خسرو مغرور تھا ‘مر گیا

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  پير 2 مارچ 2020

ایران پر چار صدیوں تک ساسانی خاندان نے حکومت کی… اِس خاندان کی شہنشائیت کا مؤسس اول اردِشیر تھااور اقتدار کا یہ سلسلہ 226 عیسوی سے 628عیسوی تک اُس ساسانی حکمراں کی آخری سانسوں تک جاری رہا جسے تاریخ ’’خسرو پرویز‘‘ کے نام اور کئی برے حوالوں سے ہمیشہ یاد رکھے گی …

خسرو کا پوتا اور ہرمز کا چوتھا بیٹا ’’پرویزاول‘‘ ایک ایسا انتہائی مغرور، اکھڑ، اجڈ، سرکش، جھگڑالو، بدمزاج اور عیاش طبع بادشاہ تھاجس نے1500قبل مسیح سے رائج زرتشت کے پیروکاروں کے اُس نظریہ آتش پرستی کی بھی لہجۂ غرور میں یہ کہہ کر مخالفت کی کہ ’’ساسانیوں میں میری بڑھتی ہوئی مقبولیت، بازنطینیوں میں میرے خوف اور ہرا کلیس کی میرے ہاتھوںپے در پے شکست کے باعث بہتر ہے کہ زرتشت کے آتش کدے کو بجھادو کیونکہ اب ساسانیوں کو خسرو پرویز سے بہتر(نعوذ باللہ) خدا نہیں مل سکتا‘‘…

حالانکہ زرتشت نے لوگوں کو خدائے وحدہٗ لا شریک پر ایمان لانے کی دعوت دی مگر اُس کی وفات کے بعد مظاہر پرستی میں مبتلا آریوں نے قدیم بتوں اور آگ کی دوبارہ پوجا یہ کہہ کر شروع کردی تھی کہ ’’اھورا مزدا (خدا) نے زرتشت کو یہی پیغام دے کر دنیا میں بھیجا تھا‘‘۔۔۔ دورِ فاروقیؓ میںحضرت سعد بن ابی وقاصؓ کے ہاتھوں ایران کی فتح تک آگ کی تقدیس و تطہیر کے گیت بھی گائے جاتے رہے اور مشرکانہ آلودگی میں سانسیں بھی لی جاتی رہیں…

اِس سے قبل قبیلہ قریش کے بعض سرکردہ افراد نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دعوتِ حق کے خلاف مدد کے لیے حبشہ کے نجاشی اور ایران کے کسریٰ (خسرو پرویز) کو متعدد خطوط بھی اس مضمون کے ساتھ تحریر کیے کہ ’’مکے میں ’’ابھرتے ہوئے اِس نئے خطرے‘‘ سے نمٹنے کے لیے ہماری عسکری حمایت کی جائے تاکہ ہم اپنے بتوں کی حفاظت کرسکیں‘‘… نجاشی کا ملک تو مسلمانوں کے لیے پناہ گاہ بنا البتہ خسرو پرویز نے نبی آخر الزماں حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو گرفتار کرنے کے لیے دو ایرانی سپاہی بھیجے ضرور (جو درحقیقت قریشیوں کی درخواست کی بھد اڑانے کے سوا اور کچھ نہ تھے) اور جنھیں قریش نے مسلمانوں کے خوف کے پیش نظر خاطر مدارت کے بعد مال و اسباب دے کر رخصت کیا…

خسرو پرویز کے بارے میں تاریخ کے صفحات تقریباً چلاتے ہوئے یہ حقائق بیان کرتے ہیں کہ پے درپے فتوحات اور مسلسل کامیابیوں نے اِس کو خودپرستی کی ایسی لت میں مبتلا کر دیا تھا کہ وہ کسی کو خاطر ہی میں نا لاتا، خوشامدیوں کے گھیرے میں گھرے رہنے والے اِس جنگ جو بادشاہ کے سامنے کسی کی مجال نا تھی کہ اف بھی کردیتا، اُسے کتوں سے بلا کی محبت تھی اور جو خسرو پرویز کا قرب چاہتا وہ اِس امید پر کتیا سے شادی کرلیتا کہ خسرو پرویز خوش ہوگا جس کے باعث اُس کے دربار میں کئی وزرا کتیوں کے شوہر اور متعدد لونڈیاں کتوں کی زوجہ تھیں… اِسے یہودیوں سے محبت اور عیسائیوں سے بلا کی نفرت تھی، 614عیسوی میں اِس نے 26ہزار یہودیوں کو اپنی فوج میں شامل کرکے عیسائیت کے خلاف’’مقدس جنگ‘‘ کا اعلان کردیا چنانچہ پروفیسر آرتھر نے اپنی کتاب’’ایران بعہد ساسانیاں‘‘ میں لکھا ہے کہ ’’خسرو پرویز کے متحدہ لشکر نے یروشلم کو بے دردی سے لوٹا، 90ہزار عیسائیوں کو قتل کیا، ہزاروں عورتوں کی عصمت دری کی اور یروشلم کے بہت سے کلیسا جن میں ’’کلیسۃ القیامۃ‘‘ بھی شامل تھا اُسے جلا کے راکھ کا ڈھیر بنادیا اور وہ اصل صلیب جو مسیحوں کی مقدس ترین شے تھی اُسے بھی اپنے ساتھ اٹھا کر لے گیا‘‘…جنرل سرپرسی ہسٹری آف پرشیا میں لکھتا ہے کہ ’’یہ اتنا ظالم تھا کہ اُس نے عیسائی دنیا کے تمام گرجوں کو کھنڈر میں تبدیل کردیا اور اُن میں فنون لطیفہ کے جتنے نادر نمونے اور گرجوں کے خزانے میں جو بے پناہ دولت تھی، لوٹ کر لے گیا ‘‘۔

یہ گھمنڈی اور متکبر بادشاہ  یہودیوں سے بے حد متاثر تھا اور اُن کے ساتھ آغاز و برخاست اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتا تھااور اُن ہی کے اکسانے پر اُس نے عیسائیت کے خلاف 24سال تک مسلسل اعلانِ جنگ کیے رکھا… پرتعیش زندگی کے دل دادہ خسرو پرویز نے شان و شوکت، آسائش، مراعات، نفس پرستی، لذت خیزی، کرو فر، نمود و نمائش اور طمطراقیت کے ایسے ایسے شاہ کار تخلیق کیے تھے کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا کر رہ جاتیں… اُس کے دور میں خصوصی تقاریب یا تہواروں کے موقع پرایک ایسا جھنڈا قصر پہ لہرایا جاتا جس کے چاروں اطراف نہایت قیمتی پتھر اور بیش قیمت ہیرے جڑے ہوتے جب کہ اُس کی تیاری میں سونے کے تاروں سے کام لیا جاتا…اُس کے محل میں’’بہارستان کسریٰ‘‘ کے نام سے ایک ایسا سفید قالین بچھا ہوا تھا جسے اُس دور کے عجائبات میں سے ایک عجوبہ قرار دیا گیا تھا، سونے کے دھاگوں سے بنے اِس قالین کے عین وسط میں سوائے ہیروں اور قیمتی پتھروں کے کچھ اور نہ تھا جس پہ رقاصائیں رقص کرتیں اور اُن کے زخمی پیروں سے رسنے والے خون کو خسرو پرویز کے کتے چاٹتے۔۔۔اُس کے محل میں ہزاروں بیویاں، لونڈیاں، خادمائیں، مغنیائیں، رقاصائیں اور موسیقار موجود تھے جن کے بارے میں حمزہ اصفہانی نے اپنی کتاب ’’ملک الارض‘‘ میں تحریر کیا ہے کہ ’’خسرو پرویز کی تین ہزار بیویاں اور بارہ ہزار کنیزیں تھیں، جن میں سے ہر کنیز بہترین رقاصہ اور گلوکارہ تھی جب کہ اُس کے محافظین کی تعداد چھ ہزار تھی اور آٹھ ہزار پانچ سو گھوڑے ہر وقت گھڑ سواری کے لیے تیار رہتے کہ نا جانے بادشاہ کا کس گھوڑے پر سوار ہونے کو جی چاہے اِس کے علاوہ 960ہاتھی،  12000ہزار خچر اور ایک ہزار اونٹ بھی سازوسامان لادنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے۔

طاقت اور مقبولیت کے اندھے نشے میں چور خسرو پر ویز کو ایک دن بحرین کے فرماں رواں کے ذریعے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نامۂ مبارک موصول ہوا جو اُسے حضرت عبداللہ بن حذیفہ شامیؓ نے پہنچایا ،کہ ’’اللہ کے نام سے جو بڑا مہربان اور نہایت رحم والاہے…محمد رسول اللہ کی جانب سے فارس کے بادشاہ خسرو پرویز کے نام!اللہ کی رحمت ہے اُن پر جو اللہ اور اُس کے رسول پر ایمان لائے اور حق کو قبول کیا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، وہ وحدہٗ لاشریک ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اُس کے بندے اور رسول ہیں، میں تم تک اللہ کا یہ پیغام پہنچاتا ہوں کہ اُس نے مجھے تمام انسانیت کے لیے رسول بنا کر بھیجا ہے کہ تاکہ میں زندوں کو خبردار کروں اور گمراہوں کو راہ پر لے آؤں، تم اسلام قبول کرلو تاکہ محفوظ ہوجاؤ، اگر تم نے اس دعوت کو مسترد کیا تو ماگیوں (ایران کا ایک مخصوص قبیلہ جسے مذہبی اجارہ داری حاصل تھی)کے تمام گناہ بھی تمہاری گردن پر ہوں گے‘‘۔

خسرو پرویز خط پڑھتے ہی آگ بگولہ ہوگیا اور نامۂ مبارک کو یہ کہ کر بے ادبی سے پھاڑ دیا ’’کہ (معاذ اللہ) اِسے (محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو) میرے نام سے پہلے اپنا نام لکھنے کی جرأت کیسے ہوئی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ روداد سن کر فرمایا ’’اللہ اِس کی حکومت کے بھی ٹکڑے کردے گا‘‘ اور پھر یوں ہی ہوا…ایک طرف رومیوں کے ہاتھوں شکست کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا اور دوسری جانب اُس کے بیٹے پرویز دوئم (شیرویہ) نے باپ کو قتل کر کے اُس کا غرور خاک میں ملادیا اور یوں پرویز دوئم کے ہاتھوں پرویز اول کا 35سالہ عہد اختتام کو پہنچا۔ علم الاعداد کی رو سے 35کا مفرد8 ہے اور 8کا ہندسہ تباہی، بربادی اور خاتمے کی نوید ہے (واللہ اعلم)…!!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔