وکلا کا لاہور میں دل کے اسپتال پر دھاوا

ایڈیٹوریل  جمعـء 13 دسمبر 2019
دھاوے کی شدت اس قدر ہولناک تھی کہ سیکڑوں وکلا نے ایمرجنسی گیٹ توڑا، آپریشن تھیٹر میں مشینیں تباہ کر دیں۔ فوٹو:ٹوئٹر

دھاوے کی شدت اس قدر ہولناک تھی کہ سیکڑوں وکلا نے ایمرجنسی گیٹ توڑا، آپریشن تھیٹر میں مشینیں تباہ کر دیں۔ فوٹو:ٹوئٹر

لاہور میں وکلاء کی بڑی تعداد نے بدھ کو پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ کیا اور ایمرجنسی، آئی سی یو، آپریشن تھیٹر اور وارڈز میں گھس کر زبردست توڑ پھوڑ کی جس کے باعث طبی امداد نہ ملنے پر3 مریض جاں بحق ہوگئے۔

دھاوے کی شدت اس قدر ہولناک تھی کہ سیکڑوں وکلا نے ایمرجنسی گیٹ توڑا، آپریشن تھیٹر میں مشینیں تباہ کر دیں، پولیس وین کو نذر آتش کیا، 30گاڑیوں کو نقصان جب کہ صوبائی وزیر اطلاعات فیاض چوہان کوبھی تشدد کا نشانہ بنایا ، صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد کا گھیراؤکیا، لیکن وقوعہ کا منظرنامہ پنجاب حکومت کی نا تدبیری ، قوت فیصلہ کی کمی ، پولیس اور انتظامیہ کی مکمل ناکامی کا منہ بولتا ثبوت تھا ، پولیس نے لاہورکی ضلع کچہری سے نکلنے والے جلوس کا راستہ نہیں روکا، مشتعل اور نعرے لگاتا ہوا جلوس کئی کلومیٹرکا فاصلہ طے کرتا ہوا پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں داخل ہوا۔

پولیس فورس کھڑی تماشا دیکھتی رہی، اوردل کے اسپتال میں تباہی ، غنڈہ گردی اور لاقانونیت کے دل خراش مناظر نے قوم کے اعصاب جھنجھوڑ کر رکھ دیے، پاکستان کی تاریخ میں ایسا درد انگیز اور افسوسناک سانحہ کبھی دیکھنے میںنہیںآیا جہاں وکلا کے مہذب پیشے سے وابستہ برادری کے لوگوں نے اپنی قانون دانی کا تقدس داغدارکیا، قانون کے تحفظ اور پیشہ وکالت کے تقدیس کو خاک میں ملادیا۔ عینی شاہدین اور لواحقین کے مطابق بعض مشتعل وکلا نے مریضہ کا آکسیجن ماسک اتار دیا، سیلنڈر پھینک دیے۔

بھگدڑ مچنے اور شیلنگ سے کئی مریضوں کی حالت غیر ہوگئی،کچھ کو وہیل چئیرز پرگراؤنڈ پر منتقل کیا گیا،کئی ماہ کے بعد ہونے والے آپریشن منسوخ کیے گئے، ایک ایک ایسی افراتفری تھی جو ناقابل بیان اور انتہائی غیر انسانی اور دلگداز  بتائی گئی۔ وزیراعظم عمران خان نے واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے پنجاب کے چیف سیکریٹری اور آئی جی سے رپورٹ طلب کر لی ہے تاہم سانحہ کا قابل غور پہلو یہ ہے کہ تنازع کی پیشگی اطلاع سب کو تھی۔ وزیر اعظم، چیف سیکریٹری، وزیر قانون، وزیرداخلہ،آئی جی، وزیر صحت، وزیر اطلاعات معاونین خصوصی ڈاکٹروں اور وکلا کے مابین جھگڑے سے واقف تھے۔

وکلا نے انتباہ بھی کیا تھا کہ وہ ڈاکٹرز سے بدلہ بھی لیں گے ، مگر انتظامی سطح پر خواب غفلت کا تعجب خیز مظاہرہ دیکھنے میں آیا جو بلاشبہ حکومتی سطح پر بے حسی، مجرمانہ تساہل اور تجاہل عارفانہ کا شرمناک مظہر تھا، یہ ناکامی عثمان بزدار اینڈ کمپنی اور انھیں تعینات کرنے والوں کی بھی ہے۔ سول سوسائٹی نے سوال اٹھا دیے کہ پولیس کی وہ مستعد وچاق چوبند فورس کہاں غائب رہی؟

کسی نے وکلا کے ریلے کو راستے میں ہی روکنے کی کوشش نہیں کی، اور نہ ان کے خلاف پیشگی اقدامات کیے۔کسی ایس پی، ڈیس ایس پی کے خلاف کارروائی نہیں ہوئی۔ شہری حلقوں، اپوزیشن رہنماؤں اور میڈیا نے پولیس اور پنجاب انتظامیہ سمیت حکومت کی لاچاری پر مایوسی اور برہمی ظاہرکی۔

میڈیا میں آنے والی ابتدائی تفصیلات کے مطابق پی آئی سی میں 23 نومبرکو ڈاکٹروں اور وکلاء میں جھگڑا ہوا تھا جس کے دوسرے دن ایک ڈاکٹر کی طرف سے تضحیک آمیزگفتگوکی ویڈیوکے وائرل ہونے پر وکلا مشتعل ہوگئے۔ وکلا نے اپنا احتجاج ریکارڈ کروانے کے لیے ایوان عدل سے مارچ کرتے ہوئے پی آئی سی کا رخ کرلیا جس کے بعد سیکڑوں وکلا پی آئی سی کے سامنے جمع ہوگئے۔ پولیس کے اعلیٰ حکام معاملے کی سنگینی دیکھ کر موقع پر پہنچے لیکن ان کے وکلا سے مذاکرات ناکام ہوگئے اور وکلا نے قانون ہاتھ میں لے کر اسپتال پر حملہ کر دیا۔ پی آئی سی کی ایمرجنسی میدان جنگ بن گئی۔

ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ایمرجنسی، آئی سی یو، آپریشن تھیٹر، وزیٹنگ روم اور دیگر وارڈز کے شیشے ٹوٹ گئے جب کہ ای سی جی مشینیں اور مصنوعی تنفس کی مشینیں بھی توڑ دی گئیں۔ وکلا بپھرے ہوئے تھے، انھوں نے ایمرجنسی کو مکمل تباہ کردیا ، آپریشن تھیٹر میں موجود ڈاکٹرز اورعملے نے دوران آپریشن بھاگ کر جان بچائی، اسپتال کے احاطے میں موجود ڈاکٹروں اور دیگر افراد کی متعدد گاڑیاں بھی توڑ دی گئیں۔

لوگوں نے ٹی وی چینلز پر دیکھا کہ اسپتال میں افراتفری کا منظر تھا۔ مریض بے آسرا پھرتے رہے، ڈاکٹر، پیرا میڈکس، نرسز اور دیگر عملے میں خوف وہراس پھیل گیا اور وہ ہاسٹل اور قریبی عمارتوں میں جا کر چھپ گئے۔ بروقت طبی امداد نہ ملنے کی وجہ سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق ہوگئے ۔

پولیس کی نئی انتظامیہ بھی بر وقت فیصلہ کرنے کی ناکام رہی، بروقت نفری تعینات نہ کرنے سے امن وامان کی صورت حال بگڑی جس سے پولیس کا اپنا اور سرکاری املاک کا نقصان ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ وکلا سے ایس ایس پی آپریشنز نے ریس کورس اور چائنہ چوک مذاکرات کی کوشش ضرورکی لیکن رکاوٹ لگا کر مشتعل وکلا کو پی آئی سی داخل ہونے سے نہ روکا گیا ۔

وکلا نے پہلے اسپتال کے سامنے نعرے بازی کی اور ڈاکٹروں کو للکارتے ہوئے اسپتال میں داخل ہوگئے۔ اینٹی رائٹ پولیس کے چند جوان اور ایس ایس پی آپریشن سیکڑوں وکلا کے سامنے بے بس ہو کر خاموش تماشائی بنے رہے۔ توڑ پھوڑ پر حالات بے قابو ہوئے تو پولیس نے کریک ڈاؤن کا حکم دیا، جس پر پولیس نے آنسو گیس شیلنگ اور ڈنڈوں سے وکلا پر دھاوا بول کر منتشر کیا۔ منتشر ہوتے ہوئے وکلا نے پولیس وین کو آگ لگا دی اور پولیس پر پتھراؤ کیا، جھڑپ میں بیس سے زائد اہلکار اور تیس سے زائد وکلا زخمی ہوگئے، احتجاج کے دوران کچھ وکلا فائرنگ بھی کرتے رہے۔

اسی دوران صوبائی وزیر فیاض الحسن چوہان جو صورت حال کاجائزہ لینے آئے تھے بھی وکلا کے ہتھے چڑھ گئے، وکلا کے مشتعل گروہ نے فیاض الحسن چوہان کو تشدد کا نشانہ بنایا اور بال نوچے جس کے بعد پولیس کی بھاری نفری نے وزیر کو وکلا کے نرغے سے نکالا۔ پولیس نے پچاس سے زائد وکلاء کو گرفتار کرلیا ۔ ہنگامہ آرائی کے دوران جیل روڈ، مال روڈ اور دیگر شاہراہوں پر ٹریفک کا نظام بری طرح متاثر ہوا۔ صوبائی وزیر صحت یاسمین راشد پی آئی سی پہنچیں تو انھیں اندر داخل نہیں ہونے دیا گیا۔

وکلا نے دل کے اسپتال پر ہلہ بول کر ناقابل معافی جرم کیا ہے، پی آئی سی کے واقعہ کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کرائی جائیں اور اس میں ملوث عناصرکو بلا امتیاز ان کے پیشہ ورانہ وابستگیوں اور طبقے کے تعصبات کے کیفر کردار تک پہنچایا جائے، اگر حکومتی اکابرین کے مطابق سانحہ میں ن لیگی عناصر کے ملوث ہونے کے شواہد ہیں تو سی سی ٹی فوٹیج نکالی جائے، پنجاب حکومت فوری ایکشن لے، حکومتی مشینری  فعال ہوکر بلوائیوں کو پکڑے۔ ہم وکلا تنظیموں، ان کی قیادت اور ڈاکٹروں سے بھی استدعاکرتے ہیں کہ وہ سوچیں، ملک کو کس نہج پر لے کر جا رہے ہیں، دنیا بھر میں جگ ہنسائی ہوئی ہے ، وکلا اور مسیحا اپنے سفید وکالے کوٹ کے وقار اور اپنے طرز عمل کے مضمرات و نتائج پر ٹھنڈے دل سے غور کریں۔

یہ حملہ امراض قلب کے حساس مقام پر ہی نہیں دکھی انسانیت کے قلب پر حملہ ہوا ہے، یاد رکھئے، دنیائے فٹ بال کے لیجنڈری اسٹار برازیلین ’’ پیلے‘‘ کا میچ دیکھنے کے لیے  1969ء نائجیریا کی خانہ جنگی میں شامل دو متحارب گروپوں نے 48گھنٹے کی جنگ بندی کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ان کا میچ دیکھا تھا ، پھر جنگ شروع کی تھی۔ کیا وکلا اور ڈاکٹر برادری کے لیے اس واقعہ سے سبق سیکھنے کا کوئی چشم کشا سامان نہیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔