نیا رنگ روپ اختیار کرتی بھارتی فوج

سید عاصم محمود  اتوار 8 مارچ 2020
انڈین آرمی کے غیر سیاسی سے‘ سیاسی کردار کی طرف سفر کا احوال

انڈین آرمی کے غیر سیاسی سے‘ سیاسی کردار کی طرف سفر کا احوال

نئی دہلی میں حالیہ خوفناک مسلم کش فسادات نے سبھی پر واضح کر دیا کہ بھارت میں نریندر مودی ‘ امیت شاہ اور سنگھ پریوار کے دیگر لیڈر جنگجوئی اور طاقت سے اپنے مفادات پورے کرنا چاہتے ہیں۔انھوں نے عام آدمی سے لے کر اپنی افواج تک میں جنگجوئی کے وائرس پھیلا دئیے۔مودی سرکار بہ عجلت بھارتی افواج کو جدید اسلحے سے لیس کر رہی ہے تاکہ پڑوسی ممالک میں اسی طرح جنگوں کی آگ بھڑکا کر سپرپاور بننے کا اپنا خواب پورا کر سکے۔

بھارتی افواج میں تنظیمی لحاظ سے بھی انقلابی تبدیلیوں کا عمل شروع ہو چکا ہے۔ اہل پاکستان کے لیے ان تبدیلیوں کا جاننا ضروری ہے تاکہ وہ بھارتی حکمران طبقے کے شرپسندانہ عزائم سے آگاہ رہ سکیں۔ اس طبقے نے پاکستان کا وجود تسلیم نہیں کیا اور روز اول سے ہمارے خلاف سازشیںکر رہا ہے۔ اب ہندو قوم پرست لیڈروں کی آمد سے تو برصغیر پاک و ہند میں جنگ کے بادل مسلسل منڈلانے لگے ہیں۔یہ بھی ممکن ہے کہ مودی سرکار بھارتی افواج کو اتنی زیادہ طاقت دے ڈالے کہ وہ آخرکار بھارت کی حقیقی حکمران بن جائیں۔سنگھ پریوار کے جنگی جنون کا یہ قطعی نتیجہ نکل سکتا ہے۔

سول ملٹری کشمکش
مودی کے چھ سالہ دور حکومت میں یہ بہت بڑی تبدیلی جنم لے چکی کہ بھارتی افواج کے کمانڈر سیاسی بیان دینے لگے۔ اس سے قبل یہ عسکری کمانڈ کبھی سیاسی بیان نہیں دیتی تھی۔ وجہ یہ کہ پہلے بھارتی وزیراعظم‘ جواہر لعل نہرو کے بعض اقدامات سے عسکری کمانڈروں کو سیاسی معاملات سے دور کر دیا گیا تھا۔ نہرو تمام حکومتی معاملات میں سول بالادستی چاہتے تھے اور انہیں ہر معاملے میں فوجی کمانڈروں سے مشورہ کرنا پسند نہیں تھا۔گو ہندوستانی تاریخ سے آشکار ہے کہ یہاں روایتی طور پر حکومتی ڈھانچے میں عسکری کمانڈروں کو بہت زیادہ اہمیت حاصل رہی ہے۔

ماضی کے تمام بت پرست بادشاہ اور پھر مسلمان حکمران بھی اپنے فوجی سرداروں کی مدد و حمایت ہی سے حکومت کرتے رہے۔ مغل دور حکومت میں بیوروکریسی کا اولیّن نظام سامنے آیا۔ اس نظام میں گاؤں کا مُکھیا یا چودھری سب سے نچلا حصہ تھا۔ چودھری کی ذمہ داریوں میں یہ اہم کام بھی شامل تھا کہ جنگ کی ضرورت پیش آنے پر وہ گاوَں سے جوان جمع کرکے انہیں شاہی فوج میںبھرتی کرائے۔

جب انگریز ہندوستان آئے‘ تو انہوںنے مقامی فوجی سرداروں کی مدد ہی سے سونے کی اس چڑیا پر قبضہ کیا۔ پھر ملکی انتظام و نسق بہتر طور پر چلانے کی خاطر سول بیورو کریسی کا باقاعدہ نظام قائم کیا۔ اس کے باوجود ہندوستان میں برطانوی فوجی کمانڈروں کو حکومت میں بہت عمل دخل حاصل تھا۔ وائسرائے ہند کے دست راست عام طور پہ جرنیل ہی ہوتے۔بیسویں صدی کے اوائل میں برطانوی ہند میں اعلی ترین سطح پر سول اور ملٹری کے مابین پہلا ٹکراؤ دیکھنے کو ملا۔ اس وقت برطانوی نواب‘ لارڈ کرزن وائسرائے ہند تھا ۔

1902میں جنرل کیچنر ہندوستانی فوج کا کمانڈر انچیف بن گیا۔ وہ فوج کو اپنے طریقے سے چلانا چاہتا تھا۔ اسی لیے وائسرائے اور کمانڈر انچیف کے مابین اختیارات کی جنگ چھڑ گئی۔ رفتہ رفتہ اس انوکھی جنگ کی شدت اتنی بڑھی کہ دونوں ایک دوسرے پر شخصی حملے کرنے لگے۔ مثلاً لارڈ کرزن نے ایک خط میں جنرل کیچنر کو لکھا ’’تم اپنے دستخط میں کیچنر آف خرطوم لکھتے ہو۔ ایسا لکھنا بند کر دو کیونکہ یہ دستخط زیادہ جگہ گھیرتے ہیں۔‘‘ اس بات کا کمانڈر انچیف نے کافی برا منایا۔ (وائسرائے ہند نواب ہونے کے باوجود اپنے دستخط میں صرف کرزن لکھتا تھا۔)

جنرل کیچنر پھر کوشش کرنے لگا کہ طاقتور امپیر یل لیجسلیٹو کونسل میں ملٹری مشیر کا عہدہ اسے مل جائے۔ یہ عہدہ رکھنے والا ہی ہندوستانی فوج میں سپلائی و لاجسٹکس کا انتظام سنبھالتا تھا۔ اس تنازع میں برطانوی حکومت نے اپنے جنرل کا ساتھ دیا۔ اس پر تاؤ کھا کر لارڈ کرزن نے اگست 1905ء میں استعفیٰ دیا اور واپس برطانیہ چلا گیا۔

اب فوج کا کمانڈر انچیف ہی ہندوستان کا وزیر دفاع بھی بننے لگا۔ یوں فوج کے معاملات خاصی حد تک سول بیوروکریسی کے ہاتھ میں نہیں رہے۔درحقیقت وائسرائے ہند کے بعد کمانڈر انچیف ہی ہندوستان کو دوسرا طاقتور ترین شخصیت بن گیا۔اوائل بیسویں صدی میں برطانوی ہند حکومت کے بجٹ کا 40 فیصد حصہ فوج پر خرچ ہوتا تھا۔ جنرل کیچنر کے دور میں فوج کو مزید رقم ملنے لگی۔ برطانوی سول افسر اس پر ناک بھوں چڑھاتے تھے۔

حکومت میں جرنیلوں‘ سرکاری افسروں اور سیاست دانوں کے مابین جاری چپقلش ہندوستانی لیڈروں سے چھپی نہیں رہ سکی۔ ان میں قائداعظم کے اتالیق سمجھے جانے والے اعتدال پسند لیڈر‘ گوپال کرشن گھوکلے نمایاں تھے۔گھوکلے نے دعوی کیا ’’ہندوستان میں حکومت اپنی بیشتر آمدن فوج پر خرچ کر دیتی ہے۔ دفاع کو مضبوط بنانا ضروری ہے لیکن ایسا نہیں ہوکہ بیشتر آمدن اسی شعبے پر لگا دی جائے۔ یہ خرابی اس لیے پیدا ہوئی کہ حکومت جرنیلوں کے ہاتھ میں ہے۔‘‘ پہلی جنگ عظیم کے بعد پھر مقامی ہندوستانی لیڈروں مثلاً موتی لال نہرو‘ قائداعظم‘ گاندھی وغیرہ نے مطالبہ کیا کہ مرکزی حکومت میں سول اور ملٹری اختیارات کے مابین توازن ہونا چا ہیے۔ یہ لیڈر حکومتی معاملات میں سول بالادستی دیکھنے کے خواہش مند تھے۔

جرنیل سیاسی حکومت کی ماتحتی میں
برطانوی راج کے آخری دنوں میں مگر مملکت برطانوی ہند پھر ملٹری ریاست بن گئی۔ برطانوی حکومت نے دو فوجی افسروں ‘ جنرل ویول اور ایڈمرل ماؤنٹ بیٹن کو آخری وائسرائے بنایا اور انہیں ہندوستان تقسیم کرنے کی ذمہ داری سونپ دی۔ تاہم ستمبر1946ء میں عبوری حکومت وجود میں آ ئی تو مقامی لیڈروں کا ایک خواب پورا ہو گیا۔ اس حکومت میں پہلی بار کسی کمانڈر انچیف نہیں ایک سیاست داں (سردار بلدیو سنگھ) کو وزیردفاع بنایا گیا۔

1947ء کے وسط تک واضح ہو چکا تھا کہ جواہر لال نہرو بھارت کے پہلے وزیراعظم ہوں گے۔ نہرو تمام جرنیلوں کو سیاسی حکومت کے ماتحت رکھنا چاہتے تھے۔ اس تمنا کا اظہار وہ اقتدار سنبھالنے سے پہلے ہی کرنے لگے۔دہلی میں کمانڈر انچیف ایک شاندار رہائش گاہ ،تین مورتی بھون میں رہتا تھا۔وہ بھارتی وزیراعظم کو الاٹ کر دی گئی۔اگست 1947ء میں جنرل لاک ہارٹ بھارتی فوج کے کمانڈر انچیف بنے۔ انہوں نے حکم جاری کیا کہ پرچم کشائی کی تقریب میں عوام کو دور رکھا جائے۔پنڈت نہرو نے بطور وزیراعظم اپنے ا ختیار استعمال کرتے ہوئے کمانڈر انچیف کا یہ حکم معطل کیا اور عام لوگوں کو تقریب دیکھنے کی اجازت دے دی۔ یہی نہیں‘ نہرو نے بعدازاں جنرل لاک ہارٹ کو خط لکھ کر خبردار کیا :’’ فوج کے معاملات کے سلسلے میں حکومت جو پالیسی بنائے گی‘ صرف اسی پر عمل ہو گا۔ جو شخص اس پالیسی پر عمل نہیں کرنا چاہتا‘ اس کے لیے بھارتی فوج میں کوئی جگہ نہیں۔‘‘

غرض ان اقدامات سے پنڈت نہرو نے سبھی جرنیلوں پہ واضح کر دیاکہ تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آ گئی ہے۔ پہلے بھارتی وزیراعظم نے طاقتور انگریز کمانڈر انچیف پر آشکارا کر دیا کہ اسے سیاسی حکومت کے احکامات پر عمل کرنا ہو گا۔ بعض بھارتی مورخین کا دعوی ہے کہ پنڈت نہرو مسلسل بیچارے انگریز کمانڈر کو اپنے ماتحت رکھنے کی خاطر غیر معمولی اقدامات کرتے رہے۔1997ء میں میجر جنرل اجیت ردرا کی ایک سوانح حیات شائع ہوئی جو میجر جنرل (ر) ڈی کے پلیت نے لکھی تھی۔ میجر جنرل اجیت ردرا 1947ء میں جنرل لالک ہارٹ کا سیکرٹری تھا۔ 1958ء میں کمانڈر ساؤتھرن کمانڈ کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوا۔ کتاب میں میجر جنرل پلیت نے ایک واقعہ لکھا ہے۔

بکواس پلان ہے‘ نرا کچرا…
اگست 1947ء کے اواخر میں جنرل لاک ہارٹ نے بھارت کا دفاع کرنے کی خاطر ایک پلان بنایا ۔ جسے کمانڈر انچیف نے وزیراعظم کی خدمت میں پیش کیا۔ نہرو اس کی تفصیل جان کر کہنے لگے:’’ یہ بکواس پلان ہے‘ نرا کچرا۔ ہمیں کسی ڈیفنس پلان کی ضرورت نہیں۔ اہنسا (عدم تشدد) ہماری پالیسی ہے۔ ہمیں کسی ملک کی فوج سے خطرہ نہیں۔ میں تو فوج ہی ختم کر دینا چاہتا ہوں۔ ہماری سکیورٹی کے لیے پولیس کافی ہے۔‘‘

میجر جنرل (ر) پلیت نے اپنی کتاب میں یہ بھی لکھا ہے کہ جب پنڈت نہرو نے جنرل لاک ہارٹ کو بھارتی فوج کا کمانڈر انچیف بنایا تو اجیت ردرا اور دیگر مقامی فوجی افسروں کو بہت صدمہ پہنچا۔ ان کا کہنا تھا کہ ہندوستانیوں نے دو سو سال غاصبوں سے لڑ کر آزادی حاصل کی اور نتیجہ یہ نکلا کہ ایک انگریز ہی کو ہمارا کمانڈر بنا دیا گیا۔پنڈت نہرو نظریاتی شخصیت تھے مگر یہ کہنا خلاف عقل بات لگتی ہے کہ وہ بھارتی فوج ختم کرنا چاہتے تھے۔ یہ تاریخی حقیقت ہے کہ وہ ہر صورت چاہتے تھے ، ریاست جموں و کشمیر بھارت کا حصہ بن جائے۔ اور وہ یہ بھی جانتے ہوں گے کہ اس خواہش کا نتیجہ پاکستان سے ٹکراؤ کی صورت نکل سکتا ہے۔ مزید برآں انہی کی حکومت نے پاکستان کو ملنے والا روپیہ اور عسکری سازو سامان روک کر اگست 1947ء ہی میں جنگ جیسی صورت حال پیدا کر دی تھی۔ لہٰذا پنڈت نہرو کو امن و محبت کا سفیر قرار دینا تاریخی حقائق کے برخلاف ہے۔

بھارت کے عسکری وسول مورخین نے یہ د عوی بھی کیا ہے کہ جنرل لاک ہارٹ اور پاکستانی فوج کے پہلے انگریز کمانڈر انچیف جنرل گریسی دوست تھے۔ ان دونوں کے مابین روزانہ ٹیلی فونک گفتگو ہوتی تھی۔ ستمبر1947ء میں جنرل گریسی نے اپنے ساتھی کو مطلع کیا کہ ضلع راولپنڈی میں پٹھان لشکر جمع ہو رہا ہے۔ شاید وہ کشمیر پر حملہ کرنا چاہتا ہے۔ تاہم جنرل لاک ہارٹ نے یہ خبر نہرو تک نہیں پہنچائی۔ بعدازاں وہ لشکر سری نگر تک پہنچتے پہنچتے رہ گیا۔اگر پہنچ جاتا تو بھارت ریاست جموں وکشمیر سے ہاتھ دھو بیٹھتا۔ جب نہرو نے اپنے کمانڈر انچیف سے باز پرس کی تو لاک ہارٹ کہنے لگا ’’جناب‘ میں اس قسم کے سوالات سننے کا عادی نہیں۔ مجھے علم ہے کہ جلد ہی برطانوی افسروں کو لیے ایک بحری جہاز جا رہا ہے۔ میں بھی جلد یہاں سے رخصت ہو جاؤں گا۔‘‘

اہل ہندوستانی جرنیل موجود نہیں
اس طرح بھارتی فوج کے پہلے کمانڈر انچیف نے کشمیر کی وجہ سے استعفیٰ دے دیا۔ تاہم اس استعفیٰ میں یہ وجہ بھی کارفرما نظر آتی ہے کہ نہرو حکومت دفاعی معاملات اپنی پالیسیوں اور مرضی سے چلانا چاہتی تھی۔ بھارتی مورخین نے اگلے مستقل کمانڈر انچیف کی تقرری کے بارے میں ایک دلچسپ واقعہ بیان کیا ہے۔ہوا یہ کہ اگلا کمانڈر انچیف منتخب کرنے کی خاطر ایک اعلیٰ سطحی اجلاس ہوا جس میں وزیراعظم، وزیر دفاع بلدیو سنگھ، میجر جنرل نتھو سنگھ راٹھور، میجر جنرل کریاپا اور ماہرین عسکریات شریک ہوئے۔ نہرو خطاب کرتے ہوئے کہنے لگے ’’ اب ہمیں نئے مستقل کمانڈر انچیف کا تقرر کرنا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس عہدے پر کسی برطانوی جرنیل کا تقرر ہونا چاہیے۔ ابھی ایسا کوئی تجربے کار اور اہل ہندوستانی جرنیل موجود نہیں جو اس اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہوسکے۔‘‘

میٹنگ میں بیٹھے سبھی لوگ خاموش رہے۔ تاہم بھارتی جرنیلوں کو اپنی ہتک اور بے عزتی کا احساس ہوا۔ وزیر دفاع بلدیو سنگھ نے وزیراعظم کی تائید کرتے ہوئے کہا ’’ہمارے پاس کوئی باصلاحیت بھارتی جرنیل موجود نہیں۔‘‘

کتاب میں دعویٰ کیا گیا کہ اس موقع پر میجر جنرل نتھو سنگھ راٹھور کھڑا ہوا اور کہنے لگا ’’جناب! میں ایک نکتہ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ میرا خیال ہے، ہمارے پاس ایسا کوئی تجربہ کار اور اہل سیاست داں موجود نہیں جو بھارتی قوم کی قیادت کرسکے۔ لہٰذا کیوں نہ کسی برطانوی رہنما کو وزیراعظم بنا دینا چاہیے۔‘‘

اس بات سے کمرے میں ایسی خاموشی چھاگئی کہ سوئی بھی گرتی تو آواز آجاتی۔ یہ براہ راست پنڈت نہرو پر زوردار حملہ تھا۔ وہ برواختہ ہوکر بولے ’’جنرل! آپ کیا یہ کہنا چاہتے ہیں کہ آپ کو کمانڈر انچیف بنا دیا جائے؟‘‘

جنرل نتھو سنگھ نے کہا ’’سر! مجھے ایسی کوئی تمنا نہیں۔ مگر بھارتی فوج میں تجربہ کار اور اہل جرنیل موجود ہیں۔ یہاں میرے سینئر جرنیل کریاپا بیٹھے ہیں جو بہت قابل جرنیل ہیں۔ آپ نے پھر کیسے یہ دعویٰ کردیا کہ بھارتی فوج میں اہل جرنیل موجود نہیں؟‘‘

میٹنگ کا نتیجہ یہ نکلا کہ جنرل مداپا کریاپا بھارتی فوج کا پہلا کمانڈر انچیف بن گیا۔ تاہم درج بالا واقعے سے عیاں ہے کہ اسے زور زبردستی سے نیا عہدہ ملا تھا۔ اسی لیے نہرو اور کریاپا کی بیشتر مواقع پر بن نہیں سکی اور ان کے مابین ٹسل جاری رہی۔نہرو حکومت نے افواج پر ایک وار یہ کیا کہ ہر بجٹ میں ان کے لیے مخصوص رقم کم کی جانے لگی۔ خاص طور پر فوجی افسروں کی تنخواہیں کم کردی گئیں۔ (پنڈت نہرو کا کہنا تھا کہ برطانوی ہند کی حکومت انہیں دل کھول کر تنخواہیں دیتی تھی مگر آزاد بھارت میں ایسی فضول خرچی نہیں ہوسکتی۔) عوامی طور پر ہندو حکومت کا دعویٰ تھا کہ معاشی بحران کے باعث عسکری بجٹ میں کمی ناگزیر ہوگئی ہے۔

جنرل کریاپا کو مگر عسکری بجٹ میں کمی پسند نہیں آئی اور وہ وقتاً فوقتاً دبے دبے لفظوں میں نہرو حکومت کی معاشی پالیسیوں پر تنقید کرنے لگے۔ پنڈت نہرو کو کمانڈر انچیف کی سیاست میں دخل اندازی قطعاً پسند نہیں آئی۔ ان کا کہنا تھا کہ جرنیلوں کو صرف اپنے پیشہ وارانہ عسکری امور پر گفتگو کرنا چاہیے۔ جب جنوری 1953ء میں کریاپا ریٹائر ہوئے تو نہرو حکومت نے انہیں سفیر بناکر بیرون ملک بھجوادیا۔ مقصد یہ تھا کہ وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ نہ لے سکیں۔پنڈت نہرو کمانڈر انچیف کے عہدے بھی بہت خار کھاتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس عہدے کی وجہ سے افواج میں بیشتر طاقتیں کمانڈر انچیف کی شخصیت میں جمع ہوگئی ہیں۔

وہ اسے اپنا معاصر سمجھتے تھے۔ یہی وجہ ہے، اپریل 1955ء میں یہ عہدہ ختم کردیا گیا۔ اب تینوں افواج (بری، فضائیہ اور بحریہ) کے کمانڈر اپنی اپنی فوج کے سربراہ قرار پائے۔ بری فوج کا سربراہ چیف آف دی آرمی سٹاف کہلانے لگا۔ یوں پنڈت نہرو نے ایک طاقتور معاصر عہدے سے چھٹکارا پالیا۔

بھارت میں مارشل لا کا امکان
مئی 1957ء میں جنرل کے ایس تھمایا بری فوج کا چیف مقرر ہوا۔ یہ بھارتی عوام میں بہت مقبول تھا کیونکہ اسی کی جنگی حکمت عملی کے باعث جموں و کشمیر میں پاک اقواج پوری ریاست فتح نہیں کرسکی تھیں۔ بھارتی فوج اسے اپنا ہیرو تصّور کرتے تھے۔ لیکن اسی شہرت اور ناموری نے جنرل تھمایا میں غرور و احساس برتری کا منفی جذبہ بھی پیدا کردیا۔ چنانچہ مختلف معاملات میں چیف آف آرمی سٹاف اور حکومت کے مابین تصادم شروع ہوگیا۔اتفاق سے ان دنوں کرشن مینن وزیر دفاع تھا۔ یہ لیفٹسٹ دانشور، نہایت ہوشیار سیاست داں اور ذہین و فطین سفارتکار تھا۔ اسے محسوس ہوا کہ جنرل تھمایا اپنے آپ کو بھارت کا حقیقی حاکم تصور کرتا ہے۔ پھر کیا تھا، دونوں میں ٹھن گئی۔ جنرل تھمایا جو عسکری پلان بناتا، کرشن مینن اسے مسترد کردیتا۔ بھارتی مورخین لکھتے ہیں کہ توہین آمیز سلوک کی بنا پر جنرل تھمایا غصے میں آگیا ۔حتیٰ کہ وہ بھارت میں نہرو حکومت کا تختہ الٹنے کی بابت سوچنے لگا۔ مورخین نے اس ضمن میں ایک واقعہ بیان کیا ہے۔

ایک دفعہ وزیراعظم نہرو کسی کام سے جنرل تھمایا کے دفتر پہنچے۔ وہاں انہوں نے چیف کی کرسی کے پیچھے ایک بڑی سی اسٹیل کی الماری دیکھی۔ متجسس ہوکر پوچھا ’’اس میں کیا ہے؟‘‘

جنرل تھمایا نے کہا ’’الماری کے بالائی خانے میں مملکت کے ڈیفنس پلان محفوظ ہیں۔ دوسرے خانے میں ہمارے اعلیٰ جرنیلوں کی خفیہ فائلیں رکھی ہیں۔‘‘

’’ اور تیسرے خانے میں کیا ہے؟‘‘ پنڈت نہرو نے دلچسپی سے پوچھا۔

آرمی چیف سپاٹ چہرہ لیے بولا ’’آہا، اس میں مارشل لاء کا خفیہ پلان موجود ہے جو میں آپ کے خلاف لگانا چاہتا ہوں۔‘‘

فوج نے حکومت کیوں سنبھالی؟
کہتے ہیں کہ یہ سن کر پنڈت نہرو قہقہہ مار کر ہنس پڑے۔ تاہم ان کی ہنسی میں گھبراہٹ کا عنصر بھی شامل تھا۔وجہ یہ کہ پڑوسی ملک، پاکستان سے خبریں آرہی تھیں کہ شاید جرنیل حکومت سنبھال لیں۔ ان خبروں نے پنڈت نہرو کو چوکنا کردیا اور وہ اپنے جرنیلوں کی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھنے لگے۔ چند ماہ بعد ہی خبریں درست ثابت ہوئیں جب اکتوبر 1958ء میں جنرل ایوب خان نے اقتدار اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔بیسیوں بھارتی تاریخ دانوں اور ماہرین عمرانیات نے اس موضوع پر کتب تحریر کی ہیں کہ پاک فوج سیاست میں کیوں داخل ہوئی جبکہ بھارتی فوج دور رہی؟ تقریباً سبھی نے اپنی تحقیق سے یہ نتیجہ نکالا کہ اس کی وجہ دونوں ممالک میں فوج،سیاست دانوں اور بیورو کریسی کا مختلف کردار ہے۔

بھارت میں پنڈت نہرو کی زیر قیادت مستحکم سیاسی حکومت قائم ہوئی جو بیورو کریسی اور فوج دونوں کو اپنے ماتحت رکھنے میں کامیاب رہی۔ پاکستان میں آزادی کے فوراً بعد سیاست داں اقتدار پانے کی خاطر ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کرنے لگے۔ جوڑ توڑ کا بازار گرم ہوگیا جس میں بیوروکریسی نے بھی حصہ لیا۔ مگر ان منفی سیاسی سرگرمیوں کے باعث پاکستان انتشار اور معاشی و معاشرتی ابتری کا نشانہ بن گیا۔ حالات پر قابو پانے کی خاطر فوج کو مجبوراً حکومتی معاملات اپنے حالات میں لینے پڑے۔

عوام 1953ء میں دیکھ چکے تھے کہ فوج کلام سے زیادہ کام پر توجہ دیتی ہے۔ جب پنجاب میں مذہبی ہنگامے ہوئے تو جنرل اعظم خان کی زیر کمان وہاں مارشل لا لگ گیا۔ اس دوران فوج نے نہ صرف فساد پر قابو پایا بلکہ کئی علاقوں میں ’’صفائی مہم‘‘ شروع کردی۔ سڑکوں سے کوڑا کرکٹ اٹھایا گیا۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں مرمت کی گیں۔ ناجائز تعمیرات گرادیں۔ سڑکوں پر پودے لگائے۔ سرکاری عمارتوں پر رنگ و روغن کیا اور دیگر ایسے سول کام انجام دیئے جو سیاسی جھگڑوں کی وجہ سے زیر التوا تھے۔ جب تین ماہ بعد فوج بیرکوں میں واپس گئی، تو لاہور اور پنجاب کے دیگر علاقے کنٹونمنٹ کی طرح صاف ستھرے ہوچکے تھے۔ان معاشرہ سدھار سرگرمیوں کی وجہ سے عوام میں پاک فوج کے لیے عزت و احترام بڑھ گیا۔

فوجیوں نے چند ہفتوں میں وہ کام کر دکھائے تھے جو سیاسی حاکم اور سرکاری افسر برسوں مکمل نہ کرسکے تھے۔ یہی وجہ ہے جب 1958ء میں مارشل لاء لگا تو پاکستانیوں کے ایک بڑے طبقے نے اس کا خیر مقدم کیا۔ اسی زمانے میں یہ کہاوت مشہور ہوئی ’’پاکستان میں اب تو ماشاء اللہ ہوگیا۔‘‘ یعنی مارشل لا لگنے سے سب کچھ ٹھیک ہوگیا۔ ایوب خان کی زیر قیادت پھر ایک عشرے تک پاکستان ترقی و خوشحالی کے تاریخی دور سے گزرا۔ افسوس کامل طاقت نے پھر حکمرانوں کو سیدھی راہ سے ہٹا ڈالا۔مطلق العانیت کا نتیجہ اکثر یہی نکلتا ہے۔

جنرل تھمایا کا استعفیٰ
بہرحال پاکستان میں فوجی حکومت آنے سے وزیراعظم نہرو زیادہ سراسیمہ ہوگئے۔ انہیں محسوس ہوا کہ پڑوس کی صورتحال سے متاثر ہوکر جنرل تھمایا بھی ان کی حکومت کا تختہ الٹ سکتے ہیں۔ اسی لیے وزیراعظم اور وزیر دفاع مینن، دونوں آرمی چیف کے نظریات کی نفی کرنے لگے۔ مثلاً جنرل ایوب خان نے تجویز دی کہ پاک بھارت کو مشترکہ دفاعی کونسل ہونی چاہیے۔ جنرل تھمایا اس تجویز کے حق میں تھے مگر نہرو حکومت نے اسے مسترد کردیا۔ کرشن مینن خصوصاً آرمی چیف سے توہین آمیز سلوک کرنے لگا۔ یہی وجہ ہے، جنرل تھمایا نے اگست 1959ء میں پنڈت نہرو کو اپنا استعفی بھجوا دیا۔ وزیراعظم کے شدید دبائو اور قومی سلامتی کے نام پر آرمی چیف نے استعفی واپس لیا۔ تاہم اس واقعے نے بھارت میں ہنگامہ برپا کردیا۔ نہرو نے پارلیمنٹ میں بیان دیا ’’یہ ایک معمولی واقعہ تھا جو نمٹ چکا… مگر ہماری حکومت ہر حال میں سول بالادستی پر یقین رکھتی ہے۔‘‘

اس ٹسل کے باعث بھارتی افواج میں بھی بے چینی رہی اور وہ اپنے حقیقی فرائض سے غافل ہوگئیں۔ یہی وجہ ہے، 1962ء کے موسم سرما میں چینی فوج نے بھارتی فوج کو شکست دے ڈالی اور اپنی سپرمیسی قائم کرلی۔ اس عبرتناک ہار کے بعد بھارتی حکمران طبقے کو ہوش آیا۔ تب وزیراعظم نہرو عسکری معاملات میں فیصلہ سازی کا عمل افواج کے چیفس کو دینے پر آمادہ ہوگئے۔ یوں اختیارات کی جنگ کسی حد تک اختتام کو پہنچی۔ مگر آرمی چیفس کو یہی گلہ رہا کہ وزارت دفاع میں بیٹھے افسر افواج کی مانگیں پوری نہیں کرتے اور رقم کے حصول اور ہتھیاروں کی خرید میں رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔

بھارتی جرنیلوں کا سیاست میں داخلہ
سیاسی حکومتوں سے اختلافات کے باوجود آرمی چیف مروجہ پالیسی پر کاربند رہے۔ وہ صرف عسکری امور پر بیان دیتے اور سیاسی موضوعات پر گفتگو کرنے سے پرہیز کرتے۔ اگرچہ پاکستان کا معاملہ آتا، تو بعض اوقات سیاسی نوعیت کے بیانات بھی داغ دیتے۔ اسی دوران سنگھ پریوار کے انتہا پسندانہ اور قوم پرستانہ نظریات فوج میں نفوذ کرگئے۔ اس کا عملی مظاہرہ 2008ء میں سامنے آیا۔ تب انکشاف ہوا کہ بھارتی فوج کے کرنل پروہت نے مساجد اور سمجھوتا ایکسپریس پر بم حملے کرنے والے انتہا پسند جن سنگھی گروہ کو ملٹری ڈپوئوں سے آتش گیر مادہ فراہم کیا تھا۔ ظاہرہے، کرنل پروہت نے اعلیٰ فوجی افسروں کی آشیرباد سے یہ قدم اٹھایا ہوگا۔2014ء میں سابق آرمی چیف، جنرل (ر) کے وی سنگھ بی جے پی کا رکن بن گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک سابق آرمی چیف نے عملی سیاست کے میدان میں قدم دھرے۔ اسی سال سنگھ پریوار کے سیاسی روپ، بی جے پی نے اقتدار سنبھال لیا اور اپنے جنگجویانہ نظریات کی ترویج کرنے گی۔ وزیراعظم مودی بار بار اعلان کرنے لگے کہ وہ بھارتی سینا کو طاقت ور اور مضبوط قوت میں ڈھالنا چاہتے ہیں۔

مودی سرکار کی شہہ پر ہی 2016ء میں آرمی چیف بننے والا جنرل بپن راوت اشتعال انگیز سیاسی بیان دینے لگا۔ مثال کے طور پر اس نے کہا کہ بنگلہ دیش سے مسلمان آسام نہیں آنے چاہیں ورنہ وہاں مقامی آبادی کا تناسب بگڑ جائے گا۔ مودی سرکار پورے بھارت میں مسلمانوں پر جو ظلم و ستم کررہی تھی، موصوف نے اس کے خلاف ایک لفظ نہیں کہا۔ یہی نہیں، مودی کی جنگجویانہ پالیسی اور شاونیت پر عمل کرتے ہوئے پاکستان پر حملے شروع کردیئے۔ یہ اور بات ہے کہ جنرل راوت کو منہ کی کھانا پڑی۔ بہرحال اس کے عمل و کلام نے بھارتی افواج کی یہ برسوں پرانی پالیسی ملیامیٹ کر ڈالی کہ آرمی چیفس سیاست سے دور رہیں گے۔ بلکہ جنرل راوت مودی حکومت کی جنگجویانہ پالیسیوں کا بلند آہنگ سفیر بن گیا۔

تھیٹر کمانڈز کا منصوبہ
مودی سرکار نے بھی جنرل راوت کی فرماں برداری اور جی حضوری کا بہترین انعام دیا اور اسے چیف آف ڈیفنس سٹاف بناکر نئے تخلیق کردہ سرکاری ادارے، ڈیپارٹمنٹ ملٹری افیئرز کا سربراہ بنا دیا۔ یہ ادارہ پاکستان کے عسکری ادارے، جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی سے مماثلت رکھتا ہے۔ اس کا قیام 7 جنوری 2020ء کو عمل میں آیا۔ مقصد یہ ہے کہ جنگ و امن کے زمانے میں تینوں افواج بری، فضائیہ اور بحریہ کی کارروائیوں اور سرگرمیوں کو ہم آہنگ کیا جاسکے۔ماہ فروری میں جنرل راوت نے اعلان کیا بھارتی افواج کو ’’تھیٹر کمانڈز‘‘ میں بانٹ دیا جائے گا۔یہ عمل اگلے تین چار سال میں مکمل ہو گا۔تھیٹر کمانڈ دور جدید میں ایک فوج کی سب سے بڑی فارمیشن یا صف بندی بن چکی۔اس میں بری،فضائیہ اور بحریہ،تینوں افواج کے دستے شامل ہوتے ہیں۔جنگ چھڑنے پر وہ تینوں مل کر لڑتے ہیں۔یوں مدمقابل کا مقابلہ کرنے میں آسانی رہتی ہے۔امریکا ایسی چھ جبکہ چین پانچ تھیٹر کمانڈز بنا چکا۔اب بھارت بھی اپنی افواج کو پانچ یا چھ تھیٹر کمانڈز میں تقسیم کر کے انھیں جدید ترین فارمیشن کا روپ دینا چاہتا ہے۔مدعا یہ ہے کہ افواج کے کمانڈ اینڈ کنٹرول کو موثر وسریع الحرکت بنایا جا سکے ۔فی الوقت وہ 19 کمانڈز میں منقسم ہیں۔

بھارتی افواج کی نئی صف بندی میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کو بھی ایک تھیٹر کمانڈ تفویض کی گئی ہے۔اس سے عیاں ہے کہ بھارتی حکمران طبقہ ہر قیمت پر کشمیر پہ اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتا ہے چاہے وہاں وسیع جنگی وسائل جھونک دئیے جائیں۔بعض بھارتی ماہرین نے اگرچہ یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ نریندر مودی ذاتی خواہشات اور اپنی انا کی تسکین کے لیے بھارتی افواج کو آزاد وخودمختار بنا کر بوتل سے جن باہر نکال رہے ہیں۔اب مستقبل میں اپنی جائز وناجائز خواہشات پوری کرنے کی خاطر بھارتی افواج سول حکومت پر دبائو ڈالنے کی پوزیشن میں آ چکیں۔گویا بھارت میں سول وملٹری قوت کا توازن فوج کے حق میں جھک سکتا ہے۔

پاکستان کی افواج بھی جدت و سہولت پانے کے لیے خود کو تھیٹر کمانڈز میں تقسیم کر سکتی ہیں۔مثلاً پانچ تھیٹر کمانڈز(کشمیر،پنجاب،سندھ ،بلوچستان اور خیبرپختون خواہ)وجود میں آ جائیں۔اس طرح تینوں فورسز کے وسائل کو زیادہ عمدگی،سرعت اور سہولت سے دوران جنگ استعمال کیا جا سکے گا۔ابھی مسلح افواج بھارتی فورسز کی طرح کئی کمانڈز میں تقسیم ہیں۔بھارت ہم سے بڑی طاقت ہے۔وہ دنیا کی دوسری بڑی افواج اور تیسرا بڑا جنگی بجٹ رکھتا ہے۔مگر پاکستان کے عوام اور مسلح افواج کا اتحاد ویک جہتی اس بڑی قوت کو منہ توڑ جواب دینے کی اہلیت رکھتا ہے۔افریقی کہاوت ہے:’’جہاں اتحاد ہو،وہاں فتح ہے۔‘‘بزرگ کہہ گئے ہیں:’’کمزور بھی متحد ہو کر طاقتور بن جاتے ہیں۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔