وزیر اعظم کو داخلی اور خارجی محاذوں پر غیر معمولی صورتحال کا سامنا

ارشاد انصاری  بدھ 18 دسمبر 2019
وزیراعظم عمران خان بھی اپنے قریبی رفقاء و قانونی ماہرین سے مشاورت کر رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان بھی اپنے قریبی رفقاء و قانونی ماہرین سے مشاورت کر رہے ہیں۔

 اسلام آباد: سپریم کورٹ کے آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق تفصیلی فیصلہ تمام حلقوں میں زیر بحث ہے۔

چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کی جانب سے فیصلے کے آخر میں لکھے جانے والے اضافی نوٹ کو بہت اہم تصور کیا جا رہا ہے جس میں انہوں نے چیف جسٹس آف انگلینڈ سر ایڈورڈ کوک کے ایک فیصلے کا حوالہ دیتے ہوئے  کہا کہ آرمی چیف کی ملازمت کے قواعد بنانے سے بہت سی تاریخی غلطیوں کو درست کیا جاسکتا ہے۔

آرمی چیف کا عہدہ کسی بھی عہدے سے زیادہ طاقتور ہے جو اہم حیثیت اور لا محدود اختیارات کا حامل ہوتا ہے اس لیے غیر متعین صوابدید خطرناک ہو سکتی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ متعدد فیصلوں میں کہہ چکی ہے کہ قانونی سازی کرنا پارلیمنٹ کااختیار ہے، ادارہ جاتی روایات قوانین کا متبادل نہیں ہو سکتیں۔ سپریم کورٹ نے فیصلے میں یہ بھی حکم دیا ہے کہ وفاقی حکومت ایکٹ آف پارلیمنٹ کے تحت آرٹیکل 243 کے دائرہ کار کا تعین کرے۔

فیصلے سے چند روز قبل وفاقی وزیر سائنس اینڈ ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے انٹرویو میں کہا تھا کہ تفصیلی فیصلہ آنے کے بعد اس کا جائزہ لے کر فیصلہ کیا جائیگا اور اب سپریم کورٹ کا تحریری فیصلہ آنے کے بعد بھی فواد چوہدری کا اسی قسم کا ردعمل سامنے آیا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت کا تعین پارلیمان لازماً کرے اور ساتھ انہوں نے یہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ سپریم کورٹ یہ حکم کیسے دے سکتی ہے؟ جبکہ روایات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔

یہ کہنا درست تشریح نہیںاپنی ٹویٹ میں فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ سوال یہ ہے کہ ملک میں سپریم کون ہے پارلیمان یا سپریم کورٹ؟کیاسپریم کورٹ پارلیمنٹ کو کوئی مخصوص قانون بنانے کا کہہ سکتی ہے؟ اگر کہہ سکتی ہے تو پھر پارلیمان مقتدر اعلیٰ نہیں، اسی طرح یہ کہنا کہ روایات کی کوئی قانونی حیثیت نہیں درست تشریح نہیں۔

فواد چوہدری کا یہ بھی کہنا تھا کہ وزیر اعظم کے ایگزیکٹو اختیارات کو پارلیمان کیسے استعمال کر سکتی ہے جب کہ وہ انتظامی ادارہ نہیں ہے۔ قانونی امور پر گرفت رکھنے والے بڑے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کو اس معاملے میں بہت سنجیدگی اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا اور اس معاملے پر سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کرچلنا پڑے گا۔

وزیراعظم عمران خان بھی اپنے قریبی رفقاء و قانونی ماہرین سے مشاورت کر رہے ہیں اور یہ معاملہ وفاقی کابینہ میں بھی لے جایا جا رہا ہے تاکہ مشاورت سے طے کیا جائے کہ فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست دائر کرنی ہے یا قانون سازی؟

اس حوالے سے حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کا جائزہ لے رہی ہے اب چونکہ وزیراعظم عمران خان  بحرین کے دورے کے بعد سوئٹزر لینڈ کے دورے پر ہیں اور وہاں سے واپسی پر وہ اپنی کابینہ کے ساتھ سر جوڑ کر بیٹھیں گے جس میں مستقبل کی حکومتی حکمت عملی سامنے آئے گی مگر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ حکومت کو اس نازک موقع پر دانشمندانہ و محتاط سیاسی حل کو ترجیح دینے کی ضرورت ہے اور اس میں سب سے کلیدی کردار خود وزیراعظم عمران خان کو ادا کرنا ہوگا۔

اسی طرح جنرل مشرف کیس میں سزائے موت کا بڑا فیصلہ آیا جس کے جواب میں آئی ایس پی آر کی طرف سے ردعمل کا اظہار بھی کیا گیا ہے اس فیصلے سے ملکی آئندہ سیاسی صورت حال پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ اگلے چندہ ماہ میں پاکستان کا گرے لسٹ میں نام نکالنے یا نہ نکالنے کے بارے میں فیصلہ ہونے جا رہا ہے۔

اس کے لئے پاکستان کو ترکی اور ملائیشیا سمیت دیگر ممالک کی حمایت درکار ہے۔ دوسری طرف  ترکی اور امریکہ ،امریکہ اور روس پھر سعودی عرب اور ایران اسی طرح چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ہے۔ اور پھر سعودی عرب اور ترکی کے درمیان کشیدگی چلی آرہی ہے۔ پاکستان اسے کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان سب معاملات میں پاکستان کو انتہائی محتاط ہوکر چلنا ہوگا۔

سفارتی حلقوں کا خیال ہے کہ کوالالمپور میں پاکستان، ترکی، ایران، قطر اور انڈونیشیا کے لیڈروں کی کانفرنس ہونے والی ہے اور سعودی عرب اس بلاک کو او ائی سی کے متبادل اسلامی بلاک کے طور پر دیکھتا ہے اور اس کانفرنس میں اپنی اور اپنے عرب اتحادیوں کی غیر موجودگی سے پریشان ہے۔ یہ کانفرنس ملائیشین وزیر اعظم مہاتیر محمد کی میزبانی میں منعقد ہو رہی ہے اور وہ اس بات کا کھلے عام اظہار کرچکے ہیں کہ او آئی سی مسلم اُمہ کے مفادات کے تحفظ میں ناکام ہوچکی ہے اس لیے یہ اتحاد او آئی سی کا متبادل ثابت ہوسکتا ہے۔ جب کہ سعودی عرب سمجھتا ہے کہ اس طرح کا نیا اسلامی بلاک مسلم دنیا میں سعودی عرب کے کردار کو کم کرسکتا ہے۔

اسی تناظر میں پاکستان کی سول اور فوجی قیادت نے سعودی عرب کے متعدد دورے کیے ہیں۔ ابھی چند روز قبل بھی وزیراعظم عمران خان سعودی عرب کا ایک روزہ دورہ کرکے آئے ہیں۔ یہ مئی کے بعد سے ان کا سعودی عرب کا چوتھا دورہ تھا۔ بعض حلقوں کا خیال ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے سعودی عرب کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ایسے کسی بھی اقدام کا حصہ نہیں بنیں گے جس سے سعودی عرب کے مفادات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ دوسری طرف وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی بھی سعودی عرب کا دورہ کرکے آئے ہیں۔

اگرچہ انہوں نے کوالالمپور کانفرنس کے حوالے سے سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان کسی قسم کی غلط فہمی کی تردید کی ہے مگر جس تیزی سے سفارتی تبدیلیاں ہو رہی ہیں اس سے نظریں چرانا ممکن نہیں۔ ہمارے پڑوس افغانستان میں بھی امریکہ اور طالبان کے درمیان اہم پیشرفت ہونے جا رہی ہے۔

امریکی رہنما زلمے خلیل زاد کے بعد امریکی رہنما گراہم لنزے کا  حالیہ دورہ پاکستان بھی اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے اور اطلاعات ہیں کہ ایک ہفتہ میں امریکی صدر ٹرمپ افغانستان سے پانچ ہزار امریکی فوجیوں کی واپسی کا اعلان کریں گے اور سوویت افواج کی طرح امریکی بھی افغانستان سے نکل جائیں گے۔

مستقبل قریب میں افغانوں کو خود ہی اپنے معاملات درست کرنا ہونگے۔ بھارت اور دیگر طاقتوں کی طرف سے اگر افغان معاملات میں مداخلت جاری رہی تو پھر سے خانہ جنگی شروع ہو جائے گی۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کی قیادت کے غیر انسانی فیصلوں اور اقدامات سے بھی خطے میں حالات بگاڑ کا شکار ہیں۔

مودی سرکار کے پچھلے کچھ عرصے میں اٹھائے جانے والے اقدامات نے بھارت کا مکروہ چہرہ بے نقاب کردیا ہے اور اب خود بھارت کا وجود بھی خطرے میں ہے۔ بھارتی مسلمانوں نے صرف تین دن شہریت ترمیمی بل کے خلاف احتجاج کیا ہے اور پورا بھارت مفلوج کر دیا ہے۔ ان حالات میں وزیر اعظم کی ذمہ داریاں بہت بڑھ گئی ہیں۔ انہیں ان سارے معاملات میں اپوزیشن سمیت پوری قوم کی نمائندگی کا حق ادا کرنا ہے۔

اس ہفتے کا آغاز بھی ملکی سٹاک ایکسچینج میں  تیزی سے ہوا ہے دوسرا شرح مبادلہ میں بھی کچھ بہتری آئی ہے اورپھر وزیراعظم عمران خان کے دورہ سعودی عرب و آرمی چیف قمر جاوید باجوہ کے دورہ یو اے ہی کے بعد بڑی خبریں سامنے آئی  ہیں جس میں سعودی عرب اور یو اے ای نے پاکستان کے لیے پانچ ارب ڈالر کے ڈیپازٹس میں مزید ایک سال کی توسیع کردی ہے اور ساتھ ہی ان ڈیپازٹس کو نرم قرضے میں بدلنے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے اور اب رواں ہفتے آئی ایم ایف سے بھی قرضے کی دوسری قسط ملنے کی توقع ہے جس سے ملکی معیشت پر یقینی طور پر اچھے اثرات مرتب ہوں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔