طلبا کا خواب آدم جی سائنس کالج تباہی کے دہانے پر آگیا

صفدر رضوی  منگل 21 جنوری 2020
صدر مملکت عارف علوی، جہانگیر ترین اورمعین اختر سمیت دیگر معروف شخصیات اس کالج سے فارغ التحصیل ہیں

صدر مملکت عارف علوی، جہانگیر ترین اورمعین اختر سمیت دیگر معروف شخصیات اس کالج سے فارغ التحصیل ہیں

کراچی:  سندھ سمیت پورے ملک کی پروفیشنل جامعات کوپوزیشن ہولڈرز اور ملک کومختلف شعبوں میں لیجنڈزاورسیاست دان کے ساتھ ساتھ شہرہ آفاق شخصیات فراہم کرنے والا کراچی کامعروف آدم جی گورنمنٹ سائنس کالج اپنے ہی موجودہ پرنسپل اوربیشتراساتذہ کی غفلت و لاپروائی کے سبب تباہی کے دہانے پر آپہنچاہے۔

کالج میں عمومی طورپراب کلاسز کے انعقاد کاسلسلہ ختم ہو چکا ہے جس کے سبب سیشن کے دوران ہی طلبہ کی اکثریت نے کراچی کے اس صف اول کے کالج کارخ کرنا چھوڑدیاہے یادرہے کہ کراچی کے چند ایک صف اول کے سرکاری کالجوں میں آدمجی سائنس کالج کاشمار ان تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔

جہاں سائنس کے طلبہ کے لیے داخلہ لیناکسی خواب سے کم نہیں اورشہرکے تعلیم یافتہ گھرانوں میں آدم جی سائنس کالج میں پڑھناکسی ’’اسٹیٹس سیمبل‘‘ سے کم نہیں کالج اورمحکمہ تعلیم کے ذرائع بتاتے ہیں کہ کراچی سمیت ملک کی معروف اورمایہ ناز شخصیات اس کالج سے فارغ التحصیل ہیں ان شخصیات میں مبینہ طور پر صدر مملکت ڈاکٹرعارف علوی ، پی ٹی آئی کے رہنما جہانگیز ترین ، ڈاکٹرعامر لیاقت حسین اوربرصغیر کے معروف مزاحیہ فنکار معین اخترمرحوم سمیت کچھ اورنام بھی لیے جاتے ہیں تاہم ’’ایکسپریس‘‘کوان دعوؤں کی تصدیق نہیں ہوسکی ہے۔

بتایاجاتاہے کہ معین اختراپنے زمانہ طالب علمی میں اسی کالج کے آڈیٹوریم میں تھیٹرڈرامہ بھی کیاکرتے تھے یہ زمانہ ماضی میں کراچی کے معروف ڈرامہ آڈیٹوریم ہواکرتاتھا تاہم کالج کی موجودہ انتظامیہ کااپنی ذمے داریوں سے روگردانی کے سبب یہ ادارہ اپنی عظمت رفتہ کھورہاہے اگرذرائع کے ان دعوؤں کودرست تسلیم کرلیاجائے کہ صدرمملکت ڈاکٹرعارف علوی،جہانگیرترین ،ڈاکٹرعامرلیاقت اورمعین اخترسمیت دیگرمعروف شخصیات اس کالج سے فارغ التحصیل ہیں توموجودہ صورتحال یہ بتارہی ہے کہ یہ کالج ملک کے لیے مزیدایسی شخصیات پیدانہ کرسکے کیونکہ کالج میں تدریس کے ساتھ ساتھ ہم نصابی سرگرمیاں بھی ماند پڑچکی ہیں۔

انتظامی غفلت ولاپرواہی کے سبب کراچی کے اس صف اول کے سرکاری کالج میں تدریسی سلسلہ تقریباًناپید ہوگیاہے اکیڈمک ایکسیلنس کے سبب کالج کوحاصل امتیازی حیثیت اب سوالیہ نشان بن گئی ہے اورمیٹرک کے پوزیشن ہولڈرزسمیت اے ون گریڈ کے حامل طلبہ اس کالج میں داخلے لینے کے باوجود اب ٹیوشن سینٹرکی جانب رخ کرنے پر مجبورہوگئے ہیں۔

کالج کے بیشتراساتذہ مستقل پرنسپل کی عدم تقرری اورقائم مقام پرنسپل کے کالج تاخیرسے پہنچنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دیرسے کالج آتے ہیں یاپھرکالج کارخ ہی نہیں کرتے جس کے سبب کراچی میں تدریس اورتدریسی اوقات کی پابندی کے حوالے سے پہچانے جانے والے آدم جی گورنمنٹ سائنس کالج میں اب بیشترمضامین کی کلاسز ہی نہیں ہورہی ہیں، سندھ کے دارالحکومت کراچی کایہ واحد سرکاری کالج ہے جہاں گزشتہ 9 برس سے بیک وقت انٹرمیڈیٹ پری انجینئرنگ اورپری میڈیکل کی کئی کئی پوزیشنزاس ادارے کے پاس رہی ہیں اوریہ پوزیشنزآدم جی سائنس کالج کے طلبہ نے اپنے نام کی ہیں۔

صفائی کے حوالے سے مثالی کالج کی صورتحال بھی ابتر ہو چکی
صفائی کے حوالے سے اس مثالی کالج کی صورتحال بھی ابترہورہی، یادرہے کہ ’’ایکسپریس‘‘کومعلوم ہواہے کہ کالج میں تعینات اردوکے مضمون کے ایسوسی ایٹ پروفیسر محسن شیخ خود صبح کے بجائے دوپہر11بجے یااس کے بھی بعد کالج آتے ہیں جس کافائدہ اٹھاتے ہوئے دیگرمضامین کے اساتذہ بھی صبح سویرے کالج میں موجودہی نہیں ہوتے اور بیشتر مضامین کی صبح کی پہلی کلاس ہوہی نہیں پاتی طلبہ صبح آتے ہیں تاہم متعلقہ اساتذہ کوکلاسز میں ناپاکرکالج میں ادھر سے ادھرگھومتے پھرتے ہیں یاپھرواپس اپنے گھروں کوچلے جاتے ہیں۔

اساتذہ کوچنگ سینٹر جانے کا مشورہ دینے لگے ،طلبا
انٹرسال دوئم کے ایک طالب علم نے ’’ایکسپریس‘‘ کو بتایاکہ گزشتہ سیشن میں اس کے تمام طالب علم ساتھی پابندی سے کالج آتے اورکلاسز لیتے تھے کیونکہ کلاسز وقت پرشروع ہو جاتی تھی تاہم اب اس کی کلاس کے درجنوں میں سے بمشکل 8یا10طلبہ کالج آتے ہیں آپس میں کچھ وقت گزارتے ہیں اورواپس چلے جاتے ہیں زیادہ ترطلبہ پریکٹیکل کے روزہی کالج آتے ہیں تاہم اکثرپریکٹیکل کرانے کے لیے بھی متعلقہ اساتذہ میسرنہیں آتے ایک طالب علم نے ’’ایکسپریس‘‘کوبتایاکہ شعبہ کیمیاکے ایک استادنے ان سے کہہ رکھاہے کہ وہ دوپہرمیں گلشن اقبال کے ایک ٹیوشن سینٹرمیں پڑھاتے ہیں اگرپڑھناچاہتے ہوتواسی ٹیوشن سینٹرمیں داخلہ لے لواس طالب علم نے ’’ایکسپریس‘‘سے سوال کیاکہ آخروہ کس طرح ٹیوشن سینٹرمیں داخلہ لے اس کے والد کی اتنی آمدنی نہیں ہے کہ اسے مہنگے ٹیوشنزپڑھائیں۔

خو دمیاں فصیحت، اوروں کو نصیحتپرنسپل کی اساتذہ کووقت پرآنے کی ہدایت
کالج کے قائم مقام پرنسپل پروفیسر محسن شیخ نے اساتذہ کے نام اعلامیہ جاری کیا ہے جس میںکہاگیاہے کہ ’’کالجز میں طلبہ اورعملے کی حاضری بروقت یقینی بنائی جائے‘‘ یادرہے کہ کالج کاافتتاح 30جولائی 1961میں فیلڈ مارشل ایوب خان نے کیاتھا کالج کاقیام پاکستان میمن ایجوکیشن ویلفیئرسوسائٹی کی جانب سے عمل میں آیاتھا پروفیسراے ایل شیخ اس کے پہلے پرنسپل تھے۔

جو طلبہ پڑھنے آتے ہیں انھیں ہم ضرور پڑھاتے ہیں، پروفیسر محسن شیخ
آدم جی گورنمنٹ سائنس کالج کے قائم مقام پرنسپل پروفیسرمحسن شیخ کاکہناتھاکہ جوطلبہ پڑھنے آتے ہیں انھیں ہم ضرورپڑھاتے ہیں کچھ اساتذہ کی ترقیاں ہونے والی ہیں وہ کالج سے چلے جائیں گے ان کی جگہ ہمیں دوسرے اساتذہ درکار ہوں گے ترقیاں ہونے کے سبب اساتذہ کے جانے سے تدریس میں وقتی خلل آتاہے اسلامیات کے صاحب ہیں ان کی ترقی ہوگئی ہے وہ جانے والے ہیں۔

پرنسپل کے وقت پر نہ آنے سے کالج کانظم خراب ہو رہا ہے، اساتذہ

کالج کے زوال کی کہانی آدم جی سائنس کالج کے پرنسپل پروفیسرمعظم حیدرکے تبادلے اورانھیں ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ مقررکیے جانے کے بعد شروع ہوتی ہے حکومت سندھ نے کچھ فرق سے دوبارڈائریکٹرجنرل کالجز سندھ کے عہدے پراسی کالج کے پرنسپلزکے تقرریاں کی ہیں سال 2007میں پہلے پروفیسرڈاکٹرناصرانصارکاآدم جی سائنس کالج کے پرنسپل کے عہدے سے تبادلہ کرکے ان کا تقرربحیثیت ڈائریکٹرجنرل کالجز سندھ کیاگیاوہ اسی عہدے پر ریٹائرہوئے اور18ستمبر 2019میں آدم جی سائنس کالج کے پرنسپل پروفیسرمعظم حیدر کو ڈائریکٹر جنرل کالجز سندھ مقررکردیاگیایہ وہ وقت تھا جب کالج میں نئے سیشن کاآغاز ہی ہواتھا۔

تاہم گزشتہ برس ستمبرکے بعد اس کالج کوگریڈ 20کاکوئی مستقل پرنسپل نصیب نہ ہوسکاگریڈ 19کے ایسوسی ایٹ پروفیسراورشعبہ اردوکے استاد محسن شیخ کوکالج کاقائم مقام پرنسپل تو مقرر کیا گیا تاہم ذرائع ان کے بارے میں بتاتے ہیںکہ گزشتہ برسوں میں ان کے وقت پر کالج آنے اورکلاسز لینے کے حوالے سے شکایات ہی رہتی تھیں کالج کے ایک استادنے ’’ایکسپریس‘‘کوبتایاکہ ایسوسی ایٹ پروفیسرمحسن شیخ کوسمجھایابھی جاتاتھاکہ ان کے وقت پر نہ آنے سے کالج کانظم خراب ہورہاہے اوردیگراساتذہ کوبھی یہ جواز مل رہاہے کہ وہ کالج دیرسے پہنچیں۔

جس کے بعد گزشتہ برس ستمبرمیں محسن شیخ نے بحیثیت قائم مقام کالج پرنسپل کاعہدہ سنبھال لیااب ان کے اوپرکوئی باز پرس کرنے والانہیں ہے جب وہ دیرسے آتے ہیں تودیگراساتذہ جوسابق پرنسپلز کی وجہ سے نظم اوروقت کاپابند کیے جانے کے سبب کالج وقت پر آ کر کلاسز لیتے تھے انھیں بھی دیرسے کالج آنے اورکلاسز اپنی مرضی سے لینے یاپھرنہ لینے کا موقع مل گیا ہے، قابل ذکر امر یہ ہے کہ آدم جی گورنمنٹ سائنس کالج کویہ اعزاز حاصل ہے کہ سن 2011سے 2018تک اس کالج نے انٹرمیڈیٹ پری میڈیکل اور پری انجینئرنگ میں ابتدائی تین میں سے ایک ،دویاتینوں پوزیشنزاپنے نام رکھی ہیں جبکہ کئی بارابتدائی 10 میں سے کئی پوزیشنزاس کالج کے پاس رہی، ان برسوں میں کالج میں پری میڈیکل اورپری انجینئرنگ میں انرولڈ طلبہ کی کامیابی کامجموعی تناسب 91 فیصدسے 97 فیصد تک رہاہے جس میں سے بیشتر طلبہ اے ون اوراے گریڈ میں ہی پاس ہوئے ہیں۔

ان برسوں میں پری میڈیکل میں سوائے 1کے کسی طالب علم نے سالانہ امتحانات میں ’’ڈی اورای ‘‘گریڈ حاصل نہیں کیاجبکہ پری انجینئرنگ میں ان برسوں میں محض 12طلبہ نے ڈی گریڈ لیاہے لیکن کوئی بھی طالب علم ای گریڈ میں پاس نہیں ہوا۔

’’ایکسپریس‘‘کوملنے والی تفصیلات کے مطابق سن 2018 میں انٹرمیڈیٹ کے سالانہ امتحانات میں کراچی میں اس کالج نے پری انجینیئرنگ کی دوسری اورتیسری جبکہ کمپیوٹرسائنس کی فیکلٹی میں پہلی پوزیشن حاصل کی سن 2017میں پری میڈیکل میں پہلی ،تیسری اورچھٹی جبکہ پری انجینیئرنگ میں تیسری ،چوتھی اورچھٹی پوزیشن لی 2016میں کالج نے پری انجینیئرنگ میں تیسری پوزیشن لی 2015میں انجینیئرنگ میں تیسری ،چوتھی اورپانچویں پوزیشن اپنے نام کی جبکہ 2014میں پری انجینئرنگ میں دوسری ،چوتھی ،ساتویں اورنویں پوزیشن اسی کالج کے پاس تھی 2013میں دوسری ،چھٹی اوردسویں پوزیشن کالج کے پاس تھی اور2012میں پہلی ،ساتویں ،آٹھویں اوردسویں جبکہ پری میڈیکل کی چوتھی اورآٹھویں پوزیشن کالج کے پاس رہی اور2011میں پری انجینئرنگ کی پہلی ،دوسری اورتیسری ابتدائی تینوں پوزیشن اسی کالج نے حاصل کی ،واضح رہے کہ کالج میں تدریسی اوقات کار کے مطابق کالج میں کلاسز صبح ساڑھے 8بجے سے شروع ہونی ہیں۔

تاہم جب ’’ایکسپریس‘‘نے صبح 9بجے آدم جی گورنمنٹ سائنس کالج کادورہ کیااورکم وبیش صبح ساڑھے 10 بجے تک کالج میں ہی موجودرہے اس اثنامیں کالج میں تعینات 40 کے قریب فیکلٹی میں سے بمشکل دوسے تین اساتذہ موجودتھے کالج کے شعبہ ’’اسٹیٹکس‘‘ (شماریات)، کیمیا اور شعبہ ریاضی میں توباقاعدہ تالے لگے ہوئے تھے کالج کے انتظامی بلاک میں انتظامی دفاتراورپرنسپل کے دفتر میں بھی تالالگاہواتھامحض شعبہ فزکس ، بوٹنی اوراسلامیات میں چندایک اساتذہ نظرآئے جبکہ صرف کالج کی لائبریری صبح 9بجے کھلی ہوئی تھی باقی کالج کی عمارت میں فرسٹ اور سیکنڈرفلورپرموجودکلاس رومزمیں سے بیشترخالی پڑے تھے چندایک کمرہ جماعت میں اگلی نشستوں پر چندطلبہ بیٹھے تھے جواساتذہ نہ ہونے کے سبب آپس میں ہی ہم کلام تھے چندطلبہ کے ایک گروہ نے ’’ایکسپریس‘‘کے سوال پر بتایاکہ ہم نے بہت شوق سے اس کالج میں اس لیے داخلہ لیاتھاکہ ایک تویہاں تعلیم حاصل کرناہمیں دیگرکالجوں کے طلبہ سے ممتازکرتاہے جبکہ یہاں کلاسز کی پابندی ،کالج کے نتائج اورپروفیشنل یونیورسٹیزمیں اس کالج کے طلبہ کے داخلوں کا Success rateاس کالج کوشہرکے دیگرکالجوں سے ممتاز کرتا ہے۔

تاہم یہاں آکرہم نے اس کے بالکل برعکس پایا ہے اب کلاسز ہوتی ہیں نا ہی ہمیں اساتذہ آسانی سے میسر آتے ہیں جب ہم اپنے سینئرسے اس سلسلے میں دریافت کرتے ہیں تووہ بتاتے ہیں کہ ایساتجربہ انھیں اسی تعلیمی سیشن میں ہورہاہے گزشتہ سال صورتحال اس کے برعکس اورمعمول کے مطابق تھی کلاسز وقت پر ہوتی تھیں اوراساتذہ کلاسز کے بعد بھی اپنے شعبوں میں باآسانی میسرہوتے تھے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔