فوڈ سیکیورٹی کو یقینی بنانا سب سے بڑا چیلنج ہے

رضوان آصف  بدھ 25 مارچ 2020

 لاہور: پاکستان سمیت پوری دنیا کورونا وائرس کے تباہ کن چیلنج سے نبردآزما ہے اور تقریبا نصف سے زائدممالک میں لاک ڈاون ہے ،غیر ضروری کاروباری سرگرمیوں کو بند کر کے لوگوں کو گھروں تک محدود کیا جا چکا ہے ،پاکستان میں تاخیر کے ساتھ اور مرحلہ وار انداز میں لاک ڈاون کیا گیا ہے۔

طبی ماہرین تین ہفتے قبل وزیر اعظم عمران خان سے مکمل لاک ڈاون کا مطالبہ کر چکے تھے لیکن وزیر اعظم اس کیلئے آمادہ نہیں تھے ،تین روز قبل وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ نے سندھ میں مکمل لاک ڈاون کا اعلان کیا تو اسی روز وزیر اعظم عمران خان نے قوم سے خطاب میں ایک مرتبہ پھر لاک ڈاون نہ کرنے کا اعلان کیا لیکن اپنے خطاب سے اگلے روز ہی پنجاب میںبھی لاک ڈاون کردیا گیا ہے جو کہ 14 روز تک جاری رہے گا لیکن پنجاب کا لاک ڈاون سندھ کے لاک ڈاون سے مختلف ہے، سندھ میں لوگوں کی بلا جواز نقل و حرکت روکنے کیلئے سخت ترین اقدامات کیئے گئے ہیں اور بعض مقامات پر پولیس کی جانب سے لاک ڈاون کی خلاف ورزی کرنے والے افراد پر تشدد بھی کیا گیا ہے لیکن پنجاب میں لاک ڈاون کے پہلے روز کاروباری مراکز میں تو سو فیصد لاک ڈاون دیکھنے میں آیا لیکن سڑکوں پر لوگوں کی آمدو رفت میں نمایاں کمی نہیں آئی ہے جبکہ گلی محلوں کے چھوٹے پارکوں میں بچے کرکٹ کھیلتے دکھائی دیئے۔

پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہاں کا سماجی رویہ بھی دیگر صوبوں سے بالکل مختلف ہے۔ پنجاب حکومت کا لاک ڈاون اسی وقت کامیا ب ہو سکتا ہے جب لوگوں کی سڑکوں پر نقل و حرکت کو زبردستی محدود کیا جائے۔وزیر اعظم لاک ڈاون کی مخالفت کی سب سے بڑی وجہ اس خدشے کو قرار دے رہے تھے کہ لاک ڈاون کی صورت میں 25 فیصد غریب عوام کیلئے خوراک و دیگر ضروریات زندگی کا حصول نہایت مشکل ہو جائے گا۔ان کا یہ خدشہ اپنی جگہ درست ہے کیونکہ ہماری مجموعی آبادی کا 25 فیصد دیہاڑی دار ہے اور وہ دن میں جو کماتے ہیں اسی سے اس دن کی خوراک خریدتے ہیں ۔ تمام دنیا میں جہاں لاک ڈاون ہو چکا ہے اور جہاں ابھی نہیں ہوا ہر جگہ حکومت وقت کیلئے سب سے بڑا چیلنج عوام کے غذائی تحفظ کو یقینی بنانا ہے کیونکہ یہ خطرہ موجود ہے کہ اگر خوراک کی قلت ہوتی ہے تو قلت کا شکار لوگ دکانوں اور مالدار افراد کے گھروں پر دھاوا بول سکتے ہیں۔

پاکستان کی یہ خوش قسمتی ہے کہ یہ ایک زرعی ملک ہے اور اللہ تعالی نے اسے ہر زرعی جنس سے مالامال کیا ہے ،سبزیاں،پھل، گندم، چاول، چینی ،دالیں ہر شے وافر پیدا ہوتی ہے لیکن حکومت کیلئے چیلنج یہ ہے کہ مالدار طبقے کی جانب سے گھبراہٹ میں کی جانے والی بڑی خریداری کے باعث عوام کی اکثریت غذائی اشیاء سے محروم نہ رہ جائے یا پھر اسے مہنگے داموں یہ اشیاء نہ خریدنی پڑیں کیونکہ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران پنجاب میں جس انداز میں PANIC BUYING کی گئی ہے وہ بہت الارمنگ ہے۔

صاحب حیثیت طبقہ نے اپنے گھروں میں کئی کئی ماہ کا راشن ذخیرہ کر لیا ہے حالانکہ حکومت چیخ چیخ کر بتا رہی ہے کہ ملک میں تمام غذائی اجناس کے تسلی بخش اور وافر سٹاکس موجود ہیں جبکہ لاک ڈاون کے دوران کھانے پینے سے متعلقہ دکانیں اور کارخانے کھلے رہیں گے لیکن اس کے باوجود عوام سٹورز پر ٹوٹ پڑے ہیں ،یہاںتک کہ ایک دوسرے سے ادھار رقم لیکر اضافی راشن ذخیرہ کیا جا رہا ہے۔اس تمام افراتفری اور گھبراہٹ کے ماحول میں حکومت کیلئے فوڈ سیکیورٹی کو یقینی اور مستحکم بنانے کی ذمہ داریاں مزید بڑھ گئی ہیں اور متعلقہ محکمے اس حوالے سے غیر معمولی اقدامات کر رہے ہیں جو کہ خوش آئند ہے ۔پنجاب کی بات کی جائے تو پورے ملک کی گندم ضروریات کا 70 فیصد سے زائد یہاں سے مہیا ہوتا ہے۔آئندہ تین سے پانچ روز میں پنجاب میں گندم کی خریداری مہم شروع ہونے والی ہے۔

سیکرٹری فوڈ پنجاب وقاص علی اور ڈائریکٹر فوڈ پنجاب واجد علی شاہ نے کورونا وائرس سے بچاو کے تمام تر ممکنا حفاظتی اقدامات کو یقینی بناتے ہوئے یکم اپریل سے کسانوں کو باردانہ جاری کرنے کی تیاری مکمل کر لی ہے ۔موجودہ حالات کے پیش نظر مستقبل کے چیلنجز کا ادراک کرتے ہوئے 45 لاکھ ٹن گندم کی خریداری کا ہدف سو فیصد حاصل کرنے کا بندوبست بھی کر لیا گیا ہے۔

عوام کی جانب سے راشن کی غیر معمولی خریداری کے سبب ڈائریکٹر فوڈ نے آٹے کی سپلائی اور دستیابی کو مستحکم رکھنے کیلئے حکمت عملی لاگو کی ہے اور خوش آئند امر یہ ہے کہ ایک ایک فرد کی جانب سے دو یا اس سے زائد تھیلے آٹا خریدنے کے باوجود کہیں بھی آٹے کی قلت پیدا نہیں ہوئی ۔لاہور کے 6 بڑے سٹورز کی جانب سے اپنے مالی مفادات کے سبب کچھ بد نظمی پیدا کرنے کی کوشش کی گئی تھی جسے محکمہ خوراک پنجاب نے ناکام بنا دیا ہے۔زیادہ منافع کی خاطر ان سٹورز پر فروخت ہونے والے چند معروف برانڈز کے آٹے کی سپلائی کم ہونے کے بعد سٹور انتظامیہ نے دیگر برانڈز کا آٹا رکھنے سے انکار کردیا تھا جس کے سبب شہریوں کو دشواری کا سامنا تھا۔

سیکرٹری اور ڈائریکٹر فوڈ کے ہنگامی اقدامات کے بعد ڈپٹی ڈائریکٹر فوڈ لاہور ڈویڑن کی نگرانی میں میگا سٹورز پر مختلف برانڈز کا آٹا رکھوا دیا گیا ہے جبکہ سٹور انتظامیہ کو حتمی وارننگ دی گئی ہے کہ انہوں نے آٹا رکھنے سے انکار کیا تو ان کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے گا جبکہ میگا سٹورز کے باہر مختلف فلورملز کے آٹے سے بھرے ٹرک بھی کھڑے کیئے گئے ہیں تا کہ لوگوں کو آٹے کے حصول میں کوئی دشواری پیش نہ آئے جبکہ پاکستان فلورملز ایسوسی ایشن کے مرکزی چیئرمین عاصم رضا نے ملک بھر کے فلور مل مالکان کو بھی ایک پیغام میں ہدایت کی ہے کہ یہ ایک عالمی ایمرجنسی کی صورتحال ہے اور پاکستانی عوام کے وسیع تر مفاد اور حکومت کی کاوش میں شریک ہونے کیلئے تمام ملز اپنے علاقوں میں آٹے کی دستیابی کو ہر صورت مستحکم بنائیں اور آٹے کی قیمتوں میں اضافہ نہ ہونے دیا جائے۔

سبزیوں پھلوں کی دستیابی کو مستحکم بنانے کیلئے وزیر زراعت پنجاب ملک نعمان لنگڑیال اور سیکرٹری زراعت واصف خورشید نے مارکیٹ کمیٹیوں کے ذریعے ہنگامی پلان تیار کیا ہے اور تسلی بخش امریہ ہے کہ سبزیوں پھلوں کی دستیابی معمول کے مطابق ہے تاہم چند مقامات پر بعض اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے جسے روکنے کیلئے پرائس مجسٹریٹس کو متحرک کیا گیا ہے ۔سبزی پھل او رغلہ منڈیاں بہت زیادہ پر ہجوم مقامات ہوتے ہیں اس لیئے کورونا وائرس کے پھیلا وکا خظرہ بھی یہاں زیادہ ہے۔

حکومت کو منڈیوں میں کورونا وائرس سے بچاو کیلئے غیر معمولی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے ،ابھی تک مارکیٹ کمیٹیوں کی جانب سے کیئے جانے والے اقدامات ناکافی اور غیر تسلی بخش ہیں۔اشیائے خورونوش کی ذخیرہ اندوزی اور مصنوعی مہنگائی کوروکنے کیلئے وزیر صنعت پنجاب میاں اسلم اقبال کو نہایت سخت اقدامات کرنے کی ضرورت ہے انہوں نے کورونا وائرس کے خلاف پنجاب حکومت کے اقدامات میں اہم کردار ادا کیا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ پرائس مجسٹریٹس کو پوری طاقت کے ساتھ فعال کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔