سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹی فکیشن معطل کردیا

ویب ڈیسک  منگل 26 نومبر 2019
کابینہ کی اکثریت نے آرمی چیف کی توسیع پر کوئی رائے نہیں دی، وزیراعظم کو آرمی چیف تعینات کرنے کا اختیارنہیں، چیف جسٹس

کابینہ کی اکثریت نے آرمی چیف کی توسیع پر کوئی رائے نہیں دی، وزیراعظم کو آرمی چیف تعینات کرنے کا اختیارنہیں، چیف جسٹس

 اسلام آباد: سپریم کورٹ نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کاحکم نامہ معطل کرتے ہوئے اسے عوامی اہمیت کا معاملہ قراردیتے ہوئے ازخود نوٹس لے لیا۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں جسٹس مظہر عالم اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بنچ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف جیورسٹ فاؤنڈیشن کی درخواست کی سماعت کی۔

درخواست گزار ریاض حنیف راہی عدالت میں پیش نہ ہوئے اور ان کی جانب سے آرمی چیف کی مدت میں توسیع کے خلاف اپنی درخواست واپس لینے کی استدعا کی گئی۔

کیس واپس لینے کی استدعامسترد

عدالت نے استدعامسترد کرتے ہوئے کہا کہ کیس واپس لینے کیلئے ہاتھ سے لکھی درخواست کیساتھ کوئی بیان حلفی نہیں، معلوم نہیں مقدمہ آزادانہ طورپرواپس لیا جا رہا ہے یا نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کردی

اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور نے بتایا کہ 29 نومبر کو آرمی چیف ریٹائر ہو رہے ہیں، ان کی مدت ملازمت میں توسیع کا نوٹیفکیشن صدر مملکت کی منظوری کے بعد جاری ہوچکا۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ صدر کی منظوری اور نوٹیفکیشن دکھائیں۔ اٹارنی جنرل نے دستاویزات اور وزیراعظم کی صدر کوسفارش عدالت میں پیش کی۔

وزیراعظم کو آرمی چیف تعیناتی کا اختیارنہیں

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم کو آرمی چیف تعینات کرنے کا اختیارنہیں، یہ اختیارصدر کا ہے، یہ کیا ہوا پہلے وزیراعظم نے توسیع کا لیٹرجاری کردیا، پھروزیراعظم کو بتایا گیا توسیع آپ نہیں کر سکتے تو صدر نے 19 اگست کو منظوری دی، پھر وزیراعظم نے کیا 21 اگست کو دوبارہ منظوری دی؟۔

اٹارنی جنرل نے بتایا کہ کابینہ کی منظوری ضروری تھی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا صدر مملکت نے کابینہ کی منظوری سے پہلے ہی توسیع کی منظوری دی اور کیا کابینہ کی منظوری کے بعد صدر نے دوبارہ منظوری دی؟۔

توسیع کیلئے رولزمیں کوئی مخصوص شق نہیں

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ آئین میں آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کا اختیارکہاں ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ آرمی چیف کی توسیع کا اختیاروفاقی کابینہ کا ہے۔ جسٹس منصورعلی شاہ نے پوچھا کہ کیا آرمی چیف کی توسیع کیلئے رولزمیں کوئی شق موجود ہے؟۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مدت ملازمت میں توسیع کیلئے کوئی مخصوص شق موجود نہیں۔

آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کا اختیار نہیں

چیف جسٹس نے کہا کہ سمری میں توسیع لکھا گیا جبکہ نوٹیفکیشن میں آرمی چیف کا دوبارہ تقرر کردیا گیا، قواعد میں آرمی چیف کی توسیع یا دوبارہ تقرری کا اختیار نہیں، حکومت صرف ریٹائرمنٹ کو معطل کر سکتی ہے، آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ ابھی ہوئی نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف نے 3 ریٹائرڈ افسران کوسزادی، ان کی ریٹائرمنٹ معطل کرکے ان کا ٹرائل کیا گیا اورسزادی گئی۔

سیکورٹی کو تو ساری فوج دیکھتی ہے

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ علاقائی سیکورٹی کی بنیاد پر آرمی چیف کی دوبارہ تقرری کی گئی، سیکورٹی کا ایشوتو ہر وقت رہتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ سیکورٹی کو تو صرف آرمی چیف نے نہیں بلکہ ساری فوج نے دیکھنا ہوتا ہے۔ اٹارنی جنرل نے نکتہ اٹھایا کہ تقرری کرنے والی اتھارٹی توسیع کا اختیار بھی رکھتی ہے، ریٹائرمنٹ کی معطلی تو کچھ دیر کیلئے ہوگی۔

کابینہ کی اکثریت نے توسیع پر رائے نہیں دی

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ دستاویزات کے مطابق کابینہ کی اکثریت نے توسیع پر کوئی رائے نہیں دی، 25 رکنی کابینہ میں سے صرف 11 نے توسیع کے حق میں رائے دی، 14 ارکان نے عدم دستیابی کے باعث کوئی رائے نہیں دی، کیا حکومت نے ارکان کی خاموشی کو ہاں سمجھ لیا؟ جمہوریت میں فیصلے اکثریت کی بنیاد پر ہوتے ہیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ جنہوں نے رائے نہیں دی انہوں نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ کیا کابینہ ارکان کو سوچنے کا موقع بھی نہیں دینا چاہتے، کابینہ کے 14 ارکان نے ابھی تک آرمی چیف کی توسیع پرہاں نہیں کی۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کابینہ میں توسیع کی کوئی وجوہات زیر بحث نہیں آئی، کیا کابینہ نے توسیع کی منظوری دیتے ہوئے اپنا ذہن استعمال کیا۔

کیا 3 سال تک ہنگامی حالات رہیں گے

چیف جسٹس نے کہا کہ آرمی چیف کی توسیع کی ٹرم فکس کیسے کر سکتے ہیں، یہ اندازہ کیسے لگایا گیا کہ 3 سال تک ہنگامی حالات رہیں گے، ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے، آرمی چیف کی مدت میں 3 سال کی توسیع کسی رول کے تحت ہوئی، وہ رول آپ نہیں دکھا رہے۔

پہلا ازخود نوٹس

سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن معطل کرتے ہوئے اس کیس کو مفاد عامہ کا معاملہ قراردیتے ہوئے درخواست کو ازخود نوٹس میں تبدیل کردیا۔ اٹارنی جنرل نے نوٹیفکیشن معطل نہ کرنے کی درخواست کی جسے عدالت نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف کی ریٹائرمنٹ میں ابھی وقت ہے۔

عدالت نے آرمی چیف کو فریق بناتے ہوئے ان سمیت وزارت دفاع اور وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا اور سماعت کل تک ملتوی کردی۔

چیف جسٹس پاکستان آصف سعید کھوسہ کا یہ پہلا از خود نوٹس ہے۔

عدالتی حکمنامہ

بعدازاں عدالتی حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا گیا وزیراعظم نے 19 اگست کو اپنے طور پرتعیناتی کا نوٹیفکیشن جاری کیا، بعد میں غلطی کا احساس ہوا اور وزیراعظم نے صدر کو سمری بھجوائی، صدر نے اسی روز منظوری دیدی،  صدر کی منظوری کے بعد معاملہ کابینہ میں پیش کیا گیا، لیکن کابینہ سے منظوری کے بعد سمری دوبارہ وزیراعظم اور صدر کو پیش نہیں کی گئی۔

یہ خبر بھی پڑھیں: وزیرقانون بیرسٹرفروغ نسیم نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا

فوج کا ہر افسردوبارہ تعیناتی چاہے گا

حکم نامہ میں کہا گیا کہ توسیع کے نوٹی فکیشن میں وجہ یہ بتائی گئی کہ علاقائی سکیورٹی صورتحال کے پیش نظر آرمی چیف کو توسیع دی جا رہی ہے، لیکن علاقائی سکیورٹی سے نمٹنا فوج کا بطور ادارہ کام ہے کسی ایک افسر کا نہیں، اگر علاقائی سکیورٹی کی وجہ مان لیں توفوج کا ہر افسردوبارہ تعیناتی چاہے گا، لہذا اٹارنی جنرل مدت ملازمت میں توسیع یا نئی تعیناتی کا قانونی جواز فراہم نہ کرسکے۔

چھکڑا گھوڑے کے آگے باندھنا

عدالت نے قرار دیا کہ آرمی رولز کے تحت ریٹائرمنٹ کوعارضی طور پرمعطل کیا جا سکتا ہے، ریٹائرمنٹ سے پہلے ریٹائرمنٹ معطل کرنا چھکڑا گھوڑے کے آگے باندھنے والی بات ہے، کیس میں اٹھنے والے تمام نکات کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ 19 اگست کو جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں 3 سال کی توسیع کی گئی تھی۔ وزیراعظم آفس سے جاری نوٹی فکیشن کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ مدت مکمل ہونے کے بعد جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید 3 سال کے لیے آرمی چیف مقرر کردیا۔

یہ خبر بھی پڑھیں: وفاقی کابینہ نے آرمی چیف کی مدتِ ملازمت میں توسیع کی منظوری دے دی

آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف جیورسٹ فاؤنڈیشن کی جانب سے یہ درخواست کل ہی دائر ہوئی تھی اور آج اسے سماعت کے لیے مقرر کیا گیا تھا جبکہ اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور بغیر نوٹس کے خود عدالت میں پیش ہوئے اور کیس کی پیروی کی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔