فوجی انخلاء کے بعد افغانستان میں امن قائم ہوسکے گا ؟؟

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 16 مارچ 2020
ماہرین امور خارجہ ، سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

ماہرین امور خارجہ ، سیاسی اور دفاعی تجزیہ نگاروں کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال

امریکا اور افغان طالبان کے مابین 18 ماہ کے طویل مذاکرات کے بعد گزشتہ دنوں قطر کے دارالحکومت دوحا میں امن معاہدے پر دستخط ہوئے۔ اس معاہدے کے مطابق 14 ماہ میں امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی، طالبان کو تمام دہشت گرد تنظیموں سے روابط منقطع کرنا ہوں گے۔

افغان سرزمین القاعدہ، داعش سمیت تمام شدت پسند تنظیموں کو استعمال کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ طالبان کے 5 ہزار سے زائد اور افغان فورسز کے ایک ہزار سے زائد قیدیوں کو رہا کیا جائے گا جس کے فوری بعد سے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان مذاکرات شروع ہوجائیں گے۔

135 دن میں 8 ہزار امریکی فوجی افغانستان میں رہ جائیں گے جو آئندہ 9 ماہ میں نکلیں گے۔ اس وقت افغانستان میں تقریباََ14 ہزار امریکی فوجی موجود ہیں اور اگر نیٹو افواج کی بات کی جائے تو ان کی تعداد 17 ہزار ہے۔اس معاہدے کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’امریکا طالبان معاہدہ اور خطے پر اس کے اثرات‘‘ کے موضوع پرایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین امور خارجہ، سیاسی اور دفاعی تجزیہ کاروں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔

پروفیسر ڈاکٹر فاروق حسنات
(ماہر امور خارجہ )

امریکا نے طالبان کے ساتھ دوحا میں معاہدہ کیا اور ساتھ ہی افغان حکومت سے ایک انڈرسٹینڈنگ کی۔ امریکا نے دونوں کے ساتھ مختلف کام کیا ۔ امریکا افغانستان میں شکست کھا چکا ہے لیکن فیس سیونگ چاہتا ہے جس کیلئے طالبان سے معاہدہ کیا گیا کہ 14 ماہ میں امریکی افواج افغانستان سے نکل جائیں گی۔معاہدے کے دونکات اہم ہیں ۔ پہلا نکتہ امریکی فوجی انخلاء ہے اور دوسرایہ کہ طالبان، القاعدہ و دیگر تنظیموں کو امریکا کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔

طالبان اور افغان حکومت کے درمیان ابتداء میں ہی 5 ہزار قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر اختلاف سامنے آگیا۔ عراق اور افغانستان میں امریکا قومی تعمیر، اداروں کا قیام،معاشی بہتری و دیگر نعرے لے کر آیا مگر سب دعووے پیچھے چلے گئے اور عراق کے بعد اب وہ افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ کر وہاں سے بھاگ رہا ہے۔

5برس پہلے افغانستان میں انتخابات ہوئے جس کے بعد اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ دونوں ہی وکٹری کلیم کر رہے تھے جس کے بعد امریکا نے پاور شیئرنگ کانیا فارمولا دیا اور دونوں نے ملکر حکومت بنا لی۔ اب گزشتہ چند ماہ قبل جو انتخابات ہوئے تو ان میں بھی عبداللہ عبداللہ اور اشرف غنی دونوں نے ہی کہا کہ میں صدر ہوں لہٰذا وہاں کسی سے بات چیت کی جائے۔ ہم پر امریکا کی جانب سے دباؤ تھا کہ حقانی نیٹ ورک کا خاتمہ کیا جائے۔ انہی حقانیوں کا امریکی اخبار میں مضمون شائع ہوا، ان سے بات چیت ہوئی اور پھر ٹرمپ نے ان سے 20 منٹ فون پر بات بھی کی لہٰذا ہمیں امریکا کی پالیسیوں کو سمجھنا چاہیے۔ افغان طالبان پر ذمہ داری ڈالی جارہی ہے کہ وہ امن قائم کریں اور معاہدے پر عملدرآمد بھی کریں۔

میرے نزدیک جب تک افغانستان سے وار لارڈز، جرائم پیشہ افراد ودیگر طاقتور گروہوں کا خاتمہ نہیں ہوگا، افغانستان میں امن قائم نہیں ہوسکتا۔ امریکا طالبان معاہدے کے بعد دیکھنا یہ ہے کہ افغانستان کی فوج اور پولیس میں طالبان کو کتنی جگہ دی جائے گی، افغانستان میں تو نسلی گروہوں کے مسائل ہیں، وہاں کس طرح معاملات حل کیے جائیں گے۔

عمران خان ٹرمپ کی تعریفیں کر رہیں ہیں، ہمیں ٹرمپ اور امریکا سے محتاط رہنا ہوگا۔ افغانستان میں آئندہ بننے والی صورتحال کو دیکھتے ہوئے ہمیں علاقائی ممالک کو ساتھ ملانا چاہیے، اس کے لیے چین، روس، ایران، ترکی سے بات کی جائے، افغانستان کو آئین بنانے میں مدد کی جائے تاکہ سنجیدہ اور جامع بات چیت ہوسکے ۔ میر نزدیک افغانستان میں جب تک فیڈریشن نہیں بنے گی وہاں کے مسائل حل نہیں ہونگے۔ امریکا نے ایک بار پھر شرارت کی ہے اور اس کا بوجھ خطے پر آئے گا۔

بریگیڈیئر (ر) عمران ملک
(دفاعی تجزیہ نگار )

امریکا کی تاریخ معاہدوں کی پاسداری کے حوالے سے اچھی نہیں ہے۔ ویتنام اورشام کی مثال سامنے ہے اور اب افغانستان میں بھی کچھ ایسا ہی نظر آرہا ہے، امریکا کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ افغانستان کس سمت میں جائے گا۔ کیا وہاں اسلامی حکومت آئے گی یا کوئی اور نظام آئے گا۔ امریکا کا افغانستان میںآنا ناقابل فہم بات تھی اور اب اس طریقے سے وہاں سے جانا بھی ناقابل فہم ہے۔ معاہدے کے 4نکات میں سے 1نکتہ ایسا ہے جس پر من و عن جلد عمل ہو جائے گا اور وہ امریکی فوجی انخلاء ہے جبکہ دیگر نکات پر کام کرنے کی ساری ذمہ داری صرف طالبان پر ہی ڈال دی گئی ہے لہٰذا ان میں مشکلات نظر آرہی ہیں۔

انٹرا افغان ڈائیلاگ کی کامیابی کے امکانات کم ہیں۔ افغان حکومت اور طالبان میں نسلی و فرقہ وارانہ تقسیم زیادہ ہے۔ گزشتہ کئی برسوں سے دونوں آپس میں لڑ رہے ہیںا ور ایک دوسرے کو مار رہے ہیں۔ تحریک طالبان افغانستان نے افغان نیشنل فورسز اور افغان حکومت کے خلاف طویل جنگ لڑی اور اب انہیں کہا جارہا ہے کہ خود ہی اپنے معاملات حل کر لیں۔ اتنے گھمبیر مسئلے کو خود ہی حل کرنا ناممکن ہے، اس کے لیے سہولت کار کی ضرورت ہے جو انہیں گائیڈ کرے اور حل کی طرف لے کر جائے۔ ایک ایسا نکتہ ہے جسے نظر انداز کر دیا گیا۔ طالبان اور نیشنل یونیٹی گورنمنٹ الگ الگ نظام حکومت چاہتے ہیں۔

طالبان اسلامی شریعہ جبکہ افغان حکومت سیکولر پارلیمانی جمہوری نظام چاہتی ہے۔ انہیں اب کہا گیا ہے دونوں فریق نظام حکومت پر اتفاق کر لیں۔ سوال یہ ہے کہ دو انتہاؤں پر کھڑے گروہوں کو کون منائے گا؟ طالبان کس طرح سیکولر نظام پر اتفاق کریں گے یا افغان حکومت اسلامی شرعی نظام پر راضی ہوگی۔ میرے نزدیک یہ غیر فطری اور غیر معقول معاہدہ ہے۔ امریکا طالبان معاہدے کو ان لوگوں پر لاگو کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے جو اس معاہدے کا حصہ ہی نہیں ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ پہلا اختلاف قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر ہی سامنے آگیا اور ابھی مزید مسائل وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آتے جائیں گے۔ میرے نزدیک جب تک امریکا اور پاکستان اس معاملے میں براہ راست کردار ادا نہیں کریں گے، مسائل حل نہیں ہونگے۔طالبان کو القاعدہ و دیگر دہشت گرد گروہوں کو امریکا کے خلاف کام کرنے سے روکنے کا بھی ٹاسک دیا گیا ہے، کیا وہ ان سب کامقابلہ کر سکتے ہیں؟ افغانستان میں ٹیررازم سینٹرل ہے جس میں داعش، القاعدہ کی باقیات، جماعت الاحرار، تحریک طالبان پاکستان، اسلامک موومنٹ آف ازبکستان، ایسٹ آف ترکمانستان اسلامک موومنٹ، چینی، وار لارڈز، سمگلرز و دیگر گینگ شامل ہیں۔

یہ سب لوگ ایک طرف ہیں اور طالبان دوسری طرف۔ کیا افغان نیشنل سکیورٹی فورسز افغانستان میں موجود دہشت گرد و طاقتور گروپوں کا مقابلہ کرسکتی ہیں؟ کیا افغان نیشنل سکیورٹی فورسز طالبان کے ساتھ مل جائیں گی؟ اگر مل بھی جائیں تو کیا دونوں میں اتنی صلاحیت ہے کہ وہ مل کر ان گروہوں کا خاتمہ کرسکیں؟ جب تک یہ گروپس افغانستان سے ختم نہیں ہوں گے تب تک وہاں کوئی بھی حکومت پائیدار نہیں ہوسکتی لہٰذا کیا امریکا، طالبان اور افغان نیشنل سکیورٹی فورسز، تینوں مل کر ان سب کے خلاف کارروائی کریں گے؟یہ اس وقت ہی ممکن ہوگا جب امریکا یہاں سے نکلنے سے پہلے ان دہشت گرد گروہوں کا خاتمہ کرے گا۔ میرے نزدیک امریکا کو افغانستان سے ذمہ دارانہ انخلاء کرنا چاہیے لیکن اگر یہ معاہدے اور مستقبل کے لائحہ عمل میں شامل نہیں ہے تو پھر یہ مسئلہ افغانستان اور اس خطے کو مستحکم نہیں ہونے دے گا۔

اس سے بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے اور سی پیک کو بھی خطرات لاحق ہونگے۔ تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار، بی ایل اے اور بی آر اے کے لوگ جو افغانستان میں موجود ہیں، یہ سب بھارتی فنڈنگ پر کام کر رہے ہیں جو ہمارے لیے مسئلہ ہیں۔ جب تک ان گروپوں کو ختم نہیں کیا جائے گا اور افغان و بھارتی انٹیلی جنس کا نیکس ختم نہیں کیا جائے گا، معاہدے کی راہ میں حال مسائل حل نہیں ہوسکیں گے لہٰذا امریکا، طالبان معاہدے کے تحت ان کا قلع قمع کرنا چاہیے۔ ایک اور بات سمجھنی چاہیے کہ جب تک یہ دہشت گرد و جرائم پیشہ گروہ وہاں موجود رہیں گے اور ان کے آپس کے اختلافات ختم نہیں ہونگے تب تک جنگ بندی ممکن نہیں ہے۔

امریکا کے بعد افغانستان میں سب سے بڑی شکست بھارت کو ہوئی کیونکہ اس کی فنڈنگ ضائع گئی، نادرن الائنس بری طرح پٹ گئی ہے اور امریکا نے بھی اب یہ تسلیم کرلیا ہے کہ افغانستان میں آئندہ حکومت طالبان کی ہوگی۔ میرے نزدیک پاکستان کو ایران، روس، چین اور ترکی کو ساتھ ملا کر افغانستان میں پیدا ہونے والی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلئے تیار رہنا ہوگا، اس حوالے سے پالیسی بنائی جائے۔

جاوید حسین
(سابق سفارتکار )

افغانستان میں دو جنگیں ہیں، ایک امریکا طالبان جنگ جبکہ دوسری امریکی سپانسرڈ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہے، امریکا نے طالبان کے ساتھ اپنی جنگ کے خاتمے کیلئے تو معاہدہ کرلیا ہے مگر افغان حکومت اور طالبان کے درمیان معاملہ ابھی طے نہیں ہوا۔ یہ امن معاہدہ نہیں ہے بلکہ امن معاہدے کو سہولت فراہم کرنے کے حوالے سے ہے۔ افغانستان سے فوجی انخلاء کی مدت 14 ماہ بنتی ہے۔ اس حوالے سے جو ٹائم لائن دی گئی ہے اس کے مطابق 135 دنوں میں اتنے فوجی نکالے جائیں گے کہ باقی رہ جانے والوں کی تعداد 8 ہزار 600 ہوگی جنہیں 9 ماہ میں نکالا جائے گا۔ اس کی دو شرائط ہیں۔

ایک یہ کہ طالبان خود کو افغانستان میں موجود دہشت گرد گروپوں سے الگ کر لیں گے اور امریکا اور اس کے اتحادیوں کے خلاف کسی کو بھی کارروائی کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ دوسری شرط یہ کہ 10 مارچ سے انٹرا افغان ڈائیلاگ شروع کیے جائیں گے۔ امریکا نے ٹرمپ کی قیادت میں سٹرٹیجک فیصلہ لے لیا ہے جس کے بعد طالبان سے معاہدہ کیا گیا تاکہ فوجی انخلاء ممکن ہوسکے۔1989ء میں جب سوویت فورسز کا افغانستان سے انخلاء ہوا تو اس کے بعد وہاں سول وار شروع ہوگئی۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت ایسی کوشش نہیں کی گئی تھی کہ لائحہ عمل بنا دیا جائے کہ بعد میں کیسی حکومت ہوگی۔ امریکا نے افغانستان میں مستقبل کی اسلامی حکومت کو بھی تسلیم کر لیا ہے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان کے موجودہ آئین میں تبدیلیاں آئیں گی یا پھر ایک نیا آئین ترتیب دیا جائے گا تاکہ حکومتی نظام بنایا جاسکے۔ یہ الگ بات ہے کہ کوشش کامیاب ہوتی ہے یا نہیں۔ ممکن ہے کہ افغانستان میں موجود گروہ جو 40 برس سے حالت جنگ میں ہیں، وہ اب جنگ سے تنگ آچکے ہوں اور اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے امن کیلئے ایک ساتھ بیٹھ جائیں اور سیاسی حل نکالیں۔ امن ہماری خواہش ہے مگر ہم سے زیادہ افغانستان کو  امن چاہیے۔ افغانستان میں بھی قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا ہے۔ افغانستان میں موجود گروہوں کو ایک میز پر لانے کیلئے علاقائی ممالک کو آگے بڑھ کر سہولت کار کا کردار ادا کرنا ہوگا۔

پاکستان کو چاہیے کہ وہ چین، روس، ایران، ترکی و دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر ان کو آپس میں بیٹھنے اور امن قائم کرنے پر قائل کرے۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں ہے کہ سہولت کاری کے بجائے ان کو ڈکٹیٹ کرنا شروع کردیں کہ اس طرح کی حکومت بناؤ اور ایسے بناؤ۔ اسی لیے حکومت پاکستان کہتی ہے کہ Afghan lead & Afghan owned پراسس ہونا چاہیے تاکہ وہ اپنے فیصلے خود کریں کہ کس طرح کی حکومت بنانی ہے اور کیسے آگے چلنا ہے۔ ایسا نظر آرہا ہے کہ آئندہ بننے والی افغان حکومت میں لفظ اسلامک تو ہوگاتاہم اس کی شکل کیا ہوگی، یہ معاملات تو بات چیت کے بعد طے ہونگے۔

اس حوالے سے بات چیت آسان نہیں ہے۔ افغانستان میں موجود طاقتور گروہوں کے درمیان دہائیوں کی لڑائی ہے، اعتماد کا فقدان ہے جنہیں دور ہونے میں وقت لگے گا۔ پاکستان نے پردے کے پیچھے اچھا کام کیا ہے، ہم نے سہولت کار کا کردار ادا کیا جو بہترین ہے۔ 90ء کی دہائی میں پاکستان اور ایران نے افغانستان کی اس وقت کی صورتحال میںسخت غلطیاں کیں۔ ہم طالبان کو جبکہ ایران نادرن الائنس کو سپورٹ کر رہا تھا۔ ہمیں سمجھناچاہیے کہ امریکا نے یہاں سے نکل جانا ہے مگر ہم یہاں ہی رہیں گے لہٰذا ہمیں مل کر افغانستان میں امن کیلئے کام کرنا ہوگا اور ماضی کی غلطیوں سے سیکھنا ہوگا۔

پروفیسر ڈاکٹر ارم خالد
(چیئر پرسن شعبہ سیاسیات جامعہ پنجاب )

دو حکومتوں کے درمیان ہونے والے معاہدے پائیدار اور قابل اعتماد ہوتے ہیں مگر امریکا، طالبان معاہدے میں طالبان صرف ایک گروہ ہیں اور یہاں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ افغان حکومت اور افغانستان میں موجود دیگر گروہ اس کاحصہ نہیں ہیں۔ یہ ایک بہت بڑا خلاء ہے لہٰذا اس پر عملدرآمد کے نتیجے میں افغان معاشرے میں شدید ردعمل آسکتا ہے۔  افغانستان میں00 24 امریکی جانیں گنوانے کے بعد اور آئندہ انتخابات میں بہتر پوزیشن کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ معاہدہ کیا ہے مگر دیکھنا یہ ہے کہ امریکی حکومت اس معاہدے کو کہاں تک لے کر چلے گی۔ 20 سالہ طویل افغان جنگ میں امریکا نے بہت کچھ گنوایا ہے، خود امریکا میں اس کے خلاف ردعمل آیا ہے بلکہ امریکی فوجیوں کے خاندانوں کا ردعمل شدید ہے۔

وہاں کے ماہرین نفسیات کا کہنا ہے کہ زخمی یا جاں بحق ہونے والے امریکی فوجیوں کے خاندانوں میں اس پر شدید تشویش پائی جاتی ہے اور ان کی طرف سے بھی دباؤ ہے کہ افغانستان سے فوج واپس بلائی جائے۔ ایک سوال یہ بھی اٹھ رہا ہے کہ کیا اس معاہدے پر عمل ہوجائے گا؟اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ معاہدے کے دونوں فریق اس پر عملدرآمد میں سنجیدہ ہیں تو سوال یہ ہے کہ کیا اسلحہ بردار گروہوں کو غیر مسلح کرنا کس طرح ممکن ہوگا؟ افغانستان کی وہ نسل جس نے پیدا ہوتے ہی اسلحہ اٹھایا اور اب وہ جوان ہے، وہ اسلحے کے بغیر خود کو کہاں محسوس کریں گے؟ یہ تو وہ لوگ ہیں جن کے پاس آ ج بھی افغانستان کا بیشتر حصہ ہے۔

ان کو غیر مسلح کرنے اور معاشرے میں شامل کرنے کے حوالے سے افغان حکومت نے کیا پالیسی بنائی ہے؟ افغان حکومت انہیں معاشرے میں کتنی جگہ دے گی؟ یہ معاہدہ صرف کاغذی حد تک ہوگا کیونکہ پہلے ہی مرحلے میں افغان حکومت اور طالبان میں قیدیوں کی رہائی کے حوالے سے اختلاف سامنے آگیا ہے۔جن قیدیوں کو بڑے جرائم کے تحت قید کیا گیا، ان کی فوری رہائی سے وہ کس طرح معاشرے کے کارآمد شہری بنیں گے؟ افغانستان کے مسائل کی وجہ سے پاکستان نے گزشتہ دہائیوں میں معاشی، معاشرتی اور سیاسی طور پر بہت بڑی قیمت ادا کی ہے۔ ہم ایک مسلسل جدوجہد میں ہیں۔ افغانستان میں بھارت نے ہمارے مخالف فنڈنگ کی، اس کے لوگ آج بھی وہاں موجود ہیں۔

پاکستان کی خواہش ہے کہ امریکا طالبان معاہدے کی تمام شقوں پر من و عن عمل ہوتاکہ ہم بھی اپنے اندرونی مسائل کے حل پر توجہ دیں لیکن بین الاقوامی تعلقات خواہشات پر نہیں چلتے۔ پاکستان کو اس معاہدے کے حوالے سے بہت سارے خدشات ہیں تاہم پاکستان کا اس سارے معاملے میں کردار اچھا رہا ہے۔ ہم نے اس معاہدے پر کوئی جذباتی ردعمل نہیں دیا جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری تیاری اچھی ہے۔ ہم محدود اور لاجیکل طریقے سے سارے معاملے کو دیکھ رہے ہیں اور پیش رفت کا جائزہ بھی لے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔