کورونا کے دو مریضوں کی پاکستان میں تصدیق

ایڈیٹوریل  جمعـء 28 فروری 2020
کوروناوائرس کی ملکی سطح پر تصدیق کے ساتھ ہی صوبائی حکومتوں نے وائرس سے نمٹنے کیلیے طبی سہولتوں کے فقدان کا اعتراف کیا۔ فوٹو: فائل

کوروناوائرس کی ملکی سطح پر تصدیق کے ساتھ ہی صوبائی حکومتوں نے وائرس سے نمٹنے کیلیے طبی سہولتوں کے فقدان کا اعتراف کیا۔ فوٹو: فائل

کورونا وائرس نے پاکستان کو بھی ٹارگٹ کر لیا۔ پاکستان میں کورونا وائرس کے دومریضوں کی تصدیق ہوئی ہے، جس کے بعد بلوچستان میں 15 مارچ تک جب کہ سندھ میں دو روزکے لیے تعلیمی ادارے بند کردیے گئے ہیں۔

محکمہ صحت سندھ کے مطابق22 سالہ یحییٰ جعفری میں بیماری کی تصدیق ہوئی، اس نے ایران سے کراچی کا سفرکیا ، متاثرہ شخص اور فیملی کو نجی اسپتال داخل کر دیا گیا، اس کے ساتھ آنے والے8 سے 10 مزید لوگوں کو زیرمشاہدہ رکھا گیا ہے، ایران سے آنے والے دیگر افراد کا بھی ٹیسٹ کیا جا رہا ہے۔

دوسرامریض اسلام آباد میں سامنے آیا،اس کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے، اسے پمز کی آئی سولیشن وارڈ میں رکھا گیا ہے۔ وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر ظفر مرزا نے کوئٹہ میں وزیراعلیٰ بلوچستان جام کمال کے ساتھ پریس کانفرنس میں بتایا کہ دونوں مریضوں نے گزشتہ چودہ دنوں میں ایران کا سفرکیا تھا تاہم ہمیں بلا ضرورت پریشان ہونا چاہیے، نہ خوف ودہشت پھیلانی چاہیے، احتیاط اور ذمے داری سے کام لینا چاہیے، اس سے بھی زیادہ یہ ضروری ہے کہ ہیلپ لائن 1166پر رابطہ کریں۔

کورونا وائرس کی ملکی سطح پر تصدیق کے ساتھ ہی صوبائی حکومتوں نے وائرس سے نمٹنے کے لیے طبی سہولتوں کے فقدان کا اعتراف کیا، ادھر غیر محسوس طور پر خوف وہراس کا پیدا ہونا بھی فطری تھا کیونکہ کورونا وائرس پوری دنیا کو متاثرکر رہا ہے، عالمی اقتصادی صورتحال بھی متاثر ہونے لگی ہے، سرمایہ کاروں میں کھلبلی مچی ہوئی ہے،کورونا نے مشرق وسطیٰ کے ممالک کو بھی خبردارکردیا ہے، سعودی عرب نے عمرہ پر عارضی پابندی لگا دی ہے، لاہور ایئرپورٹ سے عمرہ زائرین کو آف لوڈ کیا گیا، میڈیا کے مطابق اسپتالوںمیں خصوصی لباس غائب کر دیے گئے، کراچی میں کورونا وائرس کی وبا کی تصدیق سے شہریوں نے ملنے جلنے سے گریزکیا۔

بچوں میں کورونا وائرس کے غیر ضروری خطرے کی افواہوں اور مناسب تدابیر کی سائنسی تشہیر کے فقدان کے باعث عوامی رابطوں اور روزمرہ تعلقات میں بھی احتیاط کی تلقین کی جاتی رہی۔ عالمی سطح پر بھی کورونا وائرس سے متاثرہ گروپوں کی چین کے شہر ووہان سے واپسی کا عمل بھی جاری ہے، بھارت نے ایئر انڈیا سے اپنے شہریوں کی واپسی کا انتظام کیا، متعدد یورپی اور ایشیائی ممالک کے شہری واپسی کے بعد مختلف اسپتالوں میں قرنطینہ میں رکھوائے گئے۔ عالمی ادارہ صحت کے ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ قرنطینہ میں رکھے جانے کی مدت 14دن ہوگی تاہم انتہائی تشویشناک حالت میں مریض دو سے تین ہفتے تک زیر علاج رہ سکتا ہے۔

جاپان میں خاتون دوسری مرتبہ کورونا کا شکار ہوئی۔ WHOکی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ایلوارڈ کا کہنا ہے کہ دنیا کا کوئی سائنس دان یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ کورونا وائرس کتنا خطرناک ہے، کیونکہ اس کی پر اسراریت پھیلتی گئی ہے، اصل میں اسے مینج کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال نے کہا کورونا وائرس سے متعلق مکمل احتیاطی تدابیر اپنائی جائیں گی۔ زائرین کی آمدورفت اور اسکریننگ کو مانیٹر کیا جا رہا ہے، کوئٹہ میں چند دنوں میں وائرس کے ٹیسٹ کی سہولت شروع ہوجائے گی۔

ایران اور افغانستان کے ساتھ اشیائے خورونوش کی تجارت کرنے والوں کو کروڑوں روپے کا نقصان ہونے لگا، ایران اور عراق جانے والے کینو بڑی تعداد میں خراب ہوگئے جب کہ پاکستان آنے والے اجناس ضایع اور چائے کی پتی 400 روپے فی کلو تک مہنگی ہوگئی،دونوں اطراف ہزاروں لوگ بے روزگار ہوگئے ہیں۔ کراچی میں وائرس کے کیس سامنے آنے پر نیواسلام آباد انٹرنیشنل ایئرپورٹ سمیت ملک بھر کے ہوائی اڈوں پر ہائی الرٹ کردیا گیا۔

محکمہ صحت خیبرپختونخوا نے پشاور ایئرپورٹ ، طورخم اور ایران سے آنے والوں کی اسکریننگ شروع کر دی ہے جب کہ صوبے میں مشتبہ کیسزکی تعداد 16 ہوگئی ہے تاہم کسی میں وائرس کی تصدیق نہیں ہوئی۔کورونا وائرس کی نئی قسم کووڈ انیس کا کئی ملکوں میں پھیلاؤ تیزی سے جاری ہے۔

چین میں چوبیس گھنٹوں کے دوران 52  مزید افراد کی اموات ہوئی ہیں، وہاں اب تک 2,715 ہلاکتیں ہوچکی ہیں جب کہ مریضوں کی تعداد 78,000 ہے۔ عالمی ادارہ صحت نے خبردارکیا ہے کہ دنیاکووڈ انیس (COVID-19) کے لیے تیار رہے، یہ عالمی وبا کی صورت اختیارکر سکتی ہے، غریب ممالک میں جانی نقصان کا زیادہ خطرہ ہے۔

چین کا دورہ کرنے والی عالمی ماہرین کی ٹیم واپس صدر دفتر پہنچ چکی ہے ،اس کے سربراہ بروس ایلوارڈ نے چینی اقدامات کو بہتر قرار دیا۔ انھوں نے واضح کیا دنیا اس وبا کے لیے تیار نہیں اور اسے قابو کرنے میں مشکلات کا سامنا ہو سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔