شامی اور ترک فورسز میں جھڑپیں

ایڈیٹوریل  جمعـء 1 نومبر 2019
امریکا کے شام سے نکل جانے کو ترکی اور روس کے علاوہ ایران کی طرف سے بھی ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔ فوٹو : فائل

امریکا کے شام سے نکل جانے کو ترکی اور روس کے علاوہ ایران کی طرف سے بھی ہدف تنقید بنایا گیا ہے۔ فوٹو : فائل

شامی فوجی دستوں اور ترک فوج کے درمیان شام کے سرحدی قصبے راس العین میں جھڑپ ہوئی ہے، اس کا اعلان شام کے سرکاری میڈیا نے کیا ہے جب کہ ترکی کا کہنا ہے کہ وہ کرد ملیشیا کے خلاف سرحد پار ایک اور آپریشن کرے گا۔ شامی میڈیا نے کہا ہے کہ ترک فوج نے راس العین کے ارد گرد کے دیہات پر قبضہ کر لیا ہے۔

حالیہ دنوں میں شامی اور ترک فوجوں کے درمیان اور بھی کئی جھڑپیں ہوئی ہیں۔ ترکی کا کہنا ہے کہ وہ سرحد پار جنوب میں 30کلو میٹر کا علاقہ خالی کرانا چاہتا ہے تاکہ وہاں سے کرد جنگجو ترکی پرحملہ نہ کر سکیں۔ امریکا اور روس بھی متذکرہ علاقے کو جنگجوؤں سے خالی کرانے کی حمایت کر رہے ہیں کیونکہ ترکی اور روس کی ڈیل ہو چکی ہے۔ سرحد کے قریب یہ وہ علاقہ ہے ۔

جس پر شامی حکومت کا آٹھ سالہ جنگ کے بعد قبضہ ختم ہو چکا تھا۔ انقرہ میں ترک صدر رجب طیب اردوان نے اے کے پارٹی کے اراکین اسمبلی سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ کردوں نے روس کی طرف سے یقین دہانی کے باوجود اس اہم سرحدی علاقے کو مکمل طور پر خالی نہیں کیا جب کہ ڈیل کی ڈیڈ لائن ختم ہو رہی ہے۔ ترکی کردوں کی جماعت ’’وائی بی جی‘‘ کو دہشت گرد تنظیم قرار دیتا ہے جب کہ ترکی سرحد پار کے اس علاقے کو ’’محفوظ زون‘‘ میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔

صدر اردوان نے کہا ہے کہ اگر کردوں نے 30 کلو میٹر کے علاقے کو خالی نہ کیا تو ان کے خلاف مزید فوجی کارروائی کی جائے گی۔ شام کی جمہوری فوج (ایس ڈی ایف) میں وائی پی جی (کرد جنگجوؤں) کو  بنیادی حیثیت حاصل ہے جو شمالی شام میں امریکی فوجوں کے ساتھ مل کر جنگ میں مصروف ہیں۔

ترکوں کی حمایت میں فورسز نے 9اکتوبر کو شام کی سرحد پر حملہ کیا تھا جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اچانک امریکی فوج کو اس علاقے سے نکال لیا تھا۔ امریکی افواج کے انخلا کے بعد ترکی کو وہاں کارروائی کرنے کا  موقع مل گیا ۔ تازہ صورتحال میں شامی سرحد پر روس اور ترکی کی فوج کے مشترکہ گشت کی بات بھی کی جا رہی ہے۔

یہ گشت شام کے اندر سرحد سے10 کلو میٹر کے فاصلے پر ہو گی لیکن ترک صدر اردوان نے کہا ہے کہ اس سے قبل وہ چاہتے ہیں کہ روس اور شام کے ساتھ اس معاملہ میں بات چیت کی جائے تاکہ گشت کرنے والی فورسز کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی جا سکے۔

امریکا کے شام سے نکل جانے کو ترکی اور روس کے علاوہ ایران کی طرف سے بھی ہدف تنقید بنایا گیا ہے کیونکہ اس طرح شام ترکی کے براہ راست حملے کی زد میں آ سکتا ہے۔ادھر شام کرد جنگجوؤں پر زور دے رہا ہے کہ وہ براہ راست شامی فوج کے ساتھ شامل ہو جائیں تاکہ ترک فوج کا مقابلہ کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔