- آئی ایم ایف بورڈ کا شیڈول جاری، پاکستان کا اقتصادی جائزہ شامل نہیں
- رشتہ سے انکار پر تیزاب پھینک کر قتل کرنے کے ملزم کو عمر قید کی سزا
- کراچی؛ دو بچے تالاب میں ڈوب کر جاں بحق
- ججوں کے خط کا معاملہ، اسلام آباد ہائیکورٹ نے تمام ججوں سے تجاویز طلب کرلیں
- خیبرپختونخوا میں بارشوں سے 36 افراد جاں بحق، 46 زخمی ہوئے، پی ڈی ایم اے
- انٹربینک میں ڈالر کی قدر میں تنزلی، اوپن مارکیٹ میں معمولی اضافہ
- سونے کے نرخ بڑھنے کا سلسلہ جاری، بدستور بلند ترین سطح پر
- گداگروں کے گروپوں کے درمیان حد بندی کا تنازع؛ بھیکاری عدالت پہنچ گئے
- سائنس دانوں کی سائبورگ کاکروچ کی آزمائش
- ٹائپ 2 ذیا بیطس مختلف قسم کے سرطان کے ساتھ جینیاتی تعلق رکھتی ہے، تحقیق
- وزیراعظم کا اماراتی صدر سے رابطہ، موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے مشترکہ اقدامات پر زور
- پارلیمنٹ کی مسجد سے جوتے چوری کا معاملہ؛ اسپیکر قومی اسمبلی نے نوٹس لے لیا
- گذشتہ ہفتے 22 اشیا کی قیمتیں بڑھ گئیں، ادارہ شماریات
- محکمہ موسمیات کی کراچی میں اگلے تین روز موسم گرم و مرطوب رہنے کی پیش گوئی
- بھارت؛ انسٹاگرام ریل بنانے کی خطرناک کوشش نے 21 سالہ نوجوان کی جان لے لی
- قطر کے ایئرپورٹ نے ایک بار پھر دنیا کے بہترین ایئرپورٹ کا ایوارڈ جیت لیا
- اسرائیلی بمباری میں 6 ہزار ماؤں سمیت 10 ہزار خواتین ہلاک ہوچکی ہیں، اقوام متحدہ
- 14 دن کے اندر کے پی اسمبلی اجلاس بلانے اور نومنتخب ممبران سے حلف لینے کا حکم
- ایل ڈی اے نے 25 ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کے پرمٹ اور مجوزہ لے آﺅٹ پلان منسوخ کردیے
- امریکا نے اقوام متحدہ میں فلسطین کی مستقل رکنیت کی قرارداد ویٹو کردی
تمہاری اکڑ پر ہم پکڑ دیکھیں گے!!
نظریات سے اختلاف معاشرے میں سانس لیتے کسی بھی زندہ وجود کے احساس کا نام ہے، سماجی رویے بسا اوقات ارتقا کو کو پنپنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور کبھی اتفاق رائے کی پیدائش کا سبب بن جاتے ہیں لیکن جب مادر پدر آزاد بے ہودہ گوئی کا زور بات منوانے کا خطرناک ذریعہ بن جائے تو نظریہ تفہیم کے بجائے تقسیم کا ایسا بے ہنگم نقار خانہ بن جاتا ہے جہاں دلیل کے بجائے ’’ذلیل‘‘ جیسے ابتدائی حرف سے گفتگو کا آغاز ہوتا ہے۔
مجھے نہیں معلوم نا ہی میرے ناقص مطالعے نے مجھے تعلیمات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کسی کو اپنا مطمع نظر سمجھانے کے لیے معاذ اللہ اس کی ماں، بہن، بیٹی اور اہلیہ کو پہلے تبروں کے نشتر سے قتل کے مناظر دکھائے ہوں اور پھر دشنام طرازی سے لکھی گئی سند کو جبراً قبول کرنے کا عندیہ دیا ہو،میں تو اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عاشق ہوں جنھوں نے مسجد میں نجاست کرنے والے کو بھی اپنے پاس بٹھا کر سمجھایا، میں نے تو اوراقِ سیرت میں زنا کی اجازت طلب کرنے والی انتہائی نازیبا فرمائش پر ایک اعربی کو پھول جھڑتے شفتان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امثال کی مالا پہنے ہوئے تائب بنے قدمین پاک چومتے ہوئے پایا ہے، میں نے تو چشم تصور میں اسلام لانے سے قبل حضرت ہندہ کا کلیجہ چبانا بھی دیکھا ہے اور سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاف کیا جانا بھی دیکھا ہے۔
اغیار و منافقین کے بہکاوؤں میں آکر تعلیمات اسلامی سے روگردانی کرنے والوں کو صحابہ کرام کے ناصحانہ طرز تکلم سے پلٹتے ہوئے ایک بار نہیں کئی بار دیکھا ہے جب کہ اس وقت نرمی نہ کی جاتی تو مضائقہ بھی نہ تھا کیونکہ قدم قدم پر ستاروں کی رہنمائی کے باوجود بھٹکنے والے غافلوں کو سہارا دینا اتنا ضروری بھی نہ تھا لیکن جاں نثاران مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دائرہ اسلام میں لانے والوں میں سے تھے، خارج کرنے والوں میں سے نہیں۔
مگر اب اک عجب طرفہ تماشا دیکھتا ہوں، قرآن و اسلام کا نام لینے سے مغلظات سے درگت بنا کر داد سمیٹی جاتی ہے اور اسے اسلامی طریقے کا نام دے کر علیل نکتہ نگاہ کو ہشاش بشاش فکر پر قبضہ جمانے کی کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے…میں کہتا ہوں آپ کو اختلاف ہے تو قائل کیجیے، کوئی بضد ہے تو کنارہ کشی اختیار کر لیجیے، میرا دین ابھی اتنا کمزور نہیں کہ اسے بچانے کے لیے آپ تحقیر و تضحیک کی چنگھاڑتی آوازوں سے گالیاں دینے والے نامعلوم مزدوروں کو بلا کر تقسیم کی خندقیں کھود ڈالیں۔ عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تو مَردوں کو نگاہ نیچی رکھنے کے ساتھ ساتھ عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنے کی نصیحت و وصیت بھی کی گئی ہے۔کوئی اپنی مرضی سے مرد پیدا ہوتا ہے نہ عورت۔اللہ جسے چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے دونوں دیتا ہے…جب دینے والا عورت سے آدابِ گفتگو کے ابواب اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رقم کروا رہا ہے تو عطائیں لینے والے میں اکڑ کیسی؟
اسلامی قوانین کے نفاذ کا شوق ہے تو پہلے 53سالہ حیات مبارکہ میں اخلاقیات کے پہلوؤں کا مطالعہ کرو۔ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل و خصائل بتانے والی بھی ایک عورت ام معبد تھیں، حرا کی بلندیوں پر ستو اور روٹی لے کر جانے والی ملکہ عرب اور میری ماں سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا بھی ایک خاتون تھیں، ثور میں کھانا پہنچانے والی سیدنا ابوبکر کی صاحبزادی اسما بنت ابوبکر بھی ایک بامثال دختر تھیں اور سنگسار کی جانے والی امرات غامدیہ بھی ایک عورت تھیں جنھیں سنگسار کرتے ہوئے جب سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ الفاظ ادا فرمائے تو سیدی نے ارشاد فرمایا ’’خالد اسے کچھ مت کہو اس کی توبہ سارے مدینے کی توبہ ہے‘‘سمجھانے کے قرینے اور سلیقے سید الانبیا اور ان کے صحابہ سے جانو۔زبان غلیظ کرنے سے اپنے اعمال کا وزن برائیوں سے بھاری کرنے کے بجائے احادیث پاک کی ضوفشانیوں میں اپنے گم شدہ تکلم کو تلاش کرو۔۔۔۔پڑھو صدیق اکبر کے فیصلے، جانو فاروق اعظم کے خطبے، سمجھو ذوالنورین کی حکمتیں اور سیکھو مولا علی سے حکمتیں۔
ان کے در سے تو سب کچھ ملے گا مگر
اپنا کردار بھی دیکھنا چاہیے!!
گفتگو میں بے احتیاطی مکالمے کو کچل دیتی ہے۔ آپ کے الفاظ آپ کا عکس ہوتے ہیں۔بعد میں وضاحتیں دینے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ کھجور کی گٹھلی پر باریک سا جھلی نما ایک چھلکا ہوتا ہے جسے قطمیر کہتے ہیں، اللہ فرماتا ہے ’’انسان اس کا بھی مالک نہیں‘‘ پھر اکڑ کیسی!! دے لو گالیاں ہم بھی دیکھیں روز حساب پکڑ ایسی!!! ان شا اللہ!!
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔