کراچی میں عمارت گرنے سے 16 لوگ مرے، لیکن سب حکام آرام سے سوئے، چیف جسٹس

ویب ڈیسک  جمعـء 6 مارچ 2020
کراچی میں سب ادارے ہی چور ہیں کوئی کام نہیں کر رہا، چیف جسٹس

کراچی میں سب ادارے ہی چور ہیں کوئی کام نہیں کر رہا، چیف جسٹس

 کراچی: چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے ریمارکس دیے ہیں کہ کراچی میں عمارت گرنے سے 16 لوگ مرے، لیکن سب حکام آرام سے سوئے۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے لارجر بنچ نے کراچی رجسٹری میں سرکلر ریلوے کی بحالی اور انسداد تجاوزات سمیت اہم مقدمات کی سماعت کی۔

صوبائی وزیر سعید غنی، تحریک انصاف کے رہنما فردوس شمیم نقوی، سیکریٹری بلدیات روشن شیخ، میئر کراچی وسیم اختر، اٹارنی جنرل خالد جاوید خان، ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین عدالت میں پیش ہوئے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کل بلڈنگ گر گئی رات کو آپ سب سکون سے سوئے ہیں ، کس کے کان پر جوں رینگی؟، نیوزی لینڈ کی وزیراعظم ایک ہفتہ تک نہیں سوئی تھی۔

ایڈوکیٹ جنرل نے کہا کہ ہم نے کرپٹ افسران کے خلاف کارروائی کی ہے۔

دکھاوے کی کارروائی 

جسٹس سجاد علی شاہ نے کہا کہ یہ سب دکھاوے کیلئے کارروائی کی گئی ہے، چھوٹے چھوٹے پلاٹس پر اونچی عمارتیں بنا دیتے ہیں، ہم نے کہا تھا غیر قانونی تعمیرات کا مکمل ریکارڈ دیں اس کا کیا ہوا ؟

ایڈوکیٹ جنرل نے بتایا کہ وہ رپورٹ تیار کرلی ہے۔ چیف جسٹس نے پوچھا کہ بتائیں، گرین لائن کب شروع کی۔ حکام نے جواب دیا کہ 3 سال پہلے شروع کی۔

پورے ایشیا کے منصوبے مکمل ہوجائیں

چیف جسٹس نے کہا کہ 3 سال میں تو پورے ایشیا کے منصوبے مکمل ہو جائیں، یہ مہینوں کا کام ہے، کیا رکاوٹ ہے جو کام وقت پر پورا نہیں ہوتا۔ حکام نے کہا کہ اگلے سال گرین لائن مکمل ہو جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: کراچی میں رہائشی عمارت منہدم؛ جاں بحق افراد کی تعداد 16 ہوگئی

ہر جگہ دھول مٹی، سب ادارے ہی چور، کوئی کام نہیں کر رہا

چیف جسٹس نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگلے سال کیوں، اس سال کیوں نہیں، ٹھیکیدار کو پیسہ اس وقت دیتے ہیں جب آپ کا کمیشن ملتا ہے، ابھی جائیں ناظم آباد کوئی کام نہیں ہورہا، لوگوں کو خواب دکھاتے ہیں، سب جگہ دھول مٹی ہے ، یہ پورا گینگ کام کر رہے ہیں، صرف کاغذات میں کام ہورہا ہے، شہید ملت روڈ، کشمیر روڈ، ناظم آباد کا کیا حال کر دیا، یونیورسٹی روڈ تباہ کر دیا، سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (ایس بی سی اے)، کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن (کے ایم سی)، واٹر بورڈ کس کس کی بات کریں، سب ادارے ہی چور ہیں کوئی کام نہیں کر رہے۔

چیف جسٹس نے رضویہ کے علاقے میں عمارت منہدم ہونے کے واقعے کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ کل بلڈنگ گری 16 لوگ مرے، لیکن سب آرام سے سوئے، کسی پر کوئی جوں نہیں رینگی، نیوزی لینڈ میں واقعہ ہوا تو وزیراعظم تک کو صدمہ تھا، کل جو لوگ مرے، ان کا کون ذمہ دار ہے، کسی کو احساس بھی ہے لوگ مر رہے ہیں۔
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل کو سرکلر ریلوے پر پیش رفت سے آگاہ کرنے کا حکم دیا۔

کراچی ماس ٹرانزٹ کے نقشے پر عدم اعتماد

ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین نے بتایا کہ سرکلر ریلوے میں پیش رفت ہوئی ہے، کراچی ماس ٹرانزٹ پلان ترتیب دیا گیا ہے، گرین لائن، اورنج لائن مکمل کی جا چکی ہیں۔ چیف جسٹس نے کراچی ماس ٹرانزٹ کے نقشے پر عدم اعتماد کرتے ہوئے کہا کہ اس نقشے میں تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔

عدالت میں گرین بیلٹ پر خواجہ غریب نواز دسترخوان کا معاملہ آیا تو عدالت نے گرین بیلٹ پر قائم عمارت کو گرانے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ ڈی جی صاحب، اس قبضے کو ختم کریں، بچوں کے کھیلنے کی جگہ پر رفاعی کام نہیں بھی ہوگا، کسی رفاعی پلاٹ پر کوئی قبضے برقرار نہیں رہے گا۔

درخواست گزار نے کہا کہ جس نے مجھے پلاٹ بیچا اس کا کیا ہوگا۔؟۔  چیف جسٹس نے کہا کہ جس نے آپ کو پلاٹ فروخت کیا جائیں اسے پکڑیں۔

سرکلر ریلوے بحال کرنے کا حکم

چیف جسٹس گلزار احمد نے 1995 کی سرکلر ریلوے بحال کرنے اور اس کی راہ میں آنے والی تمام رکاوٹیں ختم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ گرین یا اورنج  لائن اور دیگر منصوبوں کے لیے انڈر پاسز اور فلائی اوورز بنائے جائیں، سرکلرے ریلوے کی بحالی کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں۔

گلشن اقبال کی رہائشی خاتون سپریم کورٹ میں پیش ہوئیں اور کہا کہ ایم کیو ایم چائنہ کٹنگ میں ملوث ہے، اس کے کونسلر سے لے کر اوپر تک سب دھمکیاں دیتے ہیں، شہر کے قبرستان، نالے پر ایم کیو ایم نے چائنہ کٹنگ کی ہوئی ہے، پولیس بھی انکے خلاف کوئی کارروائی نہیں کرتی، آواز اٹھانے پر مجھے دھمکیاں دی جاتی ہیں،میری جان کو خطرہ ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے آج کل تو پورے کراچی میں سب کی جان کو ہی خطرہ ہے، ہم نے ڈپٹی کمشنر کو حکم دے دیا ہے وہ آپکا مسئلہ حل کردینگے۔ سپریم کورٹ نے گلشن اقبال کے برساتی نالے پر قبضے سے متعلق ڈپٹی کمشنر شرقی کو خاتون کا مسئلہ حل کرنے کا حکم دیدیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔