سرکلر ریلوے اورکراچی کے دکھ

ایڈیٹوریل  اتوار 23 فروری 2020
کراچی سرکلر ریلوے در حقیقت شہر قائد میں ٹرانسپورٹ مسائل کو کم کرنے کے لیے ایک قابل عمل متبادل حل ہے

کراچی سرکلر ریلوے در حقیقت شہر قائد میں ٹرانسپورٹ مسائل کو کم کرنے کے لیے ایک قابل عمل متبادل حل ہے

سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ کراچی سرکلر ریلوے 6 ماہ میں چلا دیں ورنہ وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی ہوگی۔ ریلوے اراضی سے متعلق سندھ ہائیکورٹ کا حکم امتناع ختم کردیا، حکم کے مطابق سیکریٹری ریلوے اراضی پر موجود تجاوزات کے خاتمے کے لیے تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں سے مدد لیں، عدالت نے سیکریٹری ریلوے کو فوری قبضہ ختم کرانے اور قابضین کو ایک ہفتہ میں نوٹس جاری کرنے کا حکم دیدیا، عدالت نے آیندہ سماعت پر سیکریٹری ریلوے، سیکریٹری پلاننگ اور اٹارنی جنرل کو پیش ہونے کا حکم دیدیا، عدالت نے ریمارکس دیے بادی النظر میں یہ لیز دھوکا دہی سے حاصل کی گئی ہے،۔

عدالت نے ریمارکس دیے متاثرین کو متبادل جگہ پرمناسب انداز میں بسایا جائے اور بنیادی سہولیات کی فراہمی یقینی بنائی جائے اب تک کیا کرتے رہے، آپ لوگ چاہتے ہی نہیں، سرکلر ریلوے بنے، کہانیاں لکھ کر لے آتے ہیں ۔ سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس فیصل عرب اور جسٹس سجاد علی شاہ پر مشتمل تین رکنی بینچ کے روبرو تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات سے متعلق سماعت ہوئی، ایڈووکیٹ جنرل سندھ،چیف سیکریٹری، سیکریٹری ریلوے، سیکریٹری بلدیات سمیت دیگر اعلی حکام پیش ہوئے، سماعت کے موقع پر ڈاکٹر فاروق ستار، فردوس شمیم نقوی اور سعید غنی سمیت دیگر بھی پیش ہوئے۔

کراچی سرکلر ریلوے در حقیقت شہر قائد میں ٹرانسپورٹ مسائل کو کم کرنے کے لیے ایک قابل عمل متبادل حل ہے جس سے ٹرانسپورٹ مافیا کی چیرہ دستیوں کی ایک طرف روک تھام ہوسکتی ہے اور دوسری جانب بسوں، رکشوں، کوچز اور دیگرگاڑیوں کے دھویں اور شور کی آلودگی بھی قابو میں آسکتی ہے، دلچسپ امر یہ ہے جس سرکلر ریلوے کی بحالی پر عدالت عظمی کے روبرو ریلوے حکام کہانیاں لکھ کر لاتے ہیں وہ سرکلر ریلوے کراچی میں کامیابی ست چلتی رہی ہے اور اس کے سفری نظام کے ذریعے کراچی کے متعدد علاقوں کی 60  لاکھ شہری سفر کیاکرتے تھے، ہزاروں سرکاری اور نجی ملازمین ،طلبہ وطالبات صبح سویرے اسی ریلوے کی سہولت سے استفادہ کرتے تھے مگر حسب روایت کراچی میں ایک منظم طریقے اور گھناؤنے منصوبے کے تحت ٹرام سروس اور ڈبل ڈیکر بسیں بند کرائی گئیں اسی طرح سرکلر ریلوے کی ایک دن تجہیر وتکفین کے لیے مفاد پرست تجارتی قوتوں نے ہاتھ ملائے۔

عدلیہ کی کارروائی سے جو حقیقت سامنے آتی ہیں وہ پاکستان ریلوے کے تاریخی،تہذیبی اور تجارتی مسافت میں عوام کی قومی یکجہتی کے احساس سے عاری وہ تاجرانہ گروہ ہیں جو ملکی معیشت، عوامی مصائب کے خاتمہ میں اشتراک عمل سے گریزاں ہیں ،کسی مسئلے کے حل کا حصہ نہیں بنتے مگر مسائل کی شدت بڑھانے کے لیے اتنے حیلے بہانے کرتے ہیں کہ انسانی اعصاب بھی جواب دے جائے ۔ عروس البلاد کراچی کی اسی بیچارگی کے پیش نظر سپریم کورٹ نے سرکلر ریلوے کی بحالی کا بیڑا اٹھایا ہوا ہے اور عدالتی کارروائی سے صاف اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ عدالت عظمی اس مسئلہ کی تہہ تک پہنچنے کے لیے بیتاب ہے، افسر شاہی کے روایتی تساہل ، غفلت اور ریلوے انتظامیہ کی مالیاتی ملی بھگت کے باعث جس بڑے پیمانے پر تجاوزات قائم ہوئے ، ریلوے ٹریکس کو تباہ کیا گیا، ریلوے ٹریکس پر کثیر منزلہ عمارتیں، فلیٹس، کچے پکے مکانات اور جھونپڑ پٹیاں بچھائی گئیں، ریلوے کی زمیں بیچی گئی، قبضہ مافیا کو کھلی چھوٹ ملی ، ان سب کی شرح نمو وفاقی اور صوبائی محکموں کے ہوتے ہوئے بڑھتی گئی۔

اس حقیقت سے کون واقف نہیں کہ ملک کے سب سے بڑے میگا سٹی کو صرف سرکلر ریلوے کی مقامی سروس کی بندش سے نقل وحمل کی مشکلات درپیش نہیں بلکہ شہر کے درجنوں بس اسٹاپس بے مصرف رہ گئے ہیں، بس اسٹینڈز شہر سے دور تعمیر کرنے کی ہدایات پر جزوی عمل ہوتا رہا مگر ٹرانسپورٹ مافیا کی بدولت شہری علاقوں میں آج بھی بین الصوبائی بس اسٹیڈز موجود ہیں، جگہ جگہ گاڑیوں کے اسٹینڈز بنے ہوئے ہیں،کے پی ٹی اسپورٹس اسٹیڈیم کے سامنے لوڈنگ ان لوڈنگ کرنے والے ٹرکوں کا ہجوم سڑک روکے ہوئے ہے، ، صدر کراچی کا تجارتی مرکز اور دھڑکتا دل ہے ،اس کی مصروف ترین سڑکوں پر گندے پانی کے جوہڑ بن گئے ہیں، علاقے میںسیوریج سسٹم عرصہ سے تباہ ہے، کچرے کی سیاست ہوتی رہی مگر کراچی میں صحت صفائی کا معیار ناقص ہے، جن بڑے شاہراہوں پر فلائی اوور بنے ہیں وہاں بھی ٹریفک کا اژدہام ہے، ٹریفک جام کی اذیتوں کے تماشے شہر کی ہر بڑی سڑک پر دیکھے جاسکتے ہیں، قیوم آباد چورنگی پر شام کے وقت ٹریفک کا دباؤ ناقابل یقین حد تک جان لیوا اور اعصاب شکن ہو گیا ہے۔

اسی شہر آشوب میں سرکلر ریلوے کی بحالی کے سلسلہ میں عدالت نے استفسار کیا سیکریٹری ریلوے کہاں ہیں ، اس پر ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے موقف دیاکہ سرکلر ریلوے پر بہت پیش رفت ہوئی ہے، میں چاہ رہا تھا کہ بڑا چارٹ لاتا مگر دستیاب نہیں تھا تاہم ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے سرکلر ریلوے کی بحالی کا پلان عدالت میں پیش کردیا۔ ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف دیا کہ سرکلر ریلوے کے تمام اسٹیشنوں کو بسوں سے منسلک کردیا جائے گا، سیکریٹری ریلوے نے بتایا کہ آپ کی ہدایت پر روزانہ کی بنیاد پر کام شروع کردیا، چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس سے پہلے کیا کر رہے تھے، چاہیں تو آپ کو ابھی جیل بھیج دیں، روزانہ خواب دکھا رہے ہیں، آپ کام نہیں کریں گے۔

ایڈووکیٹ جنرل سندھ نے موقف دیا کہ سرکلر ریلوے کے 24 گیٹس کو بحال کرنا مشکل ہے، چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دیے اس سے پہلے آپ کہاں تھے، اب تک کیا کرتے رہے، آپ لوگ چاہتے ہی نہیں، 24 گیٹ کے بعد نیا بہانہ آجائے گا، سندھ حکومت نے بتا دیا تھا کہ یہ ایلیویٹیڈ چلے گی، زمین پر تو جگہ ہی نہیں بچی، چیف جسٹس نے ریمارکس دیے اگلی سماعت پر آپ نیا نقشہ لے آئیں گے، کراچی والوں کو کیا مشکل ہے کچھ اندازہ ہے آپ لوگوں کو،اگر ہم اپنے ملک میں ریلوے نہیں خود بنا سکتے تو کیا کر سکتے ہیں۔ 72 سالوں میں اتنی قابلیت نہیں ہوئی، دنیا کہاں سے کہاں چلی گئی۔ چیف جسٹس نے تنبیہ کرتے ہوئے ریمارکس دیے کیا وزیراعظم اور وزیراعلی سندھ کو بلا لیں۔ پھر وزیراعظم اور وزیراعلی کو طلب کرکے پوچھ لیتے ہیں کام کون کرے گا۔

شہر ناپرساں کراچی کے دکھ ہزار ہیں، عدالت عظمی نے کے سی آر کی سہولت کے لیے ریلوے حکام کے ضمیر کو للکارا ہے ،ضرورت ایک اجتماعی شعور کی عوامی اور افسرانہ بیداری کی بھی ہے۔ سرکلر ریلوے جلد بحال ہو اور ساتھ ہی شہر کی صورتگری کے لیے بھی وزیراعظم، گورنر سندھ اور وزیراعلی سندھ اپنی ٹیم کو متحرک کریں، کیونکہ شہر میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈ شیڈنگ کے ساتھ ساتھ گیس کی معطلی اور سی این جی کی فراہمی میں طویل ناغہ معمول بنتا جارہا ہے، کیماڑی کے گیس سانحے کو حکمراں بھول گئے، شہر کنکریٹ کا جنگل بن چکا ہے۔

تازا ہوا ناپید ہے، ہر تیسراآدمی فیس ماسک پہنے نظر آتاہے، غریب و متوسط آبادیوں میں اکثر پینے کا صاف پانی نہیں ملتا لیکن واٹر ٹینکر کے ذریعے فی ٹینکر3  سے 5 ہزار روپے پانی فروخت ہوتا ہے ، شہر میں غیرقانونی واٹر ہائی ڈرینٹ قائم ہیں، تجاوزات کے خاتمے کی مہم جاری ہے تاہم اس مسئلے کا حل بھی سائنسی بنیادوں پر ڈھونڈنے کی ضرورت ہے، کراچی کو منشیات کا ناسور ڈس رہا ہے، لاکھوں نوجوان ہیروئن، چرس، بھنگ،گانجہ، شیشہ کے نشے کے عادی ہیں، طالبات میں نشہ آور اشیا کا استعمال بڑھ رہا ہے، برساتی نالے گندگی اور کچرے کے ڈھیر سے لبریز ہیں، ڈرینیج اور سیوریج نظام تباہی سے دوچارہے۔ کراچی رو رہا ہے۔ اس کے آنسو پونچھئے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔