بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنماؤں میں اختلافات کی افواہیں

رضا الرحمٰن  بدھ 15 جنوری 2020
بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض ارکان سردار سرفراز خان ڈومکی کو دوبارہ راضی کرکے کابینہ میں شامل کرنے کے حق میں ہیں۔

بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض ارکان سردار سرفراز خان ڈومکی کو دوبارہ راضی کرکے کابینہ میں شامل کرنے کے حق میں ہیں۔

کوئٹہ: بلوچستان کی دن بدن بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال میں تیزی نے پارلیمانی جماعتوں کی سیاست کو بھی نیا رخ دینا شروع کردیا ہے۔

بلوچستان میں برسر اقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں اختلافات کی خبریں بھی  آنا شروع ہوگئی ہیں جبکہ برسراقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی میں یہ اندرونی اختلافات بعض اراکین کی زبان تک پہنچ چکے ہیں۔ بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو  پارٹی کے اندرونی اختلافات کو منظر عام پر لے آئے ہیں اور اُنہوں نے مختلف فورمز پر اپنی ہی جماعت کے سربراہ اور وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال خان عالیانی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

بعض سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ جام کمال کی مخلوط حکومت کو گرانے کیلئے ان کی جماعت کے اندر سے ہی  جو کوششیں شروع کی گئی تھیں انہیں تقویت نہیں مل پائی وزیراعلیٰ جام کمال  نہ صرف مضبوط ہوئے ہیں بلکہ انہوں نے حکومت کو فعال بنانے کیلئے اپنی سرگرمیوں کو تیز کردیا ہے اور اپنی ڈیڑھ سالہ حکومت کے مثبت اقدامات کا موازنہ سابقہ ادوار حکومت سے کرنا شروع کر دیا ہے جسے عوامی حلقوں میں زبردست پذیرائی مل رہی ہے۔

ان سیاسی مبصرین کے مطابق جہاں بلوچستان میں وزیراعلیٰ جام کمال کی حکومت مضبوط اور فعال ہوئی ہے وہاں اب انکی اس حکومت کو گرانے کی کوششیں کرنے والے بعض سیاسی کھلاڑیوں کو سیاسی میدان سے آؤٹ کرنے کیلئے غور و خوض شروع کردیا گیا ہے۔ان سیاسی مبصرین کے مطابق وزیراعلیٰ جام کمال نے  نہ صرف اپنی مخلوط حکومت میں شامل اتحادی جماعتوں کے ساتھ رابطے بڑھادیئے ہیں بلکہ اپنی جماعت کے اندر بھی اپنے قدم جمانے کیلئے اپنی جماعت کے پارلیمانی گروپ کے بعض اراکین کو اعتماد میں لیا ہے۔

بعض سیاسی حلقوں میں  یہ بات بڑے زور و شور سے کہی جارہی ہے کہ وزیراعلیٰ جام کمال کو ہٹانے کیلئے جو تحریک شروع کی گئی تھی وہ سر اُٹھانے سے قبل ہی دم توڑتی جا رہی ہے اور یہ بات بھی بڑے وثوق سے کہی جارہی ہے کہ وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے خلاف تحریک عدم اعتماد کے بجائے اب شاید تحریک عدم اعتماد اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے خلاف لاکر انہیں سائیڈ لائن کردیا جائے؟۔ تاہم پارٹی کے بعض سینئر اور پارلیمانی اراکین اس طرح کے ایکشن کی مخالفت کر رہے ہیں اور ان کی رائے ہے کہ پارٹی کے اندر ایسے اقدامات سے مزید انتشار پھیل سکتا ہے  جس کے اثرات آگے چل کر پارٹی کیلئے نقصان دہ ہو سکتے ہیں۔

بعض سیاسی حلقوں میں نئے اسپیکر کیلئے بلوچستان عوامی پارٹی کے آرگنائزراور سابق وزیراعلیٰ میر جان محمد جمالی کا نام بھی زیر گردش ہے اس حوالے سے  پارٹی کے اندر سینئر اراکین کی رائے کو فی الحال اہمیت حاصل ہے اور جو بھی اس حوالے سے فیصلہ ہوگا وہ باہمی مشاورت کے ساتھ ہی کیا جائے گا اس لئے فی الحال یہ کہنا قبل از وقت ہوگا کہ فوری طور پر اسپیکر بلوچستان اسمبلی کے خلاف کوئی تحریک آسکتی ہے۔

اس کے علاوہ وزیراعلیٰ بلوچستان اپنی کابینہ میں بھی ردوبدل کرنے پر سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں جس کیلئے وہ نہ صرف اپنے قابل اعتماد پارلیمانی ساتھیوں اور  اتحادی جماعتوں سے بھی رابطے میں ہیں اسی طرح وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال  اپنی کابینہ سے فارغ کئے گئے دو وزراء کی جگہ پر دو نئے وزراء کابینہ میں شامل کرنے پر بھی مشاورت کر رہے ہیں ان میں سے ایک کا تعلق تحریک انصاف اور دوسرے کا ان کی اپنی ہی جماعت سے ہے۔ ان سیاسی حلقوں کے مطابق  ان کی اتحادی جماعت تحریک انصاف وزیر کیلئے ابھی تک کسی ایک نام پر متفق نہیں ہو پائی ہے اور اس کے درمیان رسہ کشی جاری ہے اور امکان اس بات کا ہے کہ یہ نامزدگی بھی پارٹی کی مرکزی قیادت کی صوابدید پر ہوگی۔

جبکہ بلوچستان عوامی پارٹی کے بعض ارکان سردار سرفراز خان ڈومکی کو دوبارہ راضی کرکے کابینہ میں شامل کرنے کے حق میں ہیں اور اس سلسلے میں وہ سردار سرفراز خان ڈومکی سے رابطے بھی کر رہے ہیں تاہم ابھی تک سردار سرفراز ڈومکی کی طرف سے کوئی مثبت جواب نہ ملنے کی وجہ سے معاملہ تعطل کا شکار ہے جبکہ رابطے کرنے والے ارکان کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی سردار سرفراز ڈومکی کو منالیں گے اگر سردار سرفراز ڈومکی دوبارہ کابینہ میں شامل ہونے کیلئے راضی نہ ہوئے تو پھر بلوچستان عوامی پارٹی میں سے کوئی نیا چہرہ سامنے آسکتا ہے جس کیلئے سردار مسعود لونی اور میر سکندر عمرانی کے نام فیورٹ ہیں۔

ان حلقوں کے مطابق بلوچستان عوامی پارٹی سے تعلق رکھنے والے جام کابینہ کے دو اہم وزراء سردار عبدالرحمان کھیتران اور میر اکبر آسکانی جن کے حلقوں میں الیکشن کمیشن نے دوبارہ انتخابات کرانے کا حکم دیا ہے اور ان ارکان اسمبلی نے الیکشن کمیشن کے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کرلیا ہے۔ میر اکبر آسکانی کو سپریم کورٹ کی طرف سے بحال کرنے کا فیصلہ سامنے آچکا ہے جبکہ سردار عبدالرحمان کھیتران کے حوالے سے بھی فیصلہ آئندہ چند روز میں متوقع ہے تاہم ان دو اراکین کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے آنے والے فیصلے نے بھی جام حکومت کو اگلا قدم اُٹھانے سے پہلے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا ہے۔ بعض حکومتی ذرائع کا یہ دعویٰ ہے کہ جلد ہی صورتحال بہتر ہوجائے گی اور یقینا یہ صورتحال جام حکومت کے حق میں جائے گی اور وہ مزید مضبوط ہونگے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان کے گورنر کی تبدیلی کا معاملہ بھی اس وقت زیر غور ہے اور جام حکومت کی اتحادی جماعت تحریک انصاف بلوچستان کی گورنرشپ کیلئے پارٹی سے وابستہ اپنی کسی شخصیت کو اس عہدے پر فائز کرنے کی خواہشمند ہے، ان سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان کی گورنر شپ کیلئے جو نام زیر غور ہیں ان میں  نوابزادہ ہمایوں خان جوگیزئی اور سعید الحسن مندوخیل قابل ذکر ہیں موجودہ گورنر جسٹس (ر) امان اﷲ یاسین زئی جو کہ بیرون ملک دورے پر تھے انہیں اپنا دورہ مختصر کرکے وطن واپس طلب کر لیا گیا  جن کی وطن واپسی کے بعد اس حوالے سے اہم فیصلہ سامنے آنے کا امکان ہے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان میں بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال اور آئندہ دنوں میں ہونے والے بعض اہم فیصلوں کے اثرات گو کہ صوبے کے سیاسی منظر کو نہ صرف تبدیل کریں گے بلکہ ان فیصلوں کے صوبے کی سیاست پر کیا مثبت اور منفی اثرات مرتب ہونگے اس حوالے سے کچھ کہنا قبل از وقت ہے، تاہم موجودہ سیاسی صورتحال میں یوں لگتا ہے کہ برسراقتدار جماعت بلوچستان عوامی پارٹی اور اس کی اتحادی جماعت تحریک انصاف کے اندر موجودہ صورتحال میں جو گو کہ وقتی طور پر ٹھہراؤ آیا ہے لیکن ان سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ ٹھہراؤ آئندہ چند ماہ کیلئے ہی ہو سکتا ہے۔

دوسری جانب  بلوچستان نیشنل پارٹی نے وفاقی حکومت کے ساتھ کئے گئے اپنے چھ نکاتی معاہدے کا ازسر نو جائزہ لینے کیلئے پارٹی کی کور کمیٹی کا اجلاس طلب کر لیا ہے، سیاسی حلقوں کے مطابق بی این پی مینگل بھی اس مرتبہ ملکی سیاست کے تناظر میں کوئی اہم فیصلہ کرنے کے موڈ میں دکھائی دے رہی ہے جس کے اثرات یقینا ملکی سیاست کے ساتھ ساتھ بلوچستان کی سیاست پر بھی مرتب ہونگے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔