محمود خان کا سخت اقدام، تین وزراء کابینہ سے فارغ کر دیئے گئے

شاہد حمید  بدھ 29 جنوری 2020
ایک نہیں بلکہ دو سے تین مرتبہ پرویزخٹک حکومت کے خلاف بغاوت برپا کرنے کی کوشش کی گئی۔

ایک نہیں بلکہ دو سے تین مرتبہ پرویزخٹک حکومت کے خلاف بغاوت برپا کرنے کی کوشش کی گئی۔

پشاور: خیبرپختونخوا میں باسی کڑہی میں جو ابال پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی اس کا ڈراپ سین ہوگیا ہے، وزیراعلیٰ محمود خان جو بڑے صبر وتحمل سے مخالفین کی مخالفتوں کو برداشت کرتے چلے آرہے تھے بالآخر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور انہوں نے وزیراعظم کی منظوری سے ان تینوں وزراء جو محمود خان حکومت کے خلاف سرگرم تھے،کو کابینہ سے نکال باہر کیا ہے۔

محمود خان کے خلاف جو کھچڑی پکائی جا رہی تھی اس کے روح رواں صوبہ کے سابق سینئر وزیر عاطف خان، وزیر صحت شہرام ترکئی اور وزیر مال شکیل احمد تھے اور وزیراعلیٰ نے اسی لیے کسی ایک یا دو کو نہیں بلکہ تینوں کو بیک وقت کابینہ سے باہر کا راستہ دکھاتے ہوئے ان پر واضح کردیا کہ اقتدار کے کھیل میں یا تو تخت ہوتا ہے یا پھر کچھ نہیں ۔ عاطف خان اور شہرام ترکئی نے جو کیا وہ پہلی بار نہیں کیا بلکہ اس سے پہلے بھی وہ کئی مرتبہ اقتدار کے حصول کے لیے بہت کچھ کر چکے ہیں لیکن انھیں کامیابی نہیں مل سکی،گزشتہ دور میں جب پرویز خٹک صوبہ کے وزیراعلیٰ اور عاطف خان اور شہرام ترکئی ان کی ٹیم کاحصہ تھے، تب بھی انہوں نے بغاوت برپا کرنے کی کوشش کی تھی۔

ایک نہیں بلکہ دو سے تین مرتبہ پرویزخٹک حکومت کے خلاف بغاوت برپا کرنے کی کوشش کی گئی،جب پریشر گروپ بنا تب عاطف خان اور شہرام اس کا حصہ نہیں تھے اور پرویز خٹک نے مذکورہ پریشر گروپ کو وزارتیں اور عہدے دیتے ہوئے رام کر لیا تھا تاہم جب پرویزخٹک حکومت نے قدم جما لیے اور پی ٹی آئی والوں کو یقین ہوگیا کہ اقتدار ان کے ہاتھوں میں ہے تب عاطف خان اور شہرام ترکئی نے پرویزخٹک کا تختہ الٹنے کی کوشش کی اور انہی کوششوں کے دوران ایک مرتبہ تو وہ بنی گالہ میں مستقل ڈیرے ڈال کر بیٹھ گئے تھے تاہم انھیں اپنی کوششوں میں کامیابی حاصل نہ ہوئی اور انھیں پرانی تنخواہ پر کام جاری رکھنا پڑا اور پرویزخٹک اپنے پانچ سال پورے کرگئے۔

2018 ء کے عام انتخابات کے بعد پاکستان تحریک انصاف دو تہائی اکثریت لے کر خیبرپختونخوا میں دوبارہ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئی تو عاطف خان گروپ ایک بار سرگرم ہوگیا اور انہوں نے وزارت اعلیٰ کے حصول کے لیے کوشش کی لیکن پرویز خٹک اور اسد قیصر ان کی راہ کی دیوار ثابت ہوئے اور ان کی تمام کوششوں کو ناکام بنادیا۔ اس وقت خیبرپختونخوا کی وزارت اعلیٰ کے کئی امیدوار میدان میں موجود تھے، پرویزخٹک ،اسد قیصر، شاہ فرمان، عاطف خان، شوکت یوسفزئی اور دیگر کئی تاہم اقتدار کے اس کھیل کے پرانے کھلاڑی پرویز خٹک نے سپیکر ہاؤس میں پچاس سے زائد نومنتخب اراکین صوبائی اسمبلی کا اکٹھ کرتے ہوئے ثابت کردیا کہ اکثریت کسی اور کے پاس نہیں بلکہ ان کے پاس ہے۔

تاہم جب پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان نے واضح کردیا کہ پرویزخٹک اور اسد قیصر کو قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی کے باعث صوبہ کی بجائے مرکز میں آنا ہوگا تو اس وقت شاہ فرمان کو وزیراعلیٰ بنانے کی کوششیں ہوئیں لیکن جب ان کے نام پر اتفاق نہ ہو سکا تو پھر سوات سے کامیاب ہونے والے محمودخان کا نام میدان میں آیا جو صرف پرویزخٹک کے نامزد کردہ نہیں تھے بلکہ انھیں سوات سے رکن قومی اسمبلی مراد سعید کی بھی حمایت حاصل تھی۔

موجودہ حکومت کے ڈیڑھ سال کے دوران دو سے تین مرتبہ وزیراعلیٰ محمودخان کے گرد جال بننے کی کوشش کی گئی جبکہ کابینہ میں شامل کچھ ارکان کی جانب سے کابینہ اجلاسوں اور عوامی تقریبات میں محمودخان کے حوالے سے جو رویہ اپنایا گیا اور زیر لب مسکراہٹوں کے ذریعے جس طریقے سے خود کو برتر ثابت کرنے کی کوششیں کی گئیں یہ ڈھکی چھپی نہیں تھیں تاہم محمودخان کسی پر ہاتھ ڈال کر اپنے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے تھے اس لیے وہ اپنے روایتی صبر وتحمل کے ساتھ صورت حال کو برداشت کرتے ہوئے بال ہمیشہ اپنی پارٹی کے چیئرمین وزیراعظم عمران خان کے کورٹ میں پھینکتے رہے لیکن جب صبر اپنی آخری حدوں کو چھونے لگا تب انہوں نے کابینہ میں ردوبدل کرتے ہوئے شہرام ترکئی کا محکمہ تبدیل کردیا اور ان سے بلدیات کا قلمدان لیتے ہوئے انھیں محکمہ صحت حوالے کر دیا جو اس اعتبار سے سزا ہی تھی کہ بلدیات کا محکمہ شہرام ترکئی نے اپنی پسند سے لیا تھا تاہم کھلی آنکھوں سے سب دیکھنے کے باوجود جب بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی گئی تو وزیراعلیٰ نے دوسرا سرپرائز دیا۔

وزیراعلیٰ محمودخان نے شہرام ترکئی کے بغیر لیڈی ریڈنگ ہسپتال کا دورہ کرتے ہوئے یہ واضح کردیا کہ صوبہ کے چیف ایگزیکٹو وہ ہیں اور وہ جب چاہیں کسی بھی وزیر کے محکمہ میں بھی پاؤں ڈال سکتے ہیں اور یہ فائنل میسج تھا کیونکہ وزیراعلیٰ محمودخان کو وزیراعظم عمران خان کی وطن واپسی کا انتظار تھا اور جونہی وزیراعظم وطن واپس پہنچے، محمودخان ان کے پاس پہنچ گئے اور انھیں ساری کتھا سناتے ہوئے ان سے اس انتہائی اقدام کی منظوری حاصل کر لی جو کابینہ سے باہر ہونے والے وزرا کے وہم وگمان میں بھی نہ تھی، عاطف خان، شہرام ترکئی اور شکیل احمد، تینوں گزشتہ دور میں بھی کابینہ کا حصہ تھے اور اس حکومت میں بھی تاہم اب وہ کابینہ کا حصہ نہیں رہے جس کے بعد یہ امکان ظاہر کیا جا رہا ہے کہ شاید وہ اب حکومت اورکابینہ سے باہر بیٹھ کر سازشیں کریں گے، وہ کچھ نہ کچھ تو ضرور کریں گے تاہم آٹھ ، دس اراکین صوبائی اسمبلی جو کسی کی محبت یا محرومیوں کا شکار ہونے کی وجہ سے ان کے گرد اکٹھے ہوگئے تھے وہ اب اپنی جانیں بچانے کے لیے منظر سے غائب ہوجائیں گے۔

وزیراعلیٰ نے تین وزراء کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے جو پیغام دیا ہے وہ تمام ارکان کو سمجھ آگیا ہے جس کے بعد کوئی بھی وزیراعلیٰ یا وزیراعظم کے عتاب کا شکار نہیں ہوگا البتہ جو شکار ہو چکے وہ ضرور کچھ نہ کچھ کریں گے،اس بارے میں غالب امکان تو یہی ہے کہ یہ تینوں وزراء کسی بھی طریقے سے وزیراعظم عمران خان تک رسائی حاصل کرنے اور انھیں اپنا دکھڑا سنانے کی کوشش کریں گے اور ان کی کوشش ہوگی کہ اچھے دن جلد واپس لوٹ آئیں، تاہم اگر پھر بھی ان کی شنوائی نہ ہوئی تو وہ کوئی انتہائی قدم بھی اٹھا سکتے ہیں جو اسمبلی رکنیت سے استعفے دینے اور دوبارہ الیکشن کے میدان میں اترنا ہو سکتا ہے تاہم اس کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں کیونکہ پی ٹی آئی کا لیبل اترنے کے بعد ان لوگوں کو جو مشکلات پیش آسکتی ہیں اس کا اندازہ لگایا ہی جا سکتا ہے البتہ ترکئی خاندان جو عوامی جمہوری اتحاد پاکستان کے پلیٹ فارم سے اپنی پرچ پیالی اٹھائے انتخابات میں اترتا آیا ہے، وہ اگر چار نشستوں کی قربانی دینے پر تیار ہو جائے تو اپنی کھوئی ہوئی پہچان دوبارہ حاصل کر سکتا ہے۔

تاہم یہ کام بھی اتنا آسان نہیں کیونکہ استعفیٰ صرف شہرام ترکئی کو ہی نہیں دینا پڑے گا بلکہ صوبائی اسمبلی میں ان کے ہم نشین ان کے چچا محمد علی ترکئی کو بھی استعفیٰ دینا ہوگا جو محمودخان کے خلاف تحریک کے دوران ترجمان کے فرائض انجام دیتے رہے اور جب یہ دو استعفے آئیں گے تو اس صورت میں شہرام ترکئی کے والد لیاقت ترکئی جو پی ٹی آئی ہی کی جانب سے سینٹ آف پاکستان کے رکن ہیں وہ کیسے برقرار رہ سکتے ہیں اور نہ ہی عثمان ترکئی کے لیے قومی اسمبلی کی نشست پر باقی رہنا ممکن ہوگا اس لیے غالب امکان تو یہی ہے کہ عاطف خان اور شہرام ترکئی جو ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں انھیں معاملات کو اسی طرح صبر وتحمل کے ساتھ لینا ہوگا جس طریقے سے گزشتہ دور میں شوکت یوسفزئی نے وزارت سے الگ کیے جانے کے بعد لیا تھاجس کا پھل انھیں گزشتہ دور میں تو نہ مل سکا تاہم موجودہ دور حکومت میں انھیں وزارت بھی مل گئی اور وہ وزیراعلیٰ اور وزیراعظم کے انتہائی قریب بھی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔