پیارے برائے فروخت

بس کسی حادثے کو رونما کیجئے پھر وقوعہ سے ہمارا غائب ہونا اور بعد میں میڈیا پر رونا دیکھئے گا


خرم شہزاد January 31, 2020
گیارہ لوگ مر گئے، اس کے بعد بھی کسی نے ان کی لاشیں مال روڈ پر رکھ کر احتجاج نہیں کیا؟ (فوٹو: انٹرنیٹ)

لاہور میں وکیل اور ڈاکٹرز کیا ایک دوسرے کے سامنے آئے کہ میڈیا کے بھاگ کھلے۔ بہت دنوں کے بعد اور بہت دنوں کےلیے ان کے ہاتھ وہ چاٹ مصالحہ لگا جسے وہ اپنی پھیکی ہوتی ہوئی نشریات پر چھڑک کر خوب مزے سے ریٹنگ کمانے میں لگے رہے۔ اس سارے معاملے کی وجہ بننے والا پہلا وکیل کیوں لائن میں لگنے سے انکاری تھا اور اسے کیوں الگ کاؤنٹر سے ہی پرچی چاہیے تھی، یہ ہمارا آج کا موضوع نہیں۔ ہمارا موضوع تو وہ وڈیو بھی نہیں جو وائرل ہوئی جس میں ڈاکٹر اپنی مکاریوں پر ہنس رہے تھے اور وکلا کو سبق سکھانے کی باتیں کررہے تھے، نہ ہی آج ہم یہ سوچنے کی کوشش کریں گے کہ آخر وکلا ایک وڈیو پیغام پر اتنا کیوں بپھر گئے کہ ڈھائی تین ہزار وکلا کو اسپتال پر حملہ کرنا پڑا۔ سرکاری املاک کے نقصان پر سوال اٹھایا جائے گا، نہ ہم پولیس کے کردار اور حکومتی اقدامات پر بات کریں گے۔ آج ہم صرف ان لوگوں کی باتیں کریں گے جو اس سارے واقعے کے بعد چپ چاپ گیارہ لاشیں وصول کرکے گھر چلے گئے اور راوی ہر طرف چین ہی چین لکھنے لگا۔

لاہور واقعے کے بعد مسلسل میرے اندر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھنے والے لوگوں کے بارے سوال اٹھ رہے ہیں، جو بڑے آرام سے مار دیے گئے۔ وکیل ڈاکٹروں کو سبق سکھانے میں مصروف تھے، ایسے میں کوئی ڈاکٹر اپنی جان بچاتا کہ مریض کی؟ ظاہر ہے انہوں نے اپنی جان کو ترجیح دی اور نتیجے میں گیارہ مریض جان سے چلے گئے۔ حیرت اس وقت ہوتی ہے جب ورثا کی طرف سے نہ کوئی سوال، نہ احتجاج اور نہ ہی غم و غصہ۔ لوگ اپنے پیاروں بلکہ بہت ہی پیاروں کو کتنے آرام سے کفن میں وصول کرکے چلے گئے۔ بات ساری سامنے کی ہے۔ آپ کہیں گے کہ وہ بے چارے کرتے بھی تو کیا کرتے؟ لیکن افسوس کہ یہی سامنے کی بات تو مجھے سوال کرنے پر اکسا رہی ہے۔

میں ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتا ہوں جہاں گھورنے پر لوگ قتل ہوجاتے ہیں، جہاں ایک گالی دینے پر اب کوئی سر نہیں پھاڑتا اور نہ ہڈیاں توڑتا ہے بلکہ اب تو سیدھا گولی مارنا ہی سینے میں ٹھنڈ پڑنے کےلیے ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ میں ایسے معاشرے سے ہوں جہاں 80-90 سال کے شخص کی قدرتی موت پر بھی لوگ بین کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ابھی تو تیرے جانے کی عمر نہیں تھی اور تیری آئی مجھے کیوں نہ آگئی۔ اسی معاشرے میں مریض کے ساتھ چھ سات لوگوں کا اسپتال جانا تو ایک عام بات ہے جبکہ خاندان والوں کی طرف سے حال احوال پوچھنے کےلیے سب کا آنا بھی ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ نہیں تو جینا مرنا تک الگ کرلیا جاتا ہے۔ یوں ایک مریض کے پاس ہر وقت کم سے کم درجن بھر افراد ضرور موجود ہوتے ہیں، جن میں سے آدھے مریض کے پلنگ پر اور باقی آدھے باہر راہداریوں میں اپنی موجودگی اور اپنائیت کا ثبوت دے رہے ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب مریض مر رہے تھے تو ان کے لواحقین میں سے کوئی ایک بھی اس مریض کی آئی کو اپنے اوپر لینے کےلیے آگے نہ بڑھا اور نہ ہی ہوش و حواس کھو دینے کی وجہ سے ہاتھ لگے دو ڈاکٹر اور تین وکلا کا قتل ہوا؟ کوئی ایک میڈیا رپورٹ، وڈیو اور گواہ ایسا نہیں مل رہا جو یہ کہے کہ اسپتال میں موجود اتنے مریضوں کے لواحقین اچانک کہاں غائب ہوگئے اور انہوں نے مل کر اپنے مریضوں کی جان بچانے کی کوئی کوشش کیوں نہ کی؟ اپنے پیاروں کو مرتے ہوئے دیکھ کر لواحقین میں سے کوئی پاگل کیوں نہ ہوا؟ میں تو سوچ رہا ہوں، آپ بھی سوچ کر بتائیے کہ گیارہ لوگ مر گئے، اس کے بعد بھی کسی نے ان کی لاشیں مال روڈ پر رکھ کر احتجاج نہیں کیا۔ وکلا کے خلاف ایف آئی لکھوائی نہ ڈاکٹروں کے خلاف۔ بس راوی چین ہی چین لکھتا رہا۔ کیا یہ سب آپ کو عجیب نہیں لگتا کہ جس مریض کے آس پاس کم از کم درجن بھر افراد عیادت کےلیے موجود ہوں، جس کی صحت کےلیے ہزاروں لاکھوں روپے خرچ ہورہے ہوں، اس شخص کی یوں موت پر سبھی چپ چاپ گھر کو لوٹ جائیں۔

آپ یقیناً بہت کچھ کہیں گے۔ غریب اور مظلوم لوگوں کی بے بسی اور بے کسی کے افسانے پڑھیں گے۔ مجھے ان لوگوں کی لاچاری پر قائل کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن مجھے تو ماضی میں ہونے والے درجنوں واقعات کسی اور طرف کا اشارہ دے رہے ہیں۔ اس سے پہلے پاکستان میں عام طور پر اور پنجاب میں خاص طور پر ایک فیشن چلا تھا کہ جہاں کہیں کوئی واقعہ ہوتا، وزیراعلیٰ پنجاب پہنچ جاتے۔ مظلوم خاندان سے حال احوال کرتے، امداد کا اعلان کرتے۔ جس کے جواب میں مظلوم خاندان کا سربراہ مائی باپ کا شکریہ ادا کرتا اور اس کے بعد یکدم ساری کہانی کا دی اینڈ ہوجاتا۔

آتشزدگی سے لے کر اجتماعی زیادتی کے واقعات تک اور سیلاب سے لے کر ٹریفک اور ٹرین حادثات تک کے واقعات ایک چیک کے بعد ایسے فراموش ہوتے کہ جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔ مجھے شاہ عالمی مارکیٹ میں آتشزدگی کے بعد احتجاج کی کوریج کرتا رپورٹر یاد آرہا ہے جو مظاہرین سے پوچھ رہا تھا کہ آپ کے مطالبات کیا ہیں تو جواب ملتا کہ یہاں آگ لگ گئی، کئی پلازے جل گئے، اتنے افراد مر گئے، لیکن وزیراعلیٰ نہیں آیا۔ جس کے جواب میں رپورٹر کو کہنا پڑا کہ آپ لوگوں کو وزیراعلیٰ صرف اس لیے یہاں چاہیے کہ وہ امداد کا اعلان کرے، آپ لوگ مرنے والوں کی قیمت چاہتے ہو، اس کے سوا آپ لوگوں کا اور کوئی مقصد نہیں؟

ذرا آپ بھی سوچیے اور کھوج لگائیں کہ کتنے حادثات اور واقعات ہیں جن میں حکومت کی طرف سے دادرسی کا اعلان کیا گیا لیکن پھر بھی ان واقعات کی ایف آئی آر درج کروائی گئی اور ایسی کتنی ایف آئی آرز کی لواحقین نے پیروی کی۔ جواب میں ایک بڑا سا صفر آپ کا منتظر ہوگا۔ ساتھ یہ بھی تلاش کریں کہ ایسے واقعات جن میں لوگوں نے ردعمل دیا ہو، وہاں حکومت نے کتنے چیک تقسیم کیے تو اس کے جواب میں بھی ایک بڑا سا صفر آپ کے سامنے ہوگا۔ یعنی دو میں دو جمع کرتے ہوئے یہ جواب آیا کہ سیاست دانوں کو منتخب کرنے والوں نے یہ راز پا لیا کہ اگر کسی حادثے کے بعد ردعمل دیا تو آپ مظلوموں کی فہرست سے نکل جائیں گے اور ساتھ ہی کئی لاکھ کا چیک آپ کے ہاتھ سے نکل جائے گا۔ یہ تو قسمت موقع دیتی ہے کہ ایسے ایک واقعے میں مریض سے بھی جان چھوٹ جاتی ہے، اپنے کام دھندے چھوڑ کر اس کے سرہانے بیٹھے سے بھی نجات ملتی ہے، خرچہ الگ بچتا ہے اور حکومت کی طرف سے کئی لاکھ کا چیک بھی ملتا ہے۔ ایسے میں کوئی بے وقوف ہی ہے، جو ہورہے حادثے کو روکنے کی کوشش کرے، اپنا ردعمل دے، اپنا مریض بچائے۔ یا آج کی مصروف زندگی میں ایف آئی آر کے جنجنال میں پھنسے۔

آج ہمارے پیارے برائے فروخت ہیں۔ بس آپ کسی حادثے کو رونما کیجئے پھر وقوعہ سے ہمارا غائب ہونا اور بعد میں میڈیا پر رونا دیکھئے گا۔ آپ متفق نہیں تو کتابی باتیں مت سنائیے بلکہ ایف آئی آرز، پھاڑے ہوئے سر اور ٹوٹی ہڈیاں پیش کیجئے۔ لیکن آپ بھلا ایسے کیسے کرسکتے ہیں کئی لاکھ کے چیک کا سوال ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

مقبول خبریں