۔

افسوس کی بات یہ ہے کہ ننانوے اعشاریہ ننانوے فیصد لوگوں نے نہ تو عدالتی کارروائی کا جائزہ لیا، یعنی دوران سماعت عدالت گئے ہوں کہ پتہ کریں کیس کس رخ جا رہا ہے، سماعت کیسے ہورہی ہے اورنہ ہی کسی نے عدالتی فیصلے کو پڑھنے کی کوشش کی۔ دوران سماعت بھی پورے پاکستان سے کوئی سے تین اشخاص لے آئیے جنہوں نے گھر جا کر ہمدردی کا اظہار کیا ہو اور پتہ چلانے کی کوشش کی ہو کہ مظلوم خاندان کو کوئی مدد تو درکار نہیں۔

کسی اخبار یا چینل والے نے کیس کے دوران کوریج نہیں کی اور نہ ہی اپنے ہر دم باخبر رکھنے کے دعوے پر عمل کرتے ہوئے لوگوں کو بتانے کی کوشش کی کہ آج عدالت میں کیا کچھ ہوا۔ ویسے یہ وہی میڈیا والے ہیں جو دوسرے بہت سے کیسوں میں ہر دس سیکنڈ کے بعد بریکنگ نیوز دے رہے ہوتے ہیں کہ اب جج صاحب نے یہ جملہ ادا کیا، اب وکیل یہ بولا اور اب وہ وکیل کچھ نہیں بولا۔ لوگوں نے کیس کے فیصلے کی ایک لائن سنی اور حکومت سمیت عدلیہ پر چڑھ دوڑے۔ کسی نے یہ پوچھنے یا سوچنے کی زحمت نہیں کی کہ عدالت کی ملزموں سے ایسی کون سی رشتے داری تھی کہ وہ سارے انصاف کے تقاضے بھلا کر انہیں رعایت دے رہی تھی۔ کسی نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ مدعی خود کیوں عدالتی فیصلے کو مان رہا ہے اور اسے سراپا احتجاج ہونے میں کیا چیز روک رہی ہے؟

کیا آپ یہ بات جانتے ہیں کہ ہماری عدالتوں میں بیٹھے ہوئے تقریباً ہر جج کا یہ کہنا اور ماننا ہے کہ وہ کیس کی پہلی تاریخ پر ہی سچ اور جھوٹ جان لیتا ہے۔ اسے پتہ چل جاتا ہے کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا، کون واقعی مجرم ہے اور کسے صرف پھنسایا جا رہا ہے۔ روز بلکہ ہر گھنٹے ایک نیا تماشا دیکھتے ہوئے وہ جان لیتا ہے کہ کون دکھ سے رو رہا ہے اور کون صرف اداکاری کر رہا ہے۔ لیکن یہ سارے جج پھر بھی انصاف کی کرسیوں پر خاموش بیٹھے رہتے ہیں، کیونکہ ان کے سامنے جو کاغذ پیش کئے جاتے ہیں وہ کچھ اور کہہ رہے ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے جو گواہ آتے ہیں ان کے بیانات کیس کو کوئی اور رنگ دے رہے ہوتے ہیں۔ ان کے سامنے کھڑے مدعی کچھ اورباتیں کر رہے ہوتے ہیں لیکن ان کے مقدمے کسی اور دفعہ کے تحت درج ہوئے ہوتے ہیں۔ ان ججوں کو وہ قانون کی کتابیں بھی باندھ کر رکھتی ہیں جن کے مطابق فیصلہ کرنا ہوتا ہے۔ اسی وجہ سے ہماری عدالتوں میں سنائے جانے والے نوے فیصد فیصلے غلط تصور کیے جاتے ہیں۔

ان نوے فیصد میں سے ساٹھ سے ستر فیصد لوگ اگلی بڑی عدالت میں فیصلے کے خلاف رجوع کرلیتے ہیں اور باقی پیسوں کا بندوبست نہ ہونے کی وجہ سے ’خدا کی یہی منشاء تھی‘ یا ’غریب کو اس دنیا میں انصاف نہیں مل سکتے‘ جیسے جملوں سے اپنا جیون گزار دیتے ہیں لیکن کبھی دل سے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتے۔ آپ یہ سب نہیں جانتے، کیونکہ آپ نے یہ جملے فلموں میں سنے ہوتے ہیں اور عدالتیں دیکھی ہیں۔ اسی وجہ سے آپ کو نہ تو عدالتی کارروائی سے کوئی مطلب ہوتا ہے اور نہ تفتیش کا کچھ پتہ ہوتا ہے۔ نہ آپ کو قانون کی خبر ہوتی ہے اور نہ کبھی آپ نے فیصلے کی وجوہات جاننے کی کوشش کی ہوتی ہے۔

چلیے ذرا آپ ہی تھوڑی دیر کےلیے جج بن جائیں اور بتائیں کہ سانحہ ساہیوال کا کیس آپ کے سامنے پیش ہوا ہے جس میں کارروائی کرنے والے پولیس اہلکاروں کو موقع پر دیکھنے کے باوجود کوئی شخص گواہ بننے کو تیار نہیں، تو آپ کیسے اور کس بنیاد پر کسی کو کوئی سزا دے سکتے ہیں۔ ایک قدم اور آگے بڑھتے ہیں اور ثبوت میں موجود چار لاشوں کی بنیاد پر اس دن ڈیوٹی پر موجود پولیس والوں کو گرفتار کرلیا جاتا ہے، لیکن قتل ہونے والے شخص کے رشتے دار قاتلوں کو معاف کر دیتے ہیں۔

اب آپ کے سامنے لاشیں بھی موجو دہیں، اعترافی بیان دیئے ہوئے پولیس والے بھی، جن کے پہلو میں وہ شخص بھی کھڑا ہے جو مدعی ہے اور اب سب کو معاف کر چکا ہے۔ قانون کی کون سی شق کے تحت اب آپ بطور جج کسی کو سزا سنائیں گے؟ ابھی تو ہم نے نقلی دستاویزات اور جھوٹے گواہوں سمیت بہت سے وہ حربے جو ہماری عدالتی نظام اور کارروائی میں معمولی حیثیت رکھتے ہیں اور استعمال کیے جاتے ہیں، ان کا ذکر ہی نہیں کیا۔

میشا شفیع اور علی ظفر کا کیس بھی ایسی ہی ایک مثال ہے جس میں محترمہ نے کیس دائر کرتے ہوئے ایک بڑی رقم بطور ہرجانہ کا مطالبہ کردیا۔ ہمیں یہاں نہ تو محترمہ کے کیس سے کوئی مسئلہ ہے اور نہ اس بات سے کہ ہرجانے کی رقم سے ہراسمٹ کیسے ختم ہوجاتی ہے لیکن ہمیں تو مسئلہ اس فضا سے ہے جو میشا شفیع کے الزام کے بعد پورے معاشرے میں قائم ہوئی۔ می ٹو کے نام پر خواتین کو کسی پر بھی کسی بھی طرح کا الزام لگا دینے کی سہولت سے مسئلہ ہوا۔ اس کیس کے دائر ہوتے ہی پورے ملک سے خواتین کے حقوق والی موم بتی مافیا جگہ جگہ جمع ہونا شروع ہوئی۔ بہت سے می ٹووالے سامنے آئے اور کیمرے کی لائف کو انجوائے کرنے لگے۔ مردوں کے خلاف ہونے والی باتیں اس سے الگ تھیں اور ان باتوں سے ایسا تاثر ملتا تھا جسے ہر جگہ جہاں کوئی بھی مرد کسی بھی عورت کے آس پاس بھی نظر آتا ہے وہاں کوئی بھی عورت محفوظ نہیں۔ لوگ پوچھنے لگے کہ اگر اتنی شہرت کے مالک علی ظفر سے ایسا کام وہ بھی بہت سے لوگوں کی موجودگی میں ہوسکتا ہے اور وہ بھی اس خاتون کے ساتھ جو خود ایک اسٹار ہے تو کسی عام سی عورت کی زندگی کتنی غیر محفوظ ہوگی؟

کیس دائر ہوا اور آخر فیصلہ میشا شفیع کے خلاف آگیا۔ کیوں؟ اس کیوں کو کسی نے کھوجنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ کسی نے یہ جاننے کی کوشش ہی نہیں کی کہ میشا شفیع نے جو الزامات لگائے وہ قانون کی کس شق کے تحت قابل سزا بنتے ہیں۔ لوگوں کے سامنے ہراسمٹ کے الزامات لگانے والوں نے کیس کن قانونی دفعات کے تحت لڑا تھا، عدالت میں کب کب اپنے بیان بدلے اور کب کب کس طرح کی استدعا کی۔ عدالتی کارروائی کس کس موڑ سے گزرتی ہوئی اس مقام پر پہنچی جہاں فیصلہ میشا شفیع کے خلاف آیا۔

نہیں، کسی کے پاس اتنا وقت نہیں کہ وہ یہ سب جانے۔ کیوں کہ ہم ایک تیز ترین زندگی کے دور میں جی رہے ہیں جہاں ایسی باتوں کے لیے کوئی وقت نہیں ہوتا۔ اسی وجہ سے ایک اکثریت اس بات سے ہی لاعلم ہو گی کہ میشاشفیع کا پورا کیس ورکنگ وومن کی ہراسمٹ کے قانون سے لڑنے کی کوشش کی گئی، مگر نہ تو علی ظفر میشا کا باس ثابت ہوسکتا تھا اور نہ مس میشا خود کو علی ظفر کے پاس نوکری کرتا ثابت کرسکتی تھیں، لیکن پھر بھی پورا کیس ورکنگ وومن کی ہراسمٹ کے طور پر درج ہوا اور لڑا گیا۔

اب عدالت کو برا بھلا کہنے اور فیصلے کے خلاف بولنے والے خود بتا دیں کہ کیسے فیصلہ عورت کے حق میں آسکتا تھا۔

یقیناً ہمارے عدالتی نظام میں بہت سی خرابیاں اور کمیاں ہیں لیکن اس نظام سے آتی ہوئی بدبو وہ کچرا ہے جو عام آدمی نے پھیلایا ہوا ہے۔ کہیں ذاتی انا اسے دوسروں پر کیس کرنے پر مجبور کردیتی ہے تو کہیں وہ حالات کا رونا روتے ہوئے آخری لمحے میں اپنے بیان سے ہی بدل جاتا ہے۔ کہیں عدالت سے باہر باتیں کچھ اور ہوتی ہیں جبکہ کیس کسی اور دفع کے تحت درج ہوتا ہے اور کہیں ہمارے جھوٹے کاغذات اور گواہ ہی عدالت کے فیصلے پر اثر انداز ہوجاتے ہیں اور اس سب سے آخر میں ہمارا جاننا اور ماننا یہی ہوتا ہے کہ آج کی عدالت میں غریب کی کوئی جگہ نہیں اور آج کا عدالتی نظام کسی غریب کو انصاف نہیں دے سکتا۔

واقعی یہ نظام کبھی بھی کسی غریب چھوڑ امیر کو بھی انصاف نہیں دے سکے گا اگر ہم نے عدالتوں کا ایسے ہی تماشا بنائے رکھا یا پھر عدالتوں میں اپنے تماشے لگائے رکھے۔ اگر ہمیں انصاف چاہیے تو پھر سب کو سارے تماشے بند کرنے ہوں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔