ایک وائرس کی مار

خالد محمود رسول  ہفتہ 1 فروری 2020

وُوہان شہر کا نام ہم سے کتنے لوگوں نے سنا ہوگا؟  شاید بہت کم لوگوں نے۔ وسطی چین کے صوبے ھوبی  Hubei کا دارالخلافہ ہے۔ علاقے کا ایک بڑا شہر اور تجارتی سرگرمیوں کا مرکز جسے چین کے دو مشہور دریا  یانگ زی اور ہان تقسیم کرتے ہوئے گزرتے ہیں۔

وُوہان شہر میں کئی خوبصورت پا رکس اور جھیلیں ہیں۔ اس کی آبادی ایک کروڑ دس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کا وہی معمول جو چین کے دیگر بڑے شہروں کا ہے، ایئرپورٹ، ٹرین اسٹیشن ،  فیری، بسوں اور سڑکوں پر مسلسل ایک اژدھام۔ مارکیٹس میں بھی  وہی کیفیت،  حدِ نظر  خلقِ خدا ، کان پڑی آواز سنائی نہ دے مگر پچھلے چھ سات ہفتوں میں  اس شہر کے سارے منظر بدل گئے ہیں۔

ایئر پورٹ بند ہے، ٹرین اسٹیشنوں پر ہو کا عالم  طاری ہے، بسوں اور فیری کے اڈے بھی ویران ہیں۔ بازار سنسان اور سڑکوں پر جیسے بھوتوں کا راج ہو۔ قریب سات ہفتے قبل اس شہر کی گوشت و فش مارکیٹ یعنی Wet market میں ایک نیا اور مہلک وائرس دریافت ہوا جسے کرونا وائرس کا نام دیا گیا۔ تیزی سے پھیلنے والا یہ وائرس متعدی ہے یعنی ایک سے دوسرے انسان میں منتقل ہو سکتا ہے۔ تیزی سے پھیلتے اس وائرس کو مزید پھیلاؤ سے روکنے اور اس کے نقصانات کو محدود کرنے کے لیے چینی حکومت نے 23 جنوری سے شہر کو مکمل طور پر لاک ڈاؤن کر رکھا ہے۔ ان حفاظتی اقدامات اٹھانے تک البتہ یہ وائرس اس شہر سے بہت دور دور تک پھیل چکا تھا۔

ہانگ کانگ نے چین کے ساتھ اپنی سرحدوں کو تقریباً بند کر دیا ہے۔ بہت سے ممالک نے فضائی پروازیں معطل کر دی ہیں۔ یہ سب کچھ اس تیزی سے ہوا کہ بہت سے لوگوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہیں ملا۔ گلوبلائزیشن کے اس دور میں لاکھوں لوگ دنیا کی دوسری سب سے بڑی اکنامی یعنی چین میں روزانہ آتے جاتے ہیں۔ تعلیم، کاروبار اور دیگر کام کاج کے سلسلے میں ہر ملک کے ہزاروں لاکھوں لوگ چین میں مقیم ہیں۔ پاکستان سے سیکڑوں طلباء اور لوگ بھی  وُوہان میں موجود تھے جو اس لاک ڈاؤن میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

پاکستان کے ساتھ سرحدی راستے اور شمالی علاقوں سے چین کے قریب ترین شہر ارمچی میں سیکڑوں لوگ پھنس کر رہ گئے ہیں کیونکہ پروازیں معطل ہیں۔ ایسے میں ویزوں کی محدود مدت کی تلوار سر پر معلق ہے ۔ مرے کو مارے  شاہ مدار کے مصداق  ایسے عالم میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے بے یقینی اور  بے چینی کے ساتھ ساتھ رہائش اور کھانے پینے کے انتظامات ایک الگ روگ ہے،سفر میں ہلکی ہوئی جیب ان اچانک اخراجات کا بوجھ کیسے اٹھائے؟

وُوہان اور ارمچی میں پھنسے پاکستانی دہائیاں دے رہے ہیں کہ انھیں ہنگامی بنیادوں پرواپس لانے کی فوری صورت نکالی جائے۔ جاپان، امریکا اور برطانیہ سمیت کئی ممالک نے اپنے شہریوں کو چارٹرڈ پروازوں سے واپس منگوایا۔ پاکستان کی حکومت کے بیانات میں ہمدردی تو ہے کہ مشکل کی اس گھڑی میں ہم آپ کے ساتھ ہیں، مدد کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں ، چینی حکومت سے رابطے میں ہیں وغیرہ وغیرہ۔ تاہم حکومت نے وائرس کے پاکستان میں پھیلاؤکے خدشے کے پیشِ نظر وُوہان میںپھنسے پاکستانیوں کو ملک میں فوری واپس نہ لانے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ وائرس کتنا خطرناک ہے؟ جس تیزی سے یہ پھیلا ہے اور جتنی بڑی تعداد اور علاقوں کو متاثر کر چکا ہے اس کی بنیاد پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)  نے اسے عالمی ہیلتھ ایمرجنسی قرار دیا ہے ۔ اور کیوں نہ لے، حالیہ دو دِہائیوںمیںیکے بعد دیگرے کئی خطرناک  وائرس بیماریوں نے سر اٹھایا اور ہزاروں افراد کو موت کی آغوش میں دھکیل دیا۔ HIV ایڈز کا وائرس تباہ کن ثابت ہوا، مغربی افریقہ کے تین ممالک میں 2014-15 کے دوران ای بولاEbola وائرس نے گیارہ ہزار سے زائد افراد کو موت کی نیند سلا دیا۔

2009 میں H1N1 وائرس نے ہیبت اور تباہی   پھیلا دی، سوا سال میں اٹھارہ ہزار افراد لقمہ ء اجل بن گئے۔ 2003 میں تنفس کی بیماری SARS نے پونے آٹھ سو افراد کو نگل لیا۔ دنیا ایک گلوبل ولیج ہے، کہنے میں بہت بھلا اور خوش کن لگتا ہے لیکن ایسی بیماریوں کے پھیلاؤ میں ایئر ٹریول سمیت تیز ترین سفر کے سب وسیلے اسی تیزی سے ان کے پھیلاؤ کا باعث بھی بنتے ہیں۔

پاکستان کا سب سے بڑا ٹریڈ پارٹنر چین ہے۔ ہماری کل چودہ ارب ڈالرز کی تجارت میں برآمدات تو   دوارب ڈالرز کے لگ بھگ ہیں مگر درآمدات بارہ ارب ڈالرز کے لگ بھگ ہیں۔ اپنے آس پاس گھر، مارکیٹ، فیکٹریوں اور دفاتر میںگِن کر دیکھیں تو حیرت ہوتی ہے کہ ہم چین سے درآمدی اشیاء پر کس قدر انحصار کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے شیخ رشید جیسے جہاندیدہ سیاست دان اور وزیر نے اپنے ایک انٹرویو میں  ٹھیک اندیشہ ظاہر کیا کہ چین سے اشیاء کی سپلائی میں رخنہ اندازی سے مہنگائی میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔

کرونا وائرس کے ہاتھوں چین اور دنیاکے  معاشی نقصان کا اندازہ لگانا ابھی مشکل ہے، حتمی نقصان   کا دارومدار اس کے پھیلاؤ اور ہلاکت خیزی پر ہو گا۔  پاکستان پر وائرس کے پھیلاؤ کے ساتھ ساتھ معاشی اثرات کا اندیشہ بھی ہے۔ وُوہان میں چار پاکستانی کے کرونا وائرس سے متاثر ہونے کی تصدیق ہوئی ہے۔ پاکستان میں ابھی تک کنفرم کیس تو رپورٹ نہیں ہوا لیکن وسیع پیمانے پر چین کے ساتھ آمد و رفت کے پیشِ نظر جلد یا بدیر کرونا وائرس کے یہاں پھیلاؤ کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا ۔

چین میں مقیم اور مسافر پاکستانیوں کے پھنسنے اور ان کے متاثر ہونے، پاکستان میں موجود چینی اور ہم  وطن ممکنہ متاثرین ، تجارت اور سپلائی چین ( Supply chain) پر امکانی اثرات کا حساب کتاب جوڑیں تو  پاکستان پر اس وائرس کے خطرات کے سائے کافی گہرے ہو سکتے ہیں۔ حکومت اور عوام کو ہر ہنگامی صورت کے لیے تیار رہنے کی ضرورت ہے کیونکہ خطرہ ابھی مسلسل پھیلاؤ میں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔