مساجد اور مزارات کے بجلی کے بل کروڑوں روپے تک پہنچ گئے

کورٹ رپورٹر  ہفتہ 15 فروری 2020
 313مزارات پرصرف58 پولیس اہلکارتعینات،131مزارات پرایک اہلکاربھی نہیں،پولیس رپورٹ پرجواب الجواب طلب

313مزارات پرصرف58 پولیس اہلکارتعینات،131مزارات پرایک اہلکاربھی نہیں،پولیس رپورٹ پرجواب الجواب طلب

کراچی:  سندھ ہائی کورٹ نے مزارات، درگاہوں پر ناقص سیکیورٹی سے متعلق پولیس رپورٹ پر درخواست گزار سے جواب الجواب طلب کرلیا۔

محکمہ اوقاف کی سیکیورٹی کے بعد ایک اور معاملہ سامنے آگیا، مساجد اور مزارات کے بجلی کے بل کروڑوں روپے تک پہنچ گئے ہیں، درخواست گزار نے بلوں کی کاپیاں عدالت میں جمع کرادیں۔

جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس یوسف علی سید پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو مزارات، درگاہوں پر ناقص سیکیورٹی سے متعلق درخواست کی سماعت ہوئی، سندھ پولیس نے رپورٹ عدالت میں کرادی، ایڈیشنل آئی جی کراچی کی رپورٹ نے درخواست گزار کے خدشات کو درست قرار دے دیا، رپورٹ میں کراچی کے 313 مزارات اور درگاہوں پر صرف58 پولیس اہلکار تعینات ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔

رپورٹ کے مطابق 131 مزارات اور درگاہوں پر سرے سے کوئی ایک اہلکار تعینات ہی نہیں، ضلع شرقی کے 29، ملیر کے 41، کورنگی کے 61 مزارات پر کوئی ایک اہلکار تعینات نہیں، حضرت عبد اللہ شاہ غازی کے مزار پر ایک شفٹ میں 8 سے 10 اہلکار تعینات ہیں۔ جنوبی میں 13، وسطی میں 45، سٹی میں 53 اور غربی میں 71 مزارات و درگاہیں ہیں، ضلع شرقی میں  29، ملیر میں  41، کورنگی میں 61 مزارات مزارات و درگاہیں ہیں، 313 مزارات میں 2 اے ایس آئی، 15 پولیس کانسٹیبل اور 41 لیڈی کانسٹیبل تعینات ہیں۔

سماعت کے دوران محکمہ اوقاف کی ایک اور نااہلی سامنے آگئی، درخواست گزار احمد داؤد نے بتایا کہ مزارات اور اس سے ملحقہ مساجد کے بجلی کے بل کروڑوں روپے تک پہنچ گئے ہیں 5 سال سے بل ادا ہی نہیں کیے جارہے ہیں،انھوں نے بجلی کے بلوں کی کاپیاں عدالت میں پیش کردیں۔

درخواست گزار نے بتایا کہ محکمہ اوقاف سندھ کی غفلت سے مزارات اور ملحقہ مساجد کے بجلی کے بل کروڑوں روپے تک جاپہنچے ہیں، محکمہ اوقاف سندھ نے کے الیکٹرک کو 4 کروڑ  53 لاکھ روپے کی ادائیگی نہیں کی، کے الیکٹرک نے مزارات و درگاہوں کی بجلی منقطع کرنے کے لیے نوٹس بھیج دیے ہیں ، عدالت نے پولیس رپورٹ پر درخواست گزار سے جواب الجواب طلب کرتے ہوئے سماعت 18 مارچ تک سماعت ملتوی کردی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔