کراچی کس کا؟

محمد سعید آرائیں  جمعـء 28 فروری 2020

رواں سال ملک بھر میں بلدیاتی انتخابات متوقع ہیں اور ملک کے سب سے بڑے شہرکراچی کے بلدیاتی انتخابات پر وفاق اور سندھ میں برسر اقتدار پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی کے علاوہ ایم کیو ایم کی نظریں دوسری جماعتوں کے برعکس زیادہ گہری ہیں اور اندرون خانہ کوششیں بھی شروع کی جاچکی ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما اپنی وفاقی حکومت کے قیام کے بعد سے متعدد بار کہہ چکے ہیں کہ کراچی کا آیندہ میئر تحریک انصاف کا ہوگا۔

پیپلز پارٹی بھی ماضی میں ایسے دعوے کرتی رہی ہے اور لگتا ہے کہ اس نے اپنی صوبائی حکومت کی موجودگی میں کراچی کی میئر شپ حاصل کرنے کی اندرونی طور تیاریوں کے بعد پی ٹی آئی کے دعوؤں کے برعکس مکمل منصوبہ بندی کرلی ہے جس کے تحت کراچی میں چھ اضلاع کی تعداد بڑھانے اور لیاری اورگڈاپ کو نئے اضلاع بنانے کا فیصلہ کرلیا ہے جس کی اندرونی تیاریاں مکمل ہوتے ہی نئے اضلاع کا اعلان کردیا جائے گا اور کراچی ڈویژن آیندہ آٹھ اضلاع پر مشتمل ہوگا۔

اس وقت کراچی کا سب سے بڑا ضلع سینٹرل ہے جس کی ڈی ایم سی کی سربراہی ایم کیو ایم کے چیئرمین کے پاس ہے۔ ضلع وسطی کو ماضی سے ہی ایم کیو ایم کا گڑھ کہا جاتا تھا۔ جب ماضی میں ایم کیو ایم کے خلاف آپریشن ہوئے تو یہاں تک کہا گیا تھا کہ ایم کیو ایم صرف ضلع وسطی تک محدود ہوچکی ہے مگر گزشتہ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم اپنے قائد سے علیحدگی کے بعد بھی کراچی میں اپنا میئر اور چار ضلعوں میں اپنے چیئرمین لانے میں کامیاب ہوگئی تھی جب کہ ملیر اور جنوبی اضلاع کی ڈی ایم سیز اور ضلع کونسل کراچی کی چیئرمین شپ پیپلز پارٹی کو ملی تھیں۔

پی ٹی آئی، جماعت اسلامی و دیگر پارٹیوں کو صرف چند یوسیزکی چیئرمین شپ ملی تھی۔ ایم کیو ایم نے اپنا ڈپٹی میئر پی ایس پی میں جانے کے بعد دوبارہ بھی منتخب کرا لیا تھا اور اب بھی بلدیہ کونسل میں ایم کیو ایم کو اکثریت حاصل ہے۔ ایوان کی صدارت میئر کراچی کرتے ہیں مگر اب کونسل کے اجلاسوں میں اپوزیشن کی طرف سے ہنگامہ آرائی بڑھتی جا رہی ہے جس میں پی ٹی آئی بھی اپوزیشن کا کردار ادا کرتی ہے اور وفاق میں اپنی حلیف جماعت ایم کیو ایم کا ساتھ نہیں دیتی کیونکہ پی ٹی آئی کی نظریں کراچی کی مستقبل کی میئر شپ پر مرکوز ہیں اور تحریک انصاف کے رہنما آئے دن دعوے کرتے رہتے ہیں کہ آیندہ میئر ہمارا ہوگا جب کہ ایسا ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے جب کہ پیپلز پارٹی اس سلسلے میں اندرون خانہ تیاریاں کر رہی ہے۔

موجودہ بلدیاتی نظام سندھ کی حکمران پیپلز پارٹی کے مفاد میں ہے کیونکہ سندھ حکومت نے کراچی میں ایم کیو ایم کو اپنا محتاج رکھنے کے لیے کراچی کو انتہائی کمزور بلدیاتی نظام دیا تھا جو پی پی کی دہری پالیسی اور شہری آبادی کو نظر انداز کرنے اور کراچی کی دیہی آبادی کو ترجیح دینے کا عملی ثبوت ہے۔

ضلع کونسل کراچی کی چیئرمین شپ پیپلز پارٹی کے پاس ہے جس کے چیئرمین کا کہنا ہے کہ ضلع کونسل ملک کی سب سے زیادہ آبادی والی کونسل ہے۔ کراچی کی دو ڈی ایم سی پیپلز پارٹی کے پاس ہیں جہاں دیگر چار ڈی ایم سیز کے مقابلے میں کہیں زیادہ تعمیری و ترقیاتی کام سندھ حکومت کے تعاون سے ہو رہے ہیں۔ ضلع شرقی کے بعض علاقوں میں پیپلز پارٹی کا اثر زیادہ ہے۔ ضلع کورنگی پہلے ضلع شرقی میں شامل تھا اور ضلع کورنگی کے دیہی علاقوں میں بھی پیپلز پارٹی اثر رکھتی ہے۔

شہر قائد کے موجودہ چھ اضلاع میں شہری علاقوں میں زیادہ آبادی پر اور دیہی علاقوں میں کم آبادی پر یونین کمیٹیاں بنائی گئی تھیں۔ اب سندھ حکومت اپنے ہی ضلع ملیر کو کاٹ کر ضلع گڈاپ اور ضلع جنوبی کو کاٹ کر ضلع لیاری بنانا چاہتی ہے۔ لیاری کو پیپلز پارٹی اپنا گڑھ اسی طرح قرار دیتی ہے جس طرح ایم کیو ایم ایف بی ایریا میں واقع نائن زیرو کو قرار دیتی تھی مگر 2018 کے الیکشن کے نتائج پر پی پی اور ایم کیو ایم اس وقت حیران رہ گئی تھیں جب ان کے دونوں علاقوں سے پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کامیاب قرار پائے تھے اور بلاول بھٹو زرداری کو لیاری کے اپنے گڑھ سے ہار جانے کی توقع نہیں تھی۔

پیپلزپارٹی کی وفاق میں گیلانی حکومت نے صدر آصف زرداری کے ایما پر لیاری کو خصوصی ترقیاتی پیکیج بھی دیا تھا اور لیاری کو ترقی بھی دلائی تھی جہاں کے ارکان اسمبلی پی ٹی آئی کے ہیں مگر وفاقی حکومت نے لیاری سمیت ان تمام علاقوں کی ترقی پرکوئی توجہ نہیں دی جہاں سے اس کے امیدواروں کو برتری دلائی گئی تھی اور ایم کیو ایم کو شکست ہوئی تھی مگر وہی ایم کیو ایم اپنی بقا کے لیے پی ٹی آئی کی وفاقی حکومت کی حمایت پر مجبور ہے اور مسلم لیگ (ق) اور بی این پی مینگل کی طرح وفاق کو آنکھیں بھی دکھا نہیں سکتی۔ محض وفاق کے آسروں پر کراچی کی ترقی اور فنڈز کے خواب دیکھ رہی ہے۔

کراچی کے لیے فنڈز وفاق اور سندھ حکومتوں کا اختیار ہے اور ایم کیو ایم کے میئر اور چار ڈی ایم سی چیئرمین دونوں بالائی حکومتوں کے محتاج ہیں اور اپنے علاقوں میں وہ کچھ نہیں کرسکے جو وہ ضلع نظام سے قبل کے 1979 کے بلدیاتی نظام میں کچھ کرکے دکھا چکے ہیں جب فاروق ستار چار اضلاع پر مشتمل بلدیہ عظمیٰ کے وسیم اختر سے زیادہ بااختیار میئر تھے۔

کراچی میں پی ٹی آئی کے 14 ارکان قومی اسمبلی، صدر مملکت اور دو وفاقی وزیر ضرور ہیں مگر ان کی موجودگی میں ڈیڑھ سال میں کراچی کو کچھ نہیں ملا۔ گورنر سندھ کا تعلق بھی کراچی سے ہے مگر عملی اختیارات وزیر اعلیٰ سندھ کے پاس ہیں۔

کراچی کی بظاہر عوامی نمایندگی پی ٹی آئی کے پاس اور ایم کیو ایم سے زیادہ ہے جس کے بعد پیپلز پارٹی ہے اور یہی تینوں پارٹیاں قومی اسمبلی میں کراچی کی نمایندگی کر رہی ہیں اور تینوں کا دعویٰ ہے کہ کراچی ہمارا ہے اور تینوں ہی کو توقع ہے کہ کراچی کا آیندہ میئر ہمارا ہوگا۔

عمران خان نے کراچی سے منتخب ہوکر نشست چھوڑ دی تھی اور وزیر اعظم بن کر انھوں نے کراچی کے لیے 162 ارب روپے کے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا تھا مگر ڈیڑھ سال میں وفاقی حکومت نے کراچی میں اپنا ایک بھی ترقیاتی منصوبہ مکمل نہیں کیا جب کہ سندھ حکومت کراچی میں اپنے سات ترقیاتی منصوبے مکمل کرچکی ہے۔ شہری حکومت کے میئر اپنے بے اختیار ہونے کا مسلسل رونا روتے آ رہے ہیں اور وزیر اعظم سے فنڈز دینے کا مطالبہ بھی ہو رہا ہے مگر آسروں اور وعدوں پر ڈیڑھ سال گزر گیا مگر اب تک ملا کچھ نہیں ہے۔

ایم کیو ایم کے رہنما خالد مقبول صدیقی کا کہنا ہے کہ کراچی سے متعلق کام وفاقی حکومت نے صرف کاغذوں کی حد تک کیے ہیں اور پی ٹی آئی کراچی میئر شپ کا خواب دیکھ رہی ہے۔کراچی صرف سیاسی جماعتوں کا نہیں بلکہ یہاں رہنے والے ہر شخص کا ہے اور کراچی والے جانتے ہیں کہ کس نے ان کے لیے کچھ کیا ہے اورکس پارٹی نے کراچی کو کیا دیا اور کیا لیا ہے۔ کراچی میں لسانی تقسیم بھی پیدا کی گئی اور پورے ملک کو پالنے والے شہر کے ساتھ جو سلوک ہو رہا ہے شہری اس کی سزا ضرور بلدیاتی الیکشن میں دے کر بتا دیں گے کہ کراچی کس کا ہے؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔