تمہاری اکڑ پر ہم پکڑ دیکھیں گے!!

ڈاکٹر عامر لیاقت حسین  جمعـء 6 مارچ 2020
نظریات سے اختلاف معاشرے میں سانس لیتے کسی بھی زندہ وجود کے احساس کا نام ہے

نظریات سے اختلاف معاشرے میں سانس لیتے کسی بھی زندہ وجود کے احساس کا نام ہے

نظریات سے اختلاف معاشرے میں سانس لیتے کسی بھی زندہ وجود کے احساس کا نام ہے، سماجی رویے بسا اوقات ارتقا کو کو پنپنے کا موقع فراہم کرتے ہیں اور کبھی اتفاق رائے کی پیدائش کا سبب بن جاتے ہیں لیکن جب مادر پدر آزاد بے ہودہ گوئی کا زور بات منوانے کا خطرناک ذریعہ بن جائے تو نظریہ تفہیم کے بجائے تقسیم کا ایسا بے ہنگم نقار خانہ بن جاتا ہے جہاں دلیل کے بجائے ’’ذلیل‘‘ جیسے ابتدائی حرف سے گفتگو کا آغاز ہوتا ہے۔

مجھے نہیں معلوم نا ہی میرے ناقص مطالعے نے مجھے تعلیمات مصطفوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں کسی کو اپنا مطمع نظر سمجھانے کے لیے معاذ اللہ اس کی ماں، بہن، بیٹی اور اہلیہ کو پہلے تبروں کے نشتر سے قتل کے مناظر دکھائے ہوں اور پھر دشنام طرازی سے لکھی گئی سند کو جبراً قبول کرنے کا عندیہ دیا ہو،میں تو اس نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عاشق ہوں جنھوں نے مسجد میں نجاست کرنے والے کو بھی اپنے پاس بٹھا کر سمجھایا، میں نے تو اوراقِ سیرت میں زنا کی اجازت طلب کرنے والی انتہائی نازیبا فرمائش پر ایک اعربی کو پھول جھڑتے شفتان مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے امثال کی مالا پہنے ہوئے تائب بنے قدمین پاک چومتے ہوئے پایا ہے، میں نے تو چشم تصور میں اسلام لانے سے قبل حضرت ہندہ کا کلیجہ چبانا بھی دیکھا ہے اور سرکار صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا معاف کیا جانا بھی دیکھا ہے۔

اغیار و منافقین کے بہکاوؤں میں آکر تعلیمات اسلامی سے روگردانی کرنے والوں کو صحابہ کرام کے ناصحانہ طرز تکلم سے پلٹتے ہوئے ایک بار نہیں کئی بار دیکھا ہے جب کہ اس وقت نرمی نہ کی جاتی تو مضائقہ بھی نہ تھا کیونکہ قدم قدم پر ستاروں کی رہنمائی کے باوجود بھٹکنے والے غافلوں کو سہارا دینا اتنا ضروری بھی نہ تھا لیکن جاں نثاران مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دائرہ اسلام میں لانے والوں میں سے تھے، خارج کرنے والوں میں سے نہیں۔

مگر اب اک عجب طرفہ تماشا دیکھتا ہوں، قرآن و اسلام کا نام لینے سے مغلظات سے درگت بنا کر داد سمیٹی جاتی ہے اور اسے اسلامی طریقے کا نام دے کر علیل نکتہ نگاہ کو ہشاش بشاش فکر پر قبضہ جمانے کی کھلی چھوٹ دے دی جاتی ہے…میں کہتا ہوں آپ کو اختلاف ہے تو قائل کیجیے، کوئی بضد ہے تو کنارہ کشی اختیار کر لیجیے، میرا دین ابھی اتنا کمزور نہیں کہ اسے بچانے کے لیے آپ تحقیر و تضحیک کی چنگھاڑتی آوازوں سے گالیاں دینے والے نامعلوم مزدوروں کو بلا کر تقسیم کی خندقیں کھود ڈالیں۔ عورتوں کو نگاہیں نیچی رکھنے کا حکم دیا گیا ہے تو مَردوں کو نگاہ نیچی رکھنے کے ساتھ ساتھ عورتوں کے معاملے میں اللہ سے ڈرنے کی نصیحت و وصیت بھی کی گئی ہے۔کوئی اپنی مرضی سے مرد پیدا ہوتا ہے نہ عورت۔اللہ جسے چاہتا ہے لڑکا دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے دونوں دیتا ہے…جب دینے والا عورت سے آدابِ گفتگو کے ابواب اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے رقم کروا رہا ہے تو عطائیں لینے والے میں اکڑ کیسی؟

اسلامی قوانین کے نفاذ کا شوق ہے تو پہلے 53سالہ حیات مبارکہ میں اخلاقیات کے پہلوؤں کا مطالعہ کرو۔ میرے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے شمائل و خصائل بتانے والی بھی ایک عورت ام معبد تھیں، حرا کی بلندیوں پر ستو اور روٹی لے کر جانے والی ملکہ عرب اور میری ماں سیدہ خدیجۃ الکبریٰ رضی اللہ عنہا بھی ایک خاتون تھیں، ثور میں کھانا پہنچانے والی سیدنا ابوبکر کی صاحبزادی اسما بنت ابوبکر بھی ایک بامثال دختر تھیں اور سنگسار کی جانے والی امرات غامدیہ بھی ایک عورت تھیں جنھیں سنگسار کرتے ہوئے جب سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کچھ الفاظ ادا فرمائے تو سیدی نے ارشاد فرمایا ’’خالد اسے کچھ مت کہو اس کی توبہ سارے مدینے کی توبہ ہے‘‘سمجھانے کے قرینے اور سلیقے سید الانبیا اور ان کے صحابہ سے جانو۔زبان غلیظ کرنے سے اپنے اعمال کا وزن برائیوں سے بھاری کرنے کے بجائے احادیث پاک کی ضوفشانیوں میں اپنے گم شدہ تکلم کو تلاش کرو۔۔۔۔پڑھو صدیق اکبر کے فیصلے، جانو فاروق اعظم کے خطبے، سمجھو ذوالنورین کی حکمتیں اور سیکھو مولا علی سے حکمتیں۔

ان کے در سے تو سب کچھ ملے گا مگر

اپنا کردار بھی دیکھنا چاہیے!!

گفتگو میں بے احتیاطی مکالمے کو کچل دیتی ہے۔ آپ کے الفاظ آپ کا عکس ہوتے ہیں۔بعد میں وضاحتیں دینے سے کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ کھجور کی گٹھلی پر باریک سا جھلی نما ایک چھلکا ہوتا ہے جسے قطمیر کہتے ہیں، اللہ فرماتا ہے ’’انسان اس کا بھی مالک نہیں‘‘ پھر اکڑ کیسی!! دے لو گالیاں ہم بھی دیکھیں روز حساب پکڑ ایسی!!! ان شا اللہ!!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔