پرائیویٹ سیکٹر یا کھانچہ سیکٹر

سید معظم حئی  جمعرات 12 مارچ 2020
moazzamhai@hotmail.com

[email protected]

’’صرف تین چار سال پہلے تک شہر میں میری ایک درجن سے زائد دکانیں تھیں، اب بس یہ آخری دکان رہ گئی ہے جہاں آپ اس وقت کھڑے ہیں‘‘ ان دکانوں کا کیا بنا؟‘‘ ، ’’میرے ملازمین نے وہ خرد برد کی کہ مسلسل نقصان اٹھا اٹھا کر ایک ایک کرکے ساری دکانیں بیچنی پڑیں۔‘‘

یہ آخری دکان کراچی کی ڈیفنس سوسائٹی کے فیز 5 کی مشہورکھڈا مارکیٹ کے عقب میں واقع تھی اور بچیوں کے کپڑوں کی اس دکان کے مالک سے میری یہ بات چیت کوئی چار سال پہلے ہوئی تھی۔ ابھی پچھلے سال جو اس دکان میں پھر جانا ہوا تو وہاں نئے لوگوں کو کھڑے پایا۔

’’پرانے مالک یہ دکان ہمیں بیچ گئے‘‘ دکان کے نئے مالک نے مجھے بتایا ’’ کیا شریف آدمی کا اس ملک میں کوئی جائز کاروبار کرنا بڑا مشکل ہے یہاں ہر شخص آپ کو چونا لگانے کے لیے تیار بیٹھا ہے‘‘ مجھے دکان کے پرانے مالک کی بات یاد آئی۔

پاکستان میں کرپشن کا بہت شور ہے اور جتنا شور ہے اس سے زیادہ کرپشن کا زور ہے۔ ظاہر ہے کہ ایک ایسے ملک میں جہاں نہ ہی ملک میں قانون نافذ کرنے والے ادارے اور نہ ہی نظام عدل بڑے بڑے لٹیروں کو سزا دے سکتے ہوں اور نہ ہی ملک کا لوٹا ہوا کھربوں کا مال برآمد کرسکتے ہوں بلکہ الٹا انھیں این آر او پہ این آر او اور ریلیف پہ ریلیف وہ بھی فوری کے فوری دیتے ہوں وہاں تو ظاہر ہے کہ آوے کا آوا ہی بگڑے گا، نیچے سے اوپر تک کرپشن کا ہی راج ہوگا۔

تاہم ہمارے ہاں سارا شور سرکاری اداروں اور سرکاری عہدیداروں کی کرپشن کا ہے جب کہ ابھی بھی بہت سے لوگ پرائیویٹ سیکٹر کوکرپشن سے پاک سمجھتے ہیں کہ پرائیویٹ کمپنیاں اور سیٹھ تو بے ایمانی کرپشن کرنے والے کو فوراً کان پکڑ کر نکال باہر کر دیتے ہیں تو پرائیویٹ سیکٹر میں کرپشن نہیں ہو پاتی۔

یہ بات صحیح بھی ہے اور غلط بھی، جی ہاں بہت سوں کو پرائیویٹ سیکٹر میں کرپشن کرنے پر ادارے سے نکال دیا جاتا ہے اور بس اس کے علاوہ اور کوئی قانونی ایکشن نہیں ہوتا بلکہ اکثر تو ایسے لوگوں کے نکالے جانے پہ بھی ان کے جاب ٹرمی نیشن لیٹر یا کلیئرنگ سرٹیفکیٹ پہ بھی ان کے نکالے جانے کی اصلی وجہ یعنی کرپشن کا ذکر نہیں کیا جاتا چنانچہ یہ لوگ فوراً ہی دوسرے ادارے میں لگ کر مال پانی بنانے کا سلسلہ پھر سے شروع کردیتے ہیں۔

آپ مثلاً رانا صاحب کو لے لیجیے، ظاہر ہے کہ ہم یہاں ان کا اور ان کی کمپنی کا نام نہیں ظاہر کرسکتے البتہ ان کے کچھ کارناموں پہ ضرور کچھ روشنی ڈال سکتے ہیں۔ یہ صاحب ایک بڑی کمپنی میں سیلز اور مارکیٹنگ کے ہیڈ تھے۔ بھاری بھرکم تنخواہ، بڑی بڑی گاڑیاں، آئے دن کے غیر ملکی دورے، ٹی اے، ڈی اے، رانا صاحب کی پانچوں گھی میں تھیں مگر بھلا اتنے میں صبر کیسے آتا، چنانچہ رانا صاحب نے کمپنی کے مارکیٹنگ ڈیپارٹمنٹ کے مارکیٹنگ اور برانڈ منیجر اور سیلز نیٹ ورک کے اپنے چہیتے آر ایس ایم (ریجنل سیلز منیجر) اور ڈی ایس ایم (ڈسٹرکٹ سیلز منیجر) کا گروپ بنایا ہوا تھا اور سب ہی نے خوب مال بنایا۔ تاہم بدقسمتی سے بہت سے اچھے دنوں کی طرح ان دنوں کا بھی بالآخر اختتام ہوا اور کمپنی کی مینجمنٹ غیر ملکیوں کے ہاتھ میں آگئی۔

رانا صاحب نے یہ کمپنی چھوڑی اور اپنے رشتے داروں کی ڈیری پروڈکٹس کی ایک کمپنی کو سدھارے۔ اس کمپنی میں اپنے پہلے سال ہی میں رانا صاحب نے ’’پروڈکٹس کلیمز‘‘ کے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ یوں لگا جیسے اس کمپنی کی پروڈکٹس کا ہر پیک ہی خراب نکلا۔ یہ سارے کلیمز رانا صاحب کی زیر اثر ریٹیل اور ہول سیل دکانوں اور کمپنیوں نے حاصل کیے تاہم اس کمپنی کے سیٹھوں نے فی الفور رانا صاحب کو گھر کا راستہ دکھایا۔

ہم بات کو مزید واضح کرنے کے لیے ایک اور رئیل لائف یعنی حقیقی زندگی کی مثال لیتے ہیں۔ ان صاحب کا نام آپ فلاں صاحب سمجھ لیجیے۔ یہ ایک عرب ریاست کے کاروباری گروپ کی ایک کمپنی کے ہیڈ تھے۔ ان کی دو خوبیاں ایسی تھیں کہ جنھوں نے ان کے عربی مالکان اور دیسی عہدیداروں اور ملازمین کو انتہائی مرعوب کر رکھا تھا۔ پہلی خوبی ان کا گورا رنگ اور گوری انگریزی اور دوسری خوبی ان کی پاور پوائنٹ کی ایسی پریزینٹیشن بنانا اور دینا جو ان کی ہر پالیسی کو کامیاب اور کمپنی کے ہر نقصان کو فائدہ دکھا دیتیں۔

ان فلاں صاحب کے لیے لاہور کے کارپوریٹ حلقوں میں مشہور تھا کہ یہ ہر مہینے ایک نیا پلاٹ خریدتے ہیں۔ انھوں نے اپنے دفتر میں جہاں وہ راجہ اندر کی سی شان سے رہتے تھے کئی مرد و خواتین لاکھوں کی تنخواہوں پہ ایسے بھی رکھے ہوئے تھے کہ جن کی میرٹ ہمیشہ ایک راز رہی۔ ان فلاں صاحب کے کارناموں کا جب تک ان کے عربی مالکان کو احساس ہوا تب تک بہت دیر ہوچکی تھی، وہ فلاں صاحب کمپنی سے باہر آگئے تاہم انھوں نے کوئی کسر پیچھے نہیں چھوڑی تھی، کمپنی ڈوب گئی اور سیکڑوں لوگ بیروزگار ہوگئے۔

اگر آپ پاکستان کے پرائیویٹ سیکٹر بشمول غیر ملکی کمپنیوں کی ایک لفظ میں تعریف کرنا چاہیں تو وہ لفظ یقینا ’’کھانچا‘‘ ہوگا۔ کھانچے کے لیے ایک اور لفظ ’’کٹ‘‘ یعنی حصہ استعمال ہوتا ہے، ہر کسی کو ہر کام میں اپنا حصہ چاہیے۔ ایک صاحب نے جوکہ ایک کمپنی میں افسر تھے احادیث نبویؐ پہ مبنی پیغامات پہ مشتمل  پبلک سروس کمپین تیار کروائی۔ کئی ملین کا مبینہ کھانچا سیٹ کیا اور پورا بجٹ ٹھکانے لگا دیا۔

کمپنیوں میں بیٹھے لوگ نئی کمپنیوں اور دوسرے وینڈرز اور سپلائرز کے ساتھ بڑی مشکل سے کام کرنے پہ تیار ہوتے ہیں کیونکہ عموماً پہلی جگہ سے لگے بندھے کھانچے چل رہے ہوتے ہیں اور انھیں ڈر ہوتا ہے کہ پتہ نہیں نئی جگہ سے کیا کھانچا سیٹ ہو اور ہو بھی یا نہ ہو۔ پاکستانی کمپنیاں ملٹی نیشنل نہیں بن پاتیں، ایک تو خوشامدیوں کو اوپر بٹھانے کا کلچر پھر یہ بھی کہ یہاں منیجر کی سطح سے لے کر ایم ڈی تک تقرریاں میرٹ کے بجائے ’’نیٹ ورکنگ‘‘ پہ ہوتی ہیں۔

پرائیویٹ سیکٹر میں بیٹھے کرپٹ افسران اہم جگہوں پہ صرف اپنی جان پہچان اور یاری دوستی کے لوگ لاتے ہیں تاکہ ایک تو گروپ بازی میں آسانی ہو دوسرے پہلے سے چلتے کھانچوں میں کوئی اجنبی آکر رخنہ نہ ڈال دے۔

پرائیویٹ کمپنیوں میں ایچ آر کے لوگ اکثر منیجر اور اس سے اوپر کی آسامیوں پہ بھرتی کے لیے دکھاوے کی کارروائیاں کرتے ہیں جب کہ لوگ رکھے نیٹ ورکنگ کی بنیادوں پہ جاتے ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں بہت سے مولوی حضرات نے بڑی کامیابی سے اسلام کو چند عبادات اور لباس اور جسم کی چند علامات تک محدود کردیا ہے۔ معاشرے میں حرام حلال کا تصور ہی ختم کردیا گیا ہے۔ اب ہر کوئی سمجھتا ہے کہ خوب حرام مال کماؤ پھر نماز پڑھو، روزہ رکھو، حج عمرہ کرو، زکوٰۃ خیرات دو اور بس سب حرام مال حلال ہو گیا چنانچہ کچھ عجب نہیں کہ پاکستان کا پرائیویٹ سیکٹر اب کھانچا سیکٹر بن کے رہ گیا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔