2010ء کا عشرہ، سندھ کی سیاست میں نئی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں

عامر خان / حفیظ تنیو  بدھ 1 جنوری 2020
پاکستان پیپلز پارٹی کراچی سے محض 2 سیٹیں ہی جیت پائی جبکہ مجموعی طور پر 4سیٹیں زیادہ حاصل کیں،لیاری کی سیٹ بھی ہاتھ سے گئی
 فوٹو : فائل

پاکستان پیپلز پارٹی کراچی سے محض 2 سیٹیں ہی جیت پائی جبکہ مجموعی طور پر 4سیٹیں زیادہ حاصل کیں،لیاری کی سیٹ بھی ہاتھ سے گئی فوٹو : فائل

کراچی:  2010 کے عشرے میں سندھ کی سیاست میں نئی تبدیلیاں دیکھنے میں آئیں، ایم کیو ایم کے اثر و رسوخ کا سروج غروب ہوگیا جب کہ تحریک انصاف متحدہ کے متبادل کے طور پر ابھری۔

2010 کا عشرہ سیاسی اعتبار سے سندھ کے لیے خاصا دلچسپ رہا، اب جب کہ قوم ایک نئے عشرے میں داخل ہورہی ہے تو بیشتر صوبے کی حالت جوں کی توں ہی ہے جبکہ کراچی میں بنیادی سیاسی تبدیلی نظر آئی ہے۔

جانے والے عشرے کے ابتدائی نصف یعنی پانچ برسوں میں متحدہ قومی موومنٹ کا شہر مکمل کنٹرول نظر آتا ہے کیونکہ وہ اس سے قبل تین دہائیوں سے شہر پر حکومت کرتے آئے تھے تاہم بعد کے پانچ برسوں میں آہستہ آہستہ یہ کنٹرول جاتا نظر آنا شروع ہوا اور شہر کی سیاست میں ایم کیو ایم کا اثر و رسوخ تقریبا زائل ہی ہوگیا جب گزشتہ انتخابات میں پارٹی شہر سے محض چند سیٹیں ہی جیت پائی۔

ایم کیو ایم کا زوال اس وقت شروع ہوا جب اس وقت کی وفاقی حکومت نے شہر کا امن و امان بحال کرانیکی خاطر 2013 میں آپریشن کا آغاز کیا کیونکہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتیں بہت زیادہ بڑھ گئی تھیں۔ 2015 میں ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو پر رینجرز نے دور بار چھاپا مارا اور پارٹی کے بہت سے سینئر رہنماؤں کو حراست میں لے لیا۔

ایم کیو ایم کی جانب سے وفاقی حکومت پر سیاسی انتقام کا الزام عائد کیا گیا تاہم اس کے بہت سے رینما بیرون ملک چلے گئے جس سے پارٹی کے انتظامی سیٹ اپ کو شدید نقصان پہنچا۔اگلے سال اگست میں ایم کیو ایم کے قائد کی جانب سے باغیانہ قسم کی تقریر نشر کی گئی جس کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں نے ایم کیو ایم کے مرکز نائن زیرو کو سیل کردیا اور پارٹی کے بہت سے رہنماؤں نے اپنے آپ کو اس تقریر کے بعد پارٹی سے علیحدہ کرلیا ، اسی طرح ایک گروپ فارق ستار کی قیادت میں علیحدہ ہوگیا۔

انہی واقعات کے دوران کراچی کے سابق میئر مصطفی کمال کی پارٹی کے سابق ڈپٹی کنوینر انیس قائم خانی کے ہمراہ ایک دھماکے دار واپسی کی صورت میں ہوتی ہے جس سے بھی ایم کیو ایم کے اثر و رسوخ میں کمی ہوتی ہے کیونکہ دونوں رہنما نہ صرف کھل کر ایم کیو ایم کے خلاف بیان دیتے ہیں بلکہ اپنی علیحدہ جماعت پاک سرزمین پارٹی کے قئام کا بھی اعلان کرتے ہیں۔ پاک سرزمین پارٹی انتخابات میں بری طرح ناکام ہوجاتی ہے تاہم ایم کیو ایم کے ووٹ بینک کو ضرور متاثر کرتی ہے۔

دوسری جانب سینیٹ کے ٹکٹ کی تقسیم کے معاملے پر اختلافات پید ہرنے کے بعد فاروق ستار کو پارٹی سے باہر کردیا جاتا ہے جبکہ ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کو ایم کیو ایم پاکستان کا نیا کنوینر منتخب کرلیا جاتا ہے تو فاروق ستار کی جانب سے ایک نیا دھڑا ایم کیو ایم آرگنائزینشن ریسٹوریشن کمیٹی کے قیام کا اعلان کیا جاتا ہے۔

اس تمام سیاسی انتشار کا تنیجہ انتخابات میں ایم کیو ایم کی جانب سے بری کارکردگی کی صورت سامنے آتا ہے جہاں ایم کیو ایم پاکستان کو قومی اسمبلی کی محض چار سیٹیں ہی مل پاتی ہیں۔ یہی وہ سیاسی خلا تھا جس پر سب کی نظریں جمی ہوئی تھیں کہ 2018 کے انتخابات میں کون سی جماعت اسے پر کرپاتی ہے بہت سے لوگوں کو یہ سرپرائز لگا کہ اس خلا کو پاکستان تحریک انصاف نے پورا کیا اور وہ شہر کی ایک نئی آواز بن کر سامنے آئی۔

شہر میں باقاعدہ کوئی انتظامی سیٹ اپ کے پی ٹی آئی نے لاکھوں ووٹ حاصل کیے اور قومی اسمبلی کی 20 میں سے ٍ14 سیٹیں جیتنے میں کامیاب رہی۔2018 کے انتخات میں یہی نہیں کہ صرف ایم کیو ایم کو ہی چیلنج کا سامنا رہا بلکہ پی ٹی آئی اے عبدالشکور شاد نے لیاری میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو بری طرح شکست دی حالانکہ لیاری کو پی پی کا گڑھ سمجھا جاتا رہا ہے اور اس طرح پیپز پارٹی کراچی سے صرف دو سیٹیں جیت سکیں جبکہ مسلم لیگ نون کوئی بھی نشست حاصل نہ کرسکی۔

ایک طرف جہاں کراچی میں بنیادی سیاسی تبدیلیی نظر آئی وہیں دوسری طرف باقی ماندہ صوبے میں حالت بدستور ویسی ہی رہی جیسا کی چلتی آرہی تھی کہ جہاں کم و بیش پیپلز پارٹی گزشتہ دس برسوں سے حکومت کررہی ہے۔

2018 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی نے دیہی علاقوں سے زیادہ سیٹیں حاصل کیں۔ صوبائی انتخابات میں پی پی نے 90 سیٹیں حاصل کیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ ق نے 11 سیٹیں، مسلم لیگ فنکشنل نے 8، نیشنل پیپلز پارٹی نے 3، جبکہ عوامی نیشنل پارٹی دو نشستیں جیت سکی۔

کراچی، حیدرآباد، میرپورخاص سے ایم کیو ایم نے 50 سیٹیں حاصل کی۔گزشتہ انتخابات کے دوران چار سابق وزرئے اعلی سندھ جن میں لیاقت جتوئی، ارباب غلام رحیم، غوث علی شاہ اور ممتاز علی بھٹو کے علاوہ سابق وزیر داخلہ ذوالفقار علی مرزا، صفدر عباسی، ناہید خان، ایاز لطیف پلیجو (قومی عوامی تحریک)، پی ٹی آئی، این پی پی کے مرتضی جتوئی ان سب نے مل کر گرینڈ ڈیموکریٹک الائس کی بنیاد رکھی جس نے انتخابات میں 14 سیٹیں حاصل کیں۔

ان انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف شہری علاقوں کی دوسری بڑی جماعت بن کر ابھری جس نے 30 سیٹیں حاصل کیں۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ گزشتہ انتخابات پیپلز پارٹی نے اپنی کارکردگی کی بنیاد پر نہیں جیتے بلکہ اس نے ان لوگوں کو انتخابات میں ٹکٹ دیے جن کے اپنے حلقے میں اثر و رسوخ تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔