- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
- کراچی میں سیشن جج کے بیٹے قتل کی تحقیقات مکمل،متقول کا دوست قصوروار قرار
- غزہ کے اسپتالوں میں اجتماعی قبروں نے اقوام متحدہ کو بھی خوفزدہ کردیا
- ایکس کی اسمارٹ ٹی وی ایپ متعارف کرانے کی تیاری
- جوائن کرنے کے چند ماہ بعد ہی اکثر لوگ ملازمت کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟
- لڑکی کا پیار جنون میں تبدیل، بوائے فرینڈ نے خوف کے مارے پولیس کو مطلع کردیا
کیا یہ کچھووں کا ’سینگ والا ڈائنوسار‘ تھا؟
زیورخ: سوئٹزرلینڈ، کولمبیا، وینزویلا اور برازیل کے سائنسدانوں پر مشتمل تحقیقاتی ٹیم نے وینزویلا اور کولمبیا کے ریگستانوں ایک قدیم دیوقامت کچھوے کے رکازات (فوسلز) دریافت کیے ہیں جو اندازاً 1200 کلوگرام وزنی تھا جبکہ اس کے سخت خول کی لمبائی 2.4 میٹر سے 3 میٹر تک رہی ہوگی۔ تازہ پانی میں پائے جانے والے ان کچھووں میں نروں کے خول پر سینگ بھی ابھرے ہوتے تھے۔
آج سے تقریباً 50 لاکھ سال پہلے معدوم ہوجانے والے اس کچھوے کو ’’اسٹوپینڈیمائس جیوگرافیکس‘‘ (Stupendemys geographicus) کا نام دیا گیا ہے جس کے اوّلین رکازات 1970 کے عشرے میں دریافت کیے گئے تھے۔ یہ تازہ پانی میں پایا جانے والا کچھوا تھا۔
حالیہ تحقیق میں اس دیوقامت کچھوے کے اور بھی کئی رکازات دریافت ہوئے ہیں جن میں سے کچھ خاصے مکمل بھی ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کولمبیا اور وینزویلا کے موجودہ ریگستانی علاقے آج سے لاکھوں سال پہلے سرسبز و شاداب مقامات ہوا کرتے تھے جہاں ندیوں، جھیلوں اور تالابوں کے علاوہ دلدلیں بھی بڑی تعداد میں موجود تھیں۔ ماضی میں بھی یہاں سے دیوقامت معدوم مگرمچھ کی مختلف اقسام کے علاوہ کتر کر کھانے والے معدوم جانوروں کے رکازات دریافت ہوچکے ہیں، تاہم دیوقامت کچھوے کی دریافت کئی لحاظ سے منفرد اور اہم ہے۔
تازہ پانی کے موجودہ کچھووں کی بنیاد پر ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ اسٹوپینڈیمائس کی گردن، خول کے درمیان کے بجائے دائیں یا بائیں جانب سے باہر نکلی ہوتی تھی۔ نر کچھووں کے خول پر ابھرے ہوئے سینگوں کے بارے میں سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ یہ کچھوا غالباً انہیں نسل خیزی کےلیے مادہ سے ملاپ (mating) کی لڑائی میں اپنے مخالف نر کچھوے سے لڑنے میں استعمال کرتا تھا۔ ان کے علاوہ یہی سینگ اسے غالباً اپنے سب سے خطرناک دشمن، دیوقامت مگرمچھ جیسے جانور سے مقابلہ کرنے میں بھی مدد دیتے تھے۔
جسمانی تجزیئے اور کچھووں کے ارتقائی شجر (ایوولیوشنری ٹری) سے موازنہ کرکے ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسٹوپینڈیمائس کا قریب ترین زندہ رشتہ دار، ایمیزون کا دریائی کچھوا ہے جس کا سر اس کے بقیہ جسم کے مقابلے میں خاصا بڑا ہوتا ہے۔ البتہ یہ تقریباً 12 کلوگرام تک وزنی ہوتا ہے جبکہ اسٹوپینڈیمائس کا وزن اس سے 100 گنا زیادہ تھا۔
حالیہ مطالعے سے اس خیال کو بھی تقویت پہنچتی ہے کہ اسٹوپینڈیمائس صرف چند علاقوں تک ہی محدود نہیں تھا بلکہ یہ براعظم امریکا کے پورے جنوبی حصے میں پایا جاتا تھا۔
اس اچھوتی دریافت کی تفصیلات تحقیقی مجلے ’’سائنس ایڈوانسز‘‘ کے تازہ شمارے میں آن لائن شائع ہوئی ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔