رویے نہ بدلے تو کراچی کے سندھ سے ٹوٹنے کا خطرہ ہے ، جسٹس وجیہ

اسٹاف رپورٹر  منگل 28 جنوری 2020
اصلی سندھی 500 برس پہلے یہاں ایک فیصد بھی نہیں تھے، کراچی ملک کا دارالحکومت تھا

اصلی سندھی 500 برس پہلے یہاں ایک فیصد بھی نہیں تھے، کراچی ملک کا دارالحکومت تھا

کراچی:  عام لوگ اتحاد کے چیئرمین جسٹس (ر) وجیہ الدین نے قوم پرستی کو سندھ کیلیے زہر قاتل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ رویے نہ بدلے تو کراچی کے سندھ سے ٹوٹنے کا خطرہ ہے۔

چیئرمین جسٹس (ر) وجیہ الدین نے کہا پاکستان کسی قومیت نے نہیں بلکہ برصغیر کے مسلمانوں نے بنایا، جس وقت تحریکِ آزادی کی جدوجہد چل رہی تھی اس وقت مسلمانانِ ہند کی زبان اردو تھی اور ہندوؤں کی زبان ہندی تھی یہی قیامِ پاکستان کی بنیاد تھی، انھوں نے یہ باتیں جی ایم سید کی 116 ویں سالگرہ پر وکلا برادری سے خطاب کرتے ہوئے کہیں۔

جسٹس وجیہ کا کہنا تھا کہ جی ایم سید مسلمانوں اور تحریکِ پاکستان کے لیڈر تھے، قائد اعظم بھی جی ایم سید سے مختلف نہیں، وہ بھی سندھ دھرتی کے بیٹے تھے، سندھ کا مسئلہ یہ ہے کہ زبان نہ سیکھنے کی وجہ سے دیگر قومیتوں کو اپنایا نہیں جا رہا، 1962 تک اس کی ضرورت ہی پیش نہیں آئی تھی کیونکہ کراچی ملک کا دارالحکومت تھا اگر ایسا نہ ہوتا تو دیگر قومیت کے لوگ بھی سندھی سیکھتے۔

اصلی سندھی آج سے 500 برس پہلے یہاں ایک فیصد بھی نہیں تھے، یہ سب یہاں آکرقیام پذیر ہوئے، پھر بھی آبادیوں کا شوشہ چھوڑا جاتا ہے، صوبے میں 11 برس سے سندھی بولنے والوں کی حکومت ہے، محض دو تین غیر سندھی ہی حکومت میں ہیں جو ہر وقت چاپلوسی کرتے ہیں، میرا پیغام ہے کہ افہام و تفہیم اور محبت کے ساتھ رہنا چاہیے۔

اس وقت ایک سازش ہو رہی ہے کہ کسی طرح کراچی کو سندھ سے توڑ لیا جائے، انگریز ہانگ کانگ چھوڑ کر آئے ہیں اور اْنھیں اس کا متبادل چاہیے، کراچی جیسی کلائمیٹ دبئی تک نہیں، ان چیزوں کو سمجھ کر ہمیں اپنے معاملات چلانے چاہئیں، مل کر رہیں گے تو تنازعات ختم ہوسکیں گے۔

انھوں نے مزید کہا کہ خیبر پختونخوا، بلوچستان اور پنجاب میں جو لوگ قیامِ پاکستان کے بعد آکر آباد ہوئے، وہ فیسلیٹیٹ ہوگئے،  بھارت جو سیکولر ریاست کا دعویٰ کرتا ہے مسلمانوں کو ایک منظم سازش کے تحت ملک بدر کرنا چاہتا ہے، مودی سرکار کے بقول افغانستان، پاکستان اور بنگلہ دیش میں آپریشن ہوا جس کے نتیجے میں یہ لوگ بھارت آئے، بھارت میں مسلمانوں کے سوا تمام مذاہب کو قبول کیا جا رہا ہے۔

اسی طرح اسرائیل بھی تمام دنیا کے یہودیوں کو اپنا رہا ہے، پاکستان میں ایسا کچھ نہیں ہے لیکن سندھ میں یہ مسئلہ ہے، آج ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہمیں پاکستان کی بہتری کیلیے کام کرنا ہے یا قومیتوں اور دیگر چھوٹے موٹے جھگڑوں میں پڑے رہنا ہے، یہ ہمارے ہی فیصلے ہیں جن کے تحت ہماری آنے والی نسلوں نے بہبود کی زندگی گزارنی ہے یا تو برباد ہونا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔