حکومت اور سرمایہ کاروں میں بد اعتمادی

بابر ایاز  جمعـء 1 نومبر 2019
ayazbabar@gmail.com

[email protected]

ممتازکاروباری افراد کے وفود کے ساتھ ، انھیں یہ یقین دلانے کے لیے کہ نیب ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرے گا، وزیر اعظم اور آرمی چیف کی حالیہ الگ الگ ملاقاتوں سے مجھے ایک واقعہ یاد آگیا جو مسلم چیمبرآف کامرس بمبئی کے پہلے سیکریٹری جنرل ایس ایم جمیل نے مجھے بتایا تھا۔

ان کے مطابق قائد اعظم نے انھیں کہا کہ وہ مسلمان کاروباری افرادکو پاکستان آنے اور وہاں سرمایہ کاری پر آمادہ کریں۔ اس وقت تک پاکستان قائم نہیں ہوا تھا، جب اجلاس بلایا گیا تو ان کاروباری لوگوں نے کہا کہ وہ اس شرط پر پاکستان میں سرمایہ کاری کریں گے کہ ان سے اس بارے میں کوئی سوال نہیں کیا جائے گا کہ یہ دولت کہاں سے آئی۔ ان میں سے زیادہ تر کاروباری افراد نے دوسری عالمی جنگ میں خوب پیسہ کمایا تھا اور اپنے کالے دھن پرکوئی ٹیکس ادا نہیں کیا تھا۔

ایس ایم جمیل نے کہا کہ جب قائد اعظم کو اس بارے میں آگاہ کیا گیا کہ مسلم بزنس مین یہ یقین دہانی چاہتے ہیں کہ اصل آمدنی کو چھپانے پر ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی تو جناح نے کہا کہ اس معاملہ پر غلام محمد کے ساتھ بات کی جائے جو اُس وقت آل انڈیا مسلم لیگ کے ایک منجھے ہوئے مالیاتی ماہر تھے اور بعد میں پاکستان کے پہلے وزیر خزانہ بنے۔

غلام محمد نے ایس ایم جمیل کو یقین دلایا کہ ان کاروباری لوگوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی جائے گی کیونکہ پاکستان ایک نیا ملک ہوگا۔ اس کے کئی سال بعد جب یہ کہا گیا کہ ٹیکسٹائل انڈسٹری نے پانچ بلین ڈالرکی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے تو میں نے ایک سینئر بینکار سے پوچھا کہ سرکاری ریکارڈ میں تو نجی شعبہ کے قرضے کم نظر آتے ہیں تو پھر یہ دعویٰ کیوں کیا جا رہا ہے اور یہ رقم کہاں سے آئی تھی؟

انھوں نے وضاحت کی کہ یہ رقم غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس سے آئی تھی جو ان لوگوں نے اپنی برآمدات کی انڈر انوائسنگ سے بیرون ملک رکھی ہوئی تھی۔ پاکستان میں استعمال ہونے والے ٹیکسٹائل فیبرک کا سرے سے کوئی ریکارڈ نہیں رکھا جاتا۔ فیصل آباد یارن مارکیٹ نقد کی بنیاد پرکام کرتی ہے اور ہول سیل بولٹن مارکیٹ میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے۔ ریڈی میڈ گارمنٹس کی مارکیٹ میں بھی نقد پر لین دین ہوتا ہے۔

نواز شریف کی حکومت نے یہ قانون بنایا تھا کہ پاکستانی غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹ کھول سکتے ہیں اور ان سے ان کے پیسے کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا جائے گا۔ اس سے پاکستان کو اس وقت فائدہ ہوا جب جوہری دھماکے کے بعد امریکی اپوزیشن کی طرف سے پابندیاں عائد کی گئیں ، اگر میری یادداشت صحیح ہے تو اس اسکیم کے تحت جمع ہونے والی رقم 11 بلین ڈالر تھی اور اس وقت کے اسٹیٹ بینک کے گورنر نے کہا تھا کہ اس رقم کو وہ لوگ جن کے یہ غیر ملکی اکاؤنٹس ہیں اثاثے نیوٹرلائز ہونے کی صورت میں استعمال کرسکیں گے۔ اس وقت کے وزیر خزانہ سرتاج عزیز نے اس اسکیم کی مخالفت کی تھی مگر جب فیصلہ ہوگیا تو اس بھلے آدمی نے بھی اسے قبول کر لیا۔

کھاتے داروں کو پیشکش کی گئی کہ وہ 46 روپے فی ڈالرکے حساب سے غیر ملکی کرنسی کو تبدیل کرا سکتے ہیں۔ آج بھی غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس کی صورت میں 6 بلین ڈالر بینکوں میں موجود ہیں۔ حکومت اپنے وعدے سے مکرگئی ہے اور اس نے کہا ہے کہ دھن کو سفید کرنے کے لیے، اگر وہ پاکستان میں غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس میں ہے تو5 فیصد اور اگر ملک سے باہر ہے تو6 فیصد ٹیکس دینا ہوگا۔

یہ عوام اور بینکوں کے درمیان معاہدے کی خلاف ورزی ہے کیونکہ اکاؤنٹس اس کلیئرنس کے ساتھ کھولے گئے تھے کہ جب تک پیسہ غیرملکی کرنسی اکاؤنٹس میں ہے۔ آمدنی کے ذرایع کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا جائے گا، مگر اس پر حیرت نہیں ہوتی کیونکہ ایف بی آرکے نئے چیئرمین ہمیشہ سے اس اسکیم کے مخالف تھے، ان کا خیال تھا کہ اس طرح کالا دھن سفیدکیا جاتا ہے، مگر شبر زیدی اس بات کو نہیں سمجھتے کہ لوگ اپنے غیر ملکی کرنسی اکاؤنٹس میں پیسہ وصول کر رہے ہیں اور اس سے پاکستان میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔

مریم نوازکا کیس دیکھیے، انھوں نے بیرون ملک اپنے بھائیوں سے جو غیر ملکی کرنسی لی ، اسے انھوں نے چوہدری شوگر ملز میں لگایا جس کا ان پر مقدمہ چل رہا ہے۔یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ ایف اے ٹی ایف کے تحت حکومت کو منی لانڈرنگ کے راستے بندکرنے ہیں مگر یہ صرف دہشت گردی کے لیے سرمایہ کاری(ٹیرر فنانسنگ)تک محدود رہنا چاہیے۔ صاف ظاہر ہے کہ افغان طالبان کے سرمائے کے ذرایع غیر واضح ہیں اورکسی کو معلوم نہیں کہ وہ پوری دنیا میں سفرکرنے کے لیے ٹکٹ کس طرح خریدتے ہیں۔ یہ بھی دہشت گردی سے متعلق سرمایہ کاری ہے۔

حکومت اس بات کو بھی نہیں سمجھ سکی کہ ڈاکٹر محبوب الحق کی طرف سے متعارف کرائے جانے والے فارن ایکسچینج سرٹیفکیٹس قانونی دستاویزات ہیں۔ انھوں نے ایک انٹرویو میں مجھے بتایا تھا کہ ان کا مقصد فارن ایکسچینج مینوئل پر مضبوط کنٹرول کو کم کرنا تھا، جس میں زرمبادلہ کی نقل وحرکت پر سخت شرائط عائد تھیں۔

ڈاکٹر محبوب الحق  نے  “whitener bonds” بھی متعارف کرائے جس کے تحت مقامی کرنسی میں کالا دھن سفید کرایا جا سکتا تھا ، مگر اس وقت بہت سے کاروباری لوگوں نے کہا تھا کہ وہ اپنی ساری رقم ظاہر نہیں کریں گے کیونکہ انھوں نے کچھ رقم ان افسروں کو رشوت دینے کے لیے بھی رکھنی ہے جو فیکٹری کے گیٹ پر آتے ہیں۔ اس وقت26 ایسے محکمے تھے جنھیں وزٹ کرنے اور ’’بخشش‘‘ مانگنے کا اختیار تھا۔

اب بھی اگر آپ ان ٹیکسوں کا ریفنڈ لینا چاہیں جو سورس پر منہا کر لیے جاتے ہیں تو انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں اس کی شرح 20 فیصد ہے، مجھے ذاتی طور پر اپنے ریفنڈزکا تجربہ ہے۔ FTO کے حکم کے با وجود عمل درآمد نہیں کیا گیا۔ لوگ سیکیورٹی اسٹیٹ میں نہیں بلکہ فلاحی ریاست میں ایمانداری سے ٹیکس دیتے ہیں۔ عدم استحکام کا بھی ایک عنصر موجود ہے جو لوگوں کو ساری دولت ظاہر کرنے سے روکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔