8مارچ ، عورت مارچ اور پروفیسر وارث میر

تنویر قیصر شاہد  جمعـء 6 مارچ 2020
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

مارچ کی آٹھ تاریخ کو دُنیا بھر میں ’’خواتین کا عالمی‘‘ دن منایا جاتا ہے۔ عام تاثر یہ ہے کہ معاشرے میں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق حاصل نہیں ہیں، اس لیے کچھ عرصے سے خواتین مارچ کی آٹھ تاریخ کو اپنے حقوق کے تحفظ کے لیے اپنے اپنے پرچم اُٹھا رہی ہیں ۔ جلسے کرتی ہیں، جلوس نکالتی ہیں اور کانفرنسوں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔

پچھلے دوسال سے ہمارے ہاں بھی مارچ کی آٹھ تاریخ کو ہماری سب تو نہیں، کچھ خواتین جلسے جلوس کا اہتمام کر رہی ہیں ۔ اسے ’’عورت مارچ‘‘ کا عنوان دیا گیا ہے۔ گذشتہ برس ’’عورت مارچ‘‘ کے دوران بعض ایسے نعرے لگائے اور پلے کارڈز لہرائے گئے جن پر بعض اطراف سے سخت ردِ عمل آیا۔ ردِ عمل دینے والوں کا دعویٰ تھا کہ یہ  نعرے ہماری پاکستانی معاشرت، مروجہ اخلاقیات و روایات سے مطابقت نہیں رکھتے۔ کچھ الزامات بھی لگائے گئے تھے لیکن ثبوت کوئی نہیں ملا۔اِس بار آٹھ مارچ قریب آنے لگا تو شائد اِسی بنیاد پر لاہور میں ایک وکیل صاحب نے اعلیٰ عدالت کے دروازے پر دستک دی، اِس گزارش کے ساتھ کہ ’’عورت مارچ‘‘ نہ ہونے دیا جائے ۔

لاہور ہائیکورٹ نے اس ضمن میں نہائت شاندار فیصلہ سنایا ہے ۔ خبر آئی ہے کہ’’ لاہور ہائیکورٹ نے ’’عورت مارچ‘‘کے حوالے سے دائر درخواست نمٹاتے ہُوئے قرار دیا ہے کہ آئین و قانون کے مطابق ’’عورت مارچ‘‘ کو روکا نہیں جا سکتا ، ضلعی انتظامیہ عورت مارچ کی اجازت سے متعلق درخواست پر قانون کے مطابق فیصلہ کرے ، منتظمین اور شرکاء آئین و قانون کے اندر رہ کر مارچ کریں ، نفرت انگیز تقاریر اور سلوگن نہیں ہونے چاہئیں۔‘‘ اس مستحسن فیصلے کے بعد ’’عورت مارچ‘‘ کرنے والوں کو بھی جملہ ضوابط کی پابندی کرنی چاہیے ۔ توقع کی جانی چاہیے کہ پچھلے سال ’’عورت مارچ‘‘کے انعقاد پر بعض اطراف سے جس طرح کے الزامات عائد کیے گئے تھے ،ان سے گریز کیا جائے گا۔ پاکستان بار کونسل نے بھی ’’عورت مارچ‘‘ کی حمائت کر دی ہے۔

افسوس کی بات مگریہ ہے کہ اس بار ابھی ’’عورت مارچ‘‘کا انعقاد بھی نہیں ہُوا تھا کہ بعض گروہوںکی طرف سے ’’عورت مارچ‘‘ پر تنقید و تنقیص کرتے ہُوئے شائستہ الفاظ کا انتخاب نہیں کیا گیا۔ نام کیا لینا لیکن جس طرف سے بھی یہ الفاظ استعمال کیے گئے ہیں ، عوام انھیں خوب جانتے پہچانتے ہیں ۔ ایک جماعت کے سربراہ نے تو ’’عورت مارچ‘‘ کرنے والوں کو کھلی دھمکی بھی دی ہے ۔ معاشرے کے سدھار کے نام پر ’’عورت مارچ‘‘ پر تنقید کرنے والی یہ شخصیات اگر خود بھی مہذب انداز اختیار کرنے سے دانستہ یا نادانستہ گریز کرتی ہیں تو انھیں سُننے والے کیا سبق سیکھیں گے ؟ مقتدر پی ٹی آئی نے بھی اس اسلوب کو پسند نہیں کیا ہے ۔

گزشتہ روز حکومت کی ایک نمایاں شخصیت اور وفاقی وزیر انسانی حقوق ، محترمہ ڈاکٹر شیریں مزاری ، نے ایک ٹویٹ کے ذریعے  ’’عورت مارچ ‘‘پر تنقید کرنے والوں کو ترنت جواب دیتے ہوئے لکھا تھا:’’پاکستانی معاشرہ دیگر افراد کی طرح خواتین کو بھی پُرامن طریقے سے اپنے حقوق کے لیے مطالبات کرنے کا حق دیتا ہے جو پہلے ہی قانون نے انھیں دے رکھے ہیں۔ ہماری حکومت خواتین کو خود مختار بنانے کے لیے پرپُرعزم ہے جب کہ حکومت نے پہلے ہی لڑکیوںاور خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے پروگرامات اور اصلاحات متعارف کرا رکھی ہیں۔‘‘ شیریں مزاری صاحبہ نے اُن سیاسی رہنماؤں کی بھی سختی سے مذمت کی ہے جو 8مارچ ’’ عورت مارچ‘‘ کی مخالفت میں بیانات کے گولے داغ رہے ہیں۔

خواتین کے حقوق کی علمبردار،  مشہور خاتون وکیل اور ڈیجیٹل رائٹس کی رہنما، محترمہ نگہت داد ، نے بھی ’’عورت مارچ‘‘ کے ہر صورت میں انعقاد کا پرچم اُٹھا رکھا ہے ۔ ’’عورت مارچ‘‘ کے حق میں امریکا میں ہماری سابق سفیر اور پیپلز پارٹی کی معروف سینیٹر، محترمہ شیری رحمٰن، بھی خم ٹھونک کر میدان میں آ ئی ہیں ۔

اس سلسلے میں شیری رحمن صاحبہ نے سینیٹ کے فلور پر جس غیر مبہم اور جرأت مندانہ اسلوب میں خطاب کیا ہے ، حیرت انگیز ہے ۔ اگرچہ اُن کے خطاب کے دوران پچھلی نشستوں پر براجمان کچھ مخصوص جماعتوں کے سینیٹر صاحبان بار بار مداخلت کرتے ہُوئے اُن کی تقریر کو ڈسٹرب کرنے کی کوشش کرتے رہے لیکن شیری رحمن نے ’’عورت مارچ‘‘ کے حق میں اپنی بات مکمل کرکے چھوڑی ۔ انھوں نے اپنے خطاب میں کہا :’’پاکستان جیسے اسلامی جمہوری ملک میں اپنے حقوق کے لیے گھر سے نکلنے والی خواتین کو ’آوارہ گردی کرنے والی‘ خواتین کہنا غلط عمل ہے۔ پاکستان ایسے جمہوری ملک میں شہید بے نظیر بھٹو ایسی خواتین بھی  جمہوریت کی طاقت کے لیے سڑکوں پر نکلیں اوراپنا حق لیا۔

اگر کوئی مرد اپنے حقوق کے لیے احتجاج کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلتا ہے تو اسے کچھ نہیں کہا جاتا لیکن جب عورتیں نکلتی ہیں تو انھیں قابلِ گرفت الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے ۔‘‘جہاں تک بات شرافت کی ہے تو ہمیں اُن لوگوں سے شرافت سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے جنھوں نے ’عورت مارچ‘ کے انعقاد کے خلاف عدالت میں درخواست دی ہے ۔ہم اپنے والدین سے شرافت سیکھ کر آتے ہیں۔ ہمیں اور نوجوان نسل کو اپنی سماجی اخلاقیات کا خوب پتا ہے۔یہ ان لوگوں کی مخصوص سوچ ہے جو ہر چیز کو’ فحاشی‘ سمجھتے ہیں۔ یہ بچے ہیں ان کو اپنی بات کرنے کی اجازت ہونی چاہیے۔یہ خواتین اس ملک کا اثاثہ ہیں۔ آپ کیا چاہتے ہیں کہ یہ بچے اپنے حق میں آواز نہ اٹھا ئیں ؟‘‘۔

بلا شبہ ہماری خواتین کو بھی ، مردوں کی طرح ، اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے کی آزادی ہونی چاہیے ۔ سچ تو یہ ہے کہ تمام تر دعووں کے باوصف ہماری خواتین کو وہ بنیادی حقوق بھی حاصل نہیں ہیں جن حقوق کی یقین دہانی ہمارے مذہب اور آئین نے دے رکھی ہے۔ رِیت ، روائت ہی کو بالا دستی حاصل ہے ۔ مقامِ افسوس ہے کہ عورتوں کے حق میں ہمارے میڈیا میں دانشوروں اور لکھاریوں کی طرف سے کوئی اکثریتی اور توانا آواز نہیں اُٹھ رہی ۔ایسے میں مجھے پروفیسر وارث میر مرحوم شدت سے یاد آ رہے ہیں ۔

’’عورت مارچ‘‘ کے انعقاد کے ان ایام میں وارث میر صاحب مرحوم کی وہ تمام توانا اور مدلل تحریں ایک ایک کرکے پھر سے ذہن کے اُفق پر اُبھر رہی ہیں جو انھوں نے آج سے تین چار دہائیاں قبل لکھی تھیں اور اپنے پڑھنے والوں کونئی آگہی اور روشنی سے رُوشناس کروایا تھا۔ پاکستان ہی کی نہیں بلکہ پورے عالمِ اسلام کی جملہ خواتین کے جائز حقوق کے تحفظ کے لیے پروفیسر وارث میر کی تحریروں نے ایک انقلاب آفریں کردار ادا کیا ۔’’عورت مارچ‘‘ کے تازہ موقع پر وارث میر کی ان تحریروں کے ایک مجموعے ’’ کیا عورت آدھی ہے ؟‘‘ کو پھر سے پڑھنے کی بے حد ضرورت ہے ۔ذہنوں کو نئی جلا بخشنے والی اس تصنیف میں21 معرکہ خیزمضامین شامل ہیں۔ خاص طور پر ’’ عورت مارچ‘‘ میں شرکت کنندگان کو وارث میر مرحوم کی یہ کتاب ضرور پڑھنی چاہیے ،تاکہ اُن کے پاس مارچ کے لیے کوئی منظم اور قوی دلیل بھی ہو۔ افسوس آج ہم میں کوئی وارث میر نہیں ہے !!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔