صرف بارش کا انتظار ہے

سعد اللہ جان برق  بدھ 5 فروری 2020
barq@email.com

[email protected]

ہاں تو جناب کیسے ہیں آپ؟ خوش تو بہت ہوں گے کہ نیاسال اپنے دامن میں آپ کے لیے نہ جانے کتنا کتنا اور کیسا کیسا نیا لایا ہو گا۔ سب کچھ نیا نویلا چمکتا لشکارے مارتا ہوا چم چم کرتا ہوا۔

ہم تو خیر پردیس میں، دیس میں نکلا چاند

اپنے گھر کے آنگن میں کیسے اترا چاند

آپ شاید یہ سوچیں کہ ہم پردیس میں تو نہیں ہیں، ہمیں بھی پتہ ہے کہ ہم پردیس میں نہیں ہیں لیکن آپ کو یہ پتہ بالکل نہیں ہو گا کہ اکثر لوگ دیس میں ہوتے ہوئے ’’دیس‘‘ میں نہیں ہوتے۔ ارے آپ پھر غلط سمجھ گئے، ہم ان لوگوں کی بات نہیں کر رہے ہیں کہ دیس کے ہوتے ہوئے پردیس میں ہوتے ہیں، وہ تو اصل میں ہر دیس کے ہوتے ہیں، اس لیے کوئی دیس ان کا دیس نہیں ہوتا اور ہر دیس ان کا دیس ہوتا ہے۔

ہم اپنے جیسوں کی بات کر رہے ہیں جو دیس میں ہو کر بھی دیس میں اس لیے نہیں ہوتے کہ یہ تو دیس کو اپنا دیس سمجھتے ہیں لیکن ’’دیس‘‘ ان کو اپنا ہرگزنہیں سمجھتا۔ کہ یہ نہ تین میں ہوتے ہیں نہ تیرہ میں۔ یا یوں کہیے کہ دیس کے ’’سگے‘‘ نہیں ہوتے، اس لیے سگے سگ ان کو سگا نہیں سمجھتے اور آپس ہی میں سگ سگ کر کے ایک دوسرے کے سگے ہوتے ہیں کیونکہ سگ راسگ می شناسد۔ آپ شاید ہمیں ہی نکما نکھٹو بلکہ سوتیلا سمجھ کر یہ فیصلہ دیں کہ ہم نے کوشش نہیں کی ہو گی ،کسی سگ کا سگا بننے کی تو یہ بھی غلط ہے، ہم نے کوشش تو بہت کی کہ سگ ہمیں سگا سمجھیں لیکن کامیاب یعنی سگ نہیں ہوئے۔ بہتر ہو گا کہ یہ کہانی بالکل جڑ ہی سے لے کر سنائیں۔

ایسا ہوا کہ ہم رات کو سوئے تو اپنی دھرتی ماں کی آغوش میں تھے۔ لیکن جاگے تو دھرتی ماں ایک اجنبی مرد کی زبردستی کی بیوی بن چکی تھی۔ اس اجنبی شخص کو ہم نے دیکھا اس میں پسند کرنے کی کوئی چیز ہی نہیں تھی لیکن ہم نے دھرتی ماں کی بھلائی کے لیے نہ صرف اسے قبول کیا بلکہ اس کے ساتھ مانوس ہونے کی کوشش بھی کرنے لگے حالانکہ وہ ہمارا باپ نہیں صرف ماں کا شوہر تھا۔ پشتو میں ایسے شخص کو ’’پلندر‘‘ کہا جاتا ہے اور پہلے والے سوتیلے بیٹے ’’پرکٹے‘‘ کہلاتے ہیں، اکثر ہوتا یہ ہے کہ کچھ کوشش ’’پلندر‘‘ کی طرف سے ’’باپ‘‘ بننے کی ہوتی ہے اور کچھ پرکٹوں کی طرف سے بیٹا بننے کی اور یوں ایک دوسرے کے قریب ہوتے ہوئے ان کے درمیان ’’باپ بیٹے‘‘ کا رشتہ بن جاتا ہے۔ لیکن ہمارے معاملے میں ایسا نہیں ہوا، ہمارا ’’پلندر‘‘ صرف ہماری دھرتی ماںکے وسائل کا چور تھا۔ لہٰذا ہم عمر بھر پر کٹے رہے، بیٹے نہیں ہوئے، بھاگ بھی نہیں سکتے تھے کہ دھرتی ماں اس کے قبضے میں تھی۔

سوچا ہے کئی بار کہ اس کوچے سے نکلیں

لاچاری دل ہے کہ نکلنے نہیں دیتی

اس لاچاری دل نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا، اس لیے کہتے ہیں کہ دیس میں ہوتے ہوئے بھی ہم دیس میں نہیں ہیں، ہم اگر دیس کو اپنا سمجھیں بھی تو دیس ہمیں کہاں اپنا سمجھتا ہے۔

اپنی مرضی کے کہاں اپنے سفر کے ہم ہیں

رخ ہواوں کا جدھر کا ہے ادھر کے ہم ہیں

اس لیے کہا کہ دیس میں تونکلا ہو گا چاند بلکہ شاید اس کے ساتھ ایک تارہ بھی ہو گا اس لیے پوچھتے ہیں کہ کیسے ہیں آپ؟ خیر جیسے بھی ہیں ویسے ہی ٹھیک ہیں کیونکہ آپ کے پاس بہت سارے پیسے بھی ہیں اور بھانت بھانت کے نہ جانے کیسے کیسے ’’کھیسے‘‘ بھی ہیں بلکہ جیبیں اور نیفے بھی ہیں، ہم تو ایسے ہیں کہ ردی جیسے ہیں۔ خوشی کی بات تو یہ ہے کہ سب کچھ نیا نویلا بھی ہے اور ’’انیس کا بیس‘‘ بھی ہو گیا ہے جو اس سے پہلے کبھی نہیں ہوا تھا، ہمیشہ ’’انیس‘‘ کا انیس رہتا تھا۔ ایک دنیا گزرگئی، بلکہ گزشتہ پوری صدی ’’انیس‘‘ ہی رہی، ہندسے آتے رہے جاتے رہے لیکن سب کے سب اسی منحوس ’’انیس‘‘ کے قبضے میں رہے۔ لیکن اب تاریخ میں پہلی بار انیس کا منحوس سایہ فنا ہو گیا اور انیس کا بیس ہو گیا۔2020 ذرا دیکھیے کتنا اچھا لگتا ہے جیسے پھولوں کی شاخ سے ’’غنچے‘‘ لٹک رہے ہوں اور یہ پشتو ٹپہ تو آپ نے سنا ہی ہو گا کہ

سانگہ بہ نن سبا کے گل شی

مائے پہ سر کے سرے غوٹئی لیدلی دینہ

یعنی ’’شاخ‘‘ آج کل ہی میں پھولوں سے لد جائے گی کہ میں اس میں لال لال کلیاں نکلتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔ بات اگر صرف دیکھنے کی ہوتی تب بھی کچھ ایسا ویسا ہو سکتا تھا، آندھی آ سکتی تھی، طوفان آ سکتا تھا سوکھا آ سکتا تھا لیکن ’’ماہوں‘‘ نے بھی پیش گوئیاں کی ہوئی ہیں کہ نیا سال پھولوں کا ہو گا، غنچوں کا ہو گا، سہروں اور ہاروں کا ہو گا۔ کیونکہ سب کچھ ٹھیک کر دیا گیا ہے، اگا لیا گیا ہے، پانی بھی لگا دیا گیا ہے، گوڈی نلائی بھی کر دی گئی، نالیاں بھی کھودی گئی ہیں، صرف بارش کا انتظار ہے، آپ بھی دعا کریں، ہم بھی کرتے ہیں کہ ’’بارش‘‘ کہیں سے آ جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔