بُک شیلف

2013 میں ’’مفت اور لازمی تعلیم‘‘ کاقانون لایا گیا، امتحانی اور انرولمنٹ فیسیں تو ختم ہو گئیں تاہم 56 فیصد بچے تاحال اسکولوں سے باہر ہیں

2013 میں ’’مفت اور لازمی تعلیم‘‘ کاقانون لایا گیا، امتحانی اور انرولمنٹ فیسیں تو ختم ہو گئیں تاہم 56 فیصد بچے تاحال اسکولوں سے باہر ہیں

سائنس ،(تلاش حق)
مصنف: ڈاکٹر حامد سلیم۔۔۔۔۔۔قیمت: 900 روپے
صفحات: 223۔۔۔۔۔ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور

سائنس کا میدان بڑا وسیع ہے اس کی کسی بھی شاخ پر تحقیق کی جائے نئے نئے در وا ہوتے چلے جاتے ہیں اور انسانی عقل حیران ہو جاتی ہے۔ تاہم ہر کس و ناکس کی اس سے دلچسپی نہیں ہوتی جس کی وجہ اس کی معروضیت اور اس سلسلے میں پیش آنے والی مشکلات ہیں، اور سب سے اہم بات انسانی فہم ہے جو اس کا ادراک رکھتا ہو وہی اس طرف راغب ہوتا ہے، عام انسان کو سائنس سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی ضرور ہے مگر کیوں ، کیسے ، کب جیسے سوالات کے جواب ڈھونڈے کی کوشش نہیں کی جاتی۔ تاہم آسان انداز میں بات سمجھائی جائے تو ضرور توجہ حاصل کر پاتی ہے۔

ڈاکٹر حامد سلیم صاحب علم شخصیت ہیں، ان کی کاوش یہی ہے کہ سائنس کی ایسی وضاحت پیش کی جائے کہ ہر فرد اسے آسانی سے سمجھ سکے، ان کی شخصیت کا دوسرا پہلو ادب ہے، وہ شاعر بھی ہیں اور اس سلسلے میں ان کی کتابیں بھی شائع ہو چکی ہیں، ان کی تحریر میں یہ بات نمایاں نظر آتی ہے کہ مصنف صرف سائنس دان ہی نہیں بلکہ چاشنی سے بھرپور تحریر تخلیق کرنے کا بھی پورا ملکہ رکھتے ہیں۔ یہی خوبی قاری کو اپنے ساتھ چمٹائے رکھتی ہے، اور وہ سائنس جیسے بظاہر خشک موضوع کو بھی بڑے شوق سے پڑھتا چلا جاتا ہے ، انھوں نے اس کتاب کے ذریعے بہت سے ابہام دور کئے ہیں، سائنس اور شاعری کے عنوان سے ایک باب شامل کیا گیا ہے جو کہ خاصے کی چیز ہے۔ ادب سے دلچسپی رکھنے والوں کے ساتھ ساتھ عام افراد کو بھی اس کتاب کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

گریزاں
شاعر: نجیب احمد۔۔۔۔۔۔قیمت:600 روپے
صفحات:208۔۔۔۔۔۔ناشر: بک ہوم ، مزنگ روڈ، لاہور

سادگی میں پرکاری بہت بڑا فن ہے، اب کوئی سادگی میں پرکاری کو سیکھ کر اختیار کرے تو بناوٹی ہونے کا احساس پیدا ہو سکتا ہے، اگر یہ خدا داد ہو تو سونے پر سہاگہ والی بات ہے۔ شعر کے ذریعے سادگی سے اپنے دل کی بات دوسروں تک پہنچا دینا خدا داد ملکہ ہونے کے سوا کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ شاعری اختیاری نہیں بلکہ عطا ہے اور اس معاملے میں بھی جو بناوٹ سے کام لیتا ہے فوراً پکڑا جاتا ہے، نجیب احمد بڑی سادگی سے اپنے دل کی بات بڑی کامیابی سے قاری تک پہنچا رہے ہیں۔

حسنین سحر کہتے ہیں’’ نجیب احمد نے اپنے فن کی آبیاری میں بہت محنت صرف کی ہے اور مظاہر فن کے باب میں سہل ممتنع، تغزل اور تمثال کاری کی خوب خوب امثال قائم کی ہیں۔ آئن سٹائن کا قول ہے کہ اگر کوئی شخص اپنی بات دوسروں کو سادہ الفاظ میں نہیں سمجھا سکتا تو آپ ہی اپنی بات سے بے بہرہ ہے۔ اسی تناظر میں سہل ممتنع نجیب احمد کا طرہ امتیاز ہے۔ علم جھاڑنے اور علم رکھنے میں واضح فرق ہے۔ بلند آہنگ اور پرشکوہ الفاظ کا محض استعمال کسی خیال کو چھوٹا یا بڑا نہیں کر سکتا۔ میر کو اردو کا سب سے بڑا شاعر مانا جاتا ہے جن کی شاعری سہل ممتنع سے مملو ہے‘‘۔ مجلد کتاب کو خوبصورت ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

پہنو چاند کلائی میں
شاعر: عامر سہیل۔۔۔۔۔۔قیمت:1000 روپے
صفحات:256۔۔۔۔۔۔ناشر:بک ہوم، مزنگ روڈ، لاہور

فنون لطیفہ میں دوسروں سے الگ ہونا بہتوں کو پسند آتا ہے اور بہت سے اسے اچھا خیال نہیں کرتے، حالانکہ منفرد ہونا خامی نہیں صفت ہے جوکہ اس فرد کو خدا تعالیٰ کی طرف سے عطا کی گئی ہوتی ہے جسے چمکا کر وہ دوسروں سے نمایاں ہو جاتا ہے، عامر سہیل متعدد کتابوں کے مصنف ہیں، ان کا انداز عام شاعری سے ہٹ کر ہے جو قاری کو فوری متوجہ کر لیتا ہے۔ ممتاز ادیب ظفر اقبال کہتے ہیں’’شاعری میں دوسروں سے مختلف ہونا ضروری ہے ہی، اس میں اپنی الگ فضا بنانا اس سے بھی آگے کی بات ہے تاکہ بعد میں آنے والے اس میں کھل کے سانس لے سکیں۔

شاعری کو ایک طرف کھلی ہوا کی ضرورت ہے تو ایک طرف وہ تازہ ہوا خود بھی بناتی ہے، نامانوس الفاظ کو مانوس بنا دینے سے بڑھ کر شاعری کی خدمت اور کیا ہو سکتی ہے جو سید عامر سہیل کی متعدد صفتوں میں سے ایک ہے‘‘۔ اسی طرح ممتاز ادیب اصغر ندیم سید کہتے ہیں’’ عامر سہیل نے اساطیر کے ساتھ ساتھ داستانوی مزاج کو بھی کئی جگہ استعمال کیا ہے جس سے استعارے کی گہرائی پیدا ہو گئی ہے، محبت کے معاملات میں مختلف کیفیات کو ڈرامائی انداز سے بیان کرنے کے نئے پہلو تلاش کئے گئے ہیں۔ میں عامر سہیل کو ابھی اور نئی جدلیات سے جڑتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ ‘‘مجلد کتاب کو دیدہ زیب ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے۔

سلطان محمد تغلق، تاریخ کے آئینے میں
مصنف: پروفیسر حمیداللہ شاہ ہاشمی
قیمت:800روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882

سلطان محمد بن تغلق ایک ایسا فرمانروا تھا جو ازمنہ وسطیٰ کا قابل ترین شخص تھا۔ وہ سمندرجتنا علم رکھتا تھا، اس زمانے کے تمام علوم وفنون کا ماہر۔ بلا کا حافظہ اور یادداشت رکھتا تھا، نہ صرف قرآن مجید کا حافظ تھا بلکہ صحاح ستہ اور ہدایہ کا بھی۔ نغزگوشاعر، فنون لطیفہ کا دلدادہ، تصوف، فلسفہ، طبیعیات، ریاضیات، فلکیات، خطاطی اور انشاپردازی میں یدطولیٰ رکھنے والا۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے بڑے علماء اس کے سامنے آنے سے جھجکتے تھے۔

علم طب سے بھی خاص شغف تھا، مریضوں کی ایک بڑی تعداد نے اس کے علاج سے شفا پائی۔ اپنی قوت گویائی، جدت طبع اور شائستگی کی وجہ سے ’’نابغۂ روزگار‘‘ کہلایا۔ اب ذرا ٹھہریئے اور جائزہ لیجئے کہ آج یا ماضی قریب کے کس حکمران میں اس قدر خصوصیات پائی گئیں۔ ماضی کے قریباً تمام حکمران اسی طرح زندگی کی مختلف شعبوں میں خوب علم وفضل رکھتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی ان کا نام روشن ہے۔سلطان محمد بن تغلق مذہب کا بڑا پابند مگر متعصب بالکل نہیں تھا۔ انصاف میں کسی کی رُو رعایت نہ کرتا تھا، اپنے فکروشعور کے لحاظ سے وہ اپنے زمانے سے بہت آگے تھا۔

سلطنت دہلی کے کسی بادشاہ کے متعلق مورخین میں اس قدر اختلاف رائے نہیں جتنا کہ اس کے بارے میں ہے۔ کچھ مورخین اس کو پاگل اور خونی لکھتے رہے مگر ان کی یہ رائے غلط ہے۔ اس کے منصوبوں اور مہمات کے بارے میں بعض غلط فہمیاں پیدا ہوگئیں۔ تاہم عہد جدید کی تاریخی تحقیقات نے ثابت کردیا ہے کہ نہ وہ دیوانہ تھا اور نہ اس کی مہمات دورازکار اور ہوشمندی کے منافی تھیں۔

زیرنظرکتاب کے سترہ ابواب میں سلطان محمد بن تغلق کے مکمل حالات زندگی اور اس کی تمام تر مہمات کا تذکرہ موجود ہے۔ یہ کتاب آج کے چھوٹے ، بڑے تمام حکمرانوں اور منتظمین کو ضرور پڑھنی چاہئے، اس میں بہت سے سبق ہیں سیکھنے کے لئے۔

تاشقند سے استنبول (سفرنامہ)
مصنف: الطاف احمد عامر۔۔۔۔۔۔قیمت:700روپے
ناشر: بک کارنر، جہلم، واٹس ایپ: 03215440882

ایک انسان دوسرے انسان سے سیکھتاہے ، انفرادی طور پر بھی اور اجتماعی طور پر بھی۔ وہ دوسرے کے اچھے پہلوؤں پر رشک کرتا ہے اور بُرے پہلوؤں سے عبرت پکڑتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اسی اندازمیں ارتقا کا سفر طے ہوتاہے۔ اس دنیا میں جن اقوام کو ہم ترقی یافتہ کہتے ہیں، انھوں نے بھی اسی طرح دوسروں سے سیکھ کر ہی ترقی اورخوشحالی کی منزل حاصل کی، آج کی غیرترقی یافتہ اقوام بھی انہی ترقی یافتہ اقوام سے سیکھ کر اپنی زندگی میں انقلاب برپا کرسکتی ہیں۔تاشقند، بخارا، سمرقند، قونیہ اور استنبول، ان تمام علاقوں پر مسلمانوں نے صدیوں حکمرانی کی اور یہ تمام شہر صدیوں تک علم وادب، سائنس، فلسفہ اور آرٹ کے مراکز رہے۔ یہاں ایسی عظیم شخصیات پیدا ہوئیں جنھوں نے اپنے علم وفضل، دانش و تصوف اور فلسفہ وفن سے دنیا بھر کو متاثرکیا۔ یہیں سے علوم دینیہ کی بڑی بڑی ہستیاں خدمت اسلام کے لئے اٹھیں جن کے افکار سے آج بھی قلوب واذہان میں روشنی ہوتی ہے۔

مصنف جو اپنا شمار تاریخ کے طلبا میں کرتے ہیں، کو کچھ عرصہ پہلے مذکورہ بالا تاریخی اور خوبصورت علاقوں کی سیر کا موقع ملا۔ وہ اپنے آپ کو خوش قسمت خیال کرتے ہیں کہ اس سفر میں ان کے ساتھ قاسم علی شاہ تھے جن کی گفتگوؤں سے وہ بہت متاثر ہیں۔ اسی اعتبار سے انھوں نے زیرنظرکتاب کا عنوان متعین کیا:’’ تاشقند سے استنبول، سیاحت کے رنگ قاسم علی شاہ کے سنگ‘‘۔

کتاب اسی مقصد کے تحت لکھی گئی ہے کہ پڑھنے والے تاشقند سے استنبول تک ، کے باسیوں سے کچھ نہ کچھ سیکھیں۔ انھوں نے ازبک لوگوں کے رہن سہن کا تذکرہ کیا، ان کی ترقی کی بات کی، استنبول کے باسیوں کی خوبصورت زندگی کو باریک بینی سے دیکھا اور تفصیل سے بیان کیا۔ ازبک اور ترک، دونوں اقوام کی انسانی ترقی، تعلیمی پیش رفت، وقت کی پابندی، نظافت، نفاست اور رواداری جیسے اوصاف سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ ظاہرہے کہ اس سلسلہ کی پہلی شرط زیرنظرکتاب کامطالعہ ہے۔

 معترضین ِ اقبال اور ڈاکٹر ایوب صابر کی اقبال شناسی
 مصنف : پروفیسر ریاض احمد
 صفحات: 246۔۔۔۔۔۔  قیمت : 3500 روپے
ناشر: قلم فاونڈیشن، والٹن روڈ ، لاہور کینٹ

بیسویں صدی میں جن اکابرین نے مسلم امہّ کے لیے گرانقدر خدمات انجام دیں اور سیاست، علم اور ادب کے میدان میں ان کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیا ان میں حکیم الامت علامہ محمد اقبال ؒ کا نام سب سے نمایاں ہے۔ سمندر پار سے آنے والے انگریز حکمرانوں نے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کر رکھا تھا ان کے لیے ترقی کرنے اور آگے بڑھنے کے مواقع معدوم ہوچکے تھے۔پوری قوم بے بسی کی تصویر بنی ہوئی تھی۔ ایسے میں علامہ اقبال کی نگہ بصیرت نے اپنی قوم کی حالت کا ادراک کرتے ہوئے اسے خواب ِ غفلت سے جگانے اور دنیا کی اقوام میں سر اٹھا کر چلنے کا حوصلہ دیا۔ علامہ محمد اقبال ؒ جتنے پر مفکر، مدبر اور فلاسفر تھے ان کو چاہنے اور پسند کرنے والے بھی اسی قدر زیادہ تھے چنانچہ ان کی ہر دلعزیزی کا یہ منطقی نتیجہ تھا کہ ان سے حسد اور بغض رکھنے والے بھی پیدا ہوگئے۔

ان منفی سوچ رکھنے والوں نے علامہ اقبالؒ کی شخصیت، ان کے فکرو فلسفہ اور فن پر اعتراضات اٹھائے ۔ لیکن خدائے بزرگ و برتر نے بھی ڈاکٹر ایوب صابر کی شکل میں ایک ایسے ادیبِ شہیر اور مجاہدِ قلم و قرطاس کو میدان میں اتارا ۔ جنہوں نے نہ صرف معترضین ِ اقبال کے اعتراضات کا مسکت جواب دیا بلکہ ان اعتراضات کے بودے پن کو ظاہر کرکے انہیں اوندھے منہ گرا دیا۔

اقبال فہمی کے حوالے سے ڈاکٹر ایوب صابر کی خدمات بلاشبہ سنہری حروف کے ساتھ لکھے جانے کے قابل ہیں ۔

لارنس کالج ، گھوڑی گلی ، مری کے استاد پروفیسر ریاض احمد نے اس نابغہ شخصیت کی خدمات کا بجا طورپر اعتراف کرتے ہوئے انہیں ایک مقالے کی صورت میں بھرپور خراج تحسین پیش کیا ہے۔کتاب پر علامہ اقبال کے ایک اور مداح ، نامور ادیب و نقاد اور شاعر پروفیسر ڈاکٹر عبدالرشید تبسم سمیت دیگر اہل ِ علم نے بھی اپنی رائے دیتے ہوئے صاحب کتاب کی مساعی کو سراہا ہے۔ قلم فاونڈیشن نے اس مقالے کو اپنے روائتی معیار اور حسن کے ساتھ شائع کرکے کتاب وعلم دوستی کا حق ادا کردیا ہے۔

 افکارِ فرخ
 مصنف: فرخ محمود۔۔۔۔۔۔ صفحات: 128
 قیمت :400 روپے۔۔۔۔۔۔ ناشر : ایان پبلی کیشنز، لاہور

فرخ محمود پیشے کے اعتبار سے استاد ہیں اور مقامی کالج میں علم و دانش کی خوشبو بکھیر رہے ہیں۔ زیر نظر کتاب ان کے اجلے افکار کا مجموعہ ہے جو علم ، تجربہ ، مشاہدہ و مطالعہ کی بھٹی میں سے کندن بن کر صفحہ قرطاس پر جلوہ گر ہیں۔ فرخ محمود نے اعلیٰ ذوق پایا ہے۔ ان کی تحریر ( وہ نظم کی صورت میں ہو یا نثر میں ) اپنے اندر ایک تاثیر رکھتی ہے۔اس کی وجہ شائد یہی ہے کہ وہ دل کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر لکھی جاتی ہے اور ظاہر ہے

ع    بات جو دل سے نکلتی ہے، اثر رکھتی ہے

شگفتگی اور بے ساختہ پن ان کی تحریر کا بنیادی وصف ہے۔کتاب میں کم وبیش پانچ سو اقوال شامل ہیں جو ظاہر ہے فرخ محمود کے اقوال ِ زریں کہلائے جا سکتے ہیں۔ چونکہ یہ اقوال خود انہی کے ذہن ِ رسا کی حاصل ا ور ثمر ہیں اس لیے انہیں ’’ افکار ِ فرخ ‘‘ کا نام دیا گیا ہے جو ان کا ( جائز طور پر ) استحقاق بھی ہے۔ نمونے کے طورپر چند اقوال دیے جا رہے ہیں جو ان کی رفعت ِ فکر پر دال ہیں۔’’ کوئلہ غصہ سے جل کر راکھ ہو جاتا ہے، لیکن تحمل سے برداشت کرکے ہیرا بن جاتا ہے ‘‘۔ طاقت کے کھو جانے کا خوف طاقتور کا سب سے بڑا خوف ہوتا ہے۔ بخیل امیر کی موت کے لیے غریب کی زندگی جیتا ہے ۔

اسی نوع کی کتاب انہوںنے انگریزی میں بھی لکھی ہے جو ’’اسپیکنگ پرلز ‘‘ کے نام سے شائع ہو چکی ہے۔

   پارچے
  مصنف : مرزا یٰسین بیگ ۔۔۔۔۔۔ قیمت:300 روپے       
  صفحات: 235۔۔۔۔۔۔ ناشر : بیگ پبلشرز ، کینیڈا

مرزا یٰسین بیگ ایک صحافی ہیں اور ان کی حِس ِ مشاہدہ بھی بہت زبردست ہے۔ لفظوں کے ساتھ کھیلنا اور ان سے مزاح کشید کرنا کوئی ان سے سیکھے۔ ان کے مضامین مزاح کے خوب صورت شہ پارے ہیں۔ ان کی تحریر کا حسن یہ ہے کہ وو نہ تو اس قدر طویل ہوتی ہے کہ اس سے پڑھنے والے بوریت محسوس کرنے لگیں اور نہ اس قدر مختصر کہ لطف اندوز ہونے سے پہلے ہی ختم ہو جائے ۔’’ پارچے ‘‘ ان کی دوسری کتاب ہے اس سے پہلے ’’ دیسی لائف اِن کینیڈا ‘‘ کے زیر عنوان ان کی کتاب زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر ہر دیسی اور بدیسی اہلِ قلم سے داد و تحسین حاصل کر چکی ہے ۔

’’ پارچے ‘‘ میں ہر نوع کے مضامین موجود ہیں جومزاح کی چاشنی سے لبریز ہیں ۔کتاب پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر خالد سہیل نے ان مضامین کو ’’ طنز و مزاح کی قوس ِقزح ‘‘ قراردیا ہے ۔کتاب پر حسینہ معین ، سرور سکھیرا، شکیلہ رفیق ، گوہر تاج ، مسعود قمراور طہور ندیم کے علاوہ میرے صحافی دوست بدر منیر چوہدری نے بھی خوش گوار تبصرے کیے ہیں۔ اور ان تمام صاحبانِ علم و فن نے مرزا یٰسین بیگ کی زبان دانی اور ان کی مزاح نگاری کی تحسین کی ہے۔ بلاشبہ آج جو مزاح نگار ہمارے سامنے ہیں ان میں مرز ا یٰسین بیگ کا نام بھی نمایاں طورپر لیا جاسکتاہے ۔

ہمسفر
مصنفہ: زہرا منظور الٰہی۔۔۔۔۔۔قیمت:1200 روپے
صفحات:208۔۔۔۔۔۔ناشر: سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور

زندگی ایک عجیب داستان ہے، عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ جہاں تجربات میں اضافہ ہوتا ہے وہیں یادوں کے سرمائے بھی بڑھ جاتے ہیں، انھیں محفوظ کرنے کا سب سے بہترین طریقہ ضبط تحریر میں لانا ہے، زندگی کا طویل سفر طے کرنے کے بعد پیچھے مڑ کر دیکھنے پہ کبھی آنکھوں میں نمی پھیلتی محسوس ہوتی ہے تو کبھی ہونٹوں پر تبسم ۔ خصوصاً اپنی داستان حیات کو صفحات پر رقم کرنا ایک دلچسپ عمل ہے۔ بہت کم لوگ اپنی داستان حیات کو قلم بند کرتے ہوئے انصاف کر پاتے ہیں ۔ ’ ہمسفر‘ زہرا منظور الٰہی کی خود نوشت ہے جس میں ماضی سے حال تک سفر کو دلکش پیرائے میں بیان کیا گیا ہے۔ انھوں نے تحریر میں ماضی کے جھروکوں کا ذکر کیا ہے، وہ قاری کے لئے دلچسپی کا باعث ہیں، قاری کا ہاتھ تھام کر اسے من چاہے دیس کی سیر کرانا ہی مصنف کا اصل کمال ہوتا ہے۔

 

کتاب میں موجود تحریریں ماضی کی تہذیب و روایات کا عکس ہیں۔ مصنفہ نے اپنے قریبی رشتوں کے متعلق اپنے جذبات کا اظہار اور ان سے جڑے واقعات کو پیش کرتے ہوئے کئی تاریخی ادوار کا نقشہ کھینچا ہے، مثلاً وہ ایک جگہ زمانہ جنگ میں ہسپتالوں میں مریضوں کی دگرگوں حالت کا ذکر ایسے کرتی ہیں کہ پڑھنے والا خود کو وہاں کھڑا محسوس کرتا ہے۔ غرض کتاب عہد رفتہ سے وابستگی رکھنے والوں کے لئے بیش قیمت تحفہ ہے، مزید برآں آخر میں ادبی دنیا کے روشن ستارے مشتاق احمد یوسفی کی جانب سے مصنفہ کے شریک حیات کو لکھے گئے خطوط قاری کے لئے ایک دلچسپ تحفہ ہیں، یادگار رنگین تصاویر بھی شامل کی گئی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔