پانی بچانے والوں کا یوم اپیل

ندیم رزاق کھوہارا  منگل 11 فروری 2020
منصوبہ برائے اصلاحِ کھالہ جات کے ملازمین پچھلے 15 سال سے عارضی ملازموں کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

منصوبہ برائے اصلاحِ کھالہ جات کے ملازمین پچھلے 15 سال سے عارضی ملازموں کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ (تصاویر بشکریہ بلاگر)

کرۂ ارض کا تقریباً 71 فیصد پانی سے ڈھکا ہونے کے باوجود انسان کےلیے قابلِ استعمال پانی صرف تین فیصد ہے۔ اور اس تین فیصد کا بڑا حصہ آبپاشی یعنی زرعی مقاصد کےلیے استعمال کیا جاتا ہے۔ دن بدن سوکھتے، آلودہ ہوتے دریا اور پانی کی بڑھتی کمیابی کے باعث دنیا بھر میں کم پانی سے بہتر کاشت کاری کا رجحان فروغ پا رہا ہے، جدید نظام ہائے آبپاشی متعارف کروائے جا رہے ہیں اور آبپاشی کےلیے پہلے سے موجود چینلز کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا رہا ہے۔

اسی سلسلے میں پاکستان میں بھی سالہاسال سے کئی اقدامات کیے جا رہے ہیں جن میں سے ایک، سال 2005 میں شروع ہونے والا قومی پروگرام برائے اصلاح کھالہ جات بھی ہے۔ اس پروگرام کے تحت ملک بھر میں فصلوں کی آبپاشی کےلیے بنائے گئے کچے کھالوں کی اصلاح کرکے انہیں تیس فیصد تک پختہ تعمیر کیا گیا اور آبی ماہرین کے اندازے کے مطابق ایک ڈیم برابر پانی بچایا گیا۔ اس پروگرام کی افادیت کو مدنظر رکھتے ہوئے حال ہی میں بر سر اقتدار آنے والی تحریکِ انصاف کی حکومت نے قومی پروگرام برائے اصلاح کھالہ جات کے فیز دوم کا اعلان کیا ہے۔

دنیا بھر کے آبی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ آبی چینلز یعنی کھالہ جات کو ساٹھ فیصد تک پختہ کر دیا جائے تو نہ صرف پانی کی نوے فیصد بچت کو یقینی بنایا جا سکتا ہے بلکہ ٹیل تک فراہمی کو ممکن بنا کر بنجر زمینوں کو آباد کیا جا سکتا ہے۔ ان حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے قومی پروگرام کے فیز 2 میں ملک بھر کے کھالہ جات کو پچاس فیصد تک پختہ کیا جائے گا۔ صرف یہی نہیں بلکہ چونکہ زمینیں غیر ہموار ہونے کے باعث بہت سا پانی رقبے کی اونچ نیچ میں ضائع ہو جاتا تھا، اسے ختم کرنے اور زمین کی ہمواری بذریعہ لیزر کرنے کےلیے لیزر لینڈ لیولرز بھی کسانوں کو فراہم کیے جائیں گے۔ نیز بارش کے پانی کو ذخیرہ کرنے کےلیے فیلڈ کی سطح پر ملک بھر میں چھوٹے چھوٹے تالاب تعمیر کیے جائیں گے۔

قابل ذکر بات یہ ہے کہ درج بالا تمام کام واٹر مینجمنٹ کے وہ ملازمین ہی سرانجام دیں گے جنہیں قومی پروگرام کے فیز اول کے تحت پندرہ سال پہلے بھرتی کیا گیا تھا؛ اور وہ گزشتہ 15 سال سے بلا تعطل اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن قابلِ افسوس امر یہ ہے کہ ان ملازمین میں سے پاکستان کے دیگر تمام صوبوں کے ملازمین کو مستقل کر دیا گیا ہے۔ البتہ پنجاب کے 1362 ملازمین تاحال مستقلی سے محروم ہیں، سراپا سوال ہیں۔

ان ملازمین کی جانب سے 12 فروری بروز بدھ کو پنجاب بھر میں ’’یومِ اپیل‘‘ منانے کا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے تحت پاکستان خصوصاً صوبہ پنجاب کے اعلیٰ حکام سے مستقل کرنے اور نوکریوں سے نکالے گئے ساتھیوں کو بحال کرنے کی اپیلیں کی جائیں گی۔ میری تمام حکام بالا سے اپیل ہے کہ وہ اس سلسلے میں نوٹس لیں؛ اور یہ غریب ملازمین کہ جو سڑکوں پر آنے کے بجائے پرامن طور پر جدوجہد جاری رکھے ہوئے ہیں اور سوشل میڈیا پر آواز اٹھا رہے ہیں، ان کی اپیل کو سنا جائے۔

جناب عزت مآب چیف جسٹس سپریم کورٹ آف پاکستان سے بھی اپیل ہے کہ منصفِ اعلی ہونے کے ناتے وہ پاکستان کے تمام شہریوں کے یکساں حقوق کے ضامن ہیں۔ اسی بنیاد پر ان ملازمین کی داد رسی فرمائیں اور ملک کے دیگر صوبوں کے واٹر مینجمنٹ ملازمین کی طرح پنجاب کے ملازمین کو بھی مستقل کرنے کا حکم صادر فرمایا جائے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ندیم رزاق کھوہارا

ندیم رزاق کھوہارا

بلاگر بطور انجینئر شعبہ اصلاح آبپاشی محکمہ زراعت، پنجاب سے منسلک ہیں۔ سائنسی صحافت کا جنون ہے۔ ان کی تحریریں گزشتہ کئی سال سے گلوبل سائنس، کمپیوٹنگ، مکالمہ، ہم سب اور ہماری ویب سمیت دیگر بڑے جرائد اور اردو ویب سائٹس پر تواتر سے شائع ہورہی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔