کرونا وباء پر حکومت اور اپوزیشن میں پھر ٹکراؤ

رضا الرحمٰن  بدھ 25 مارچ 2020

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کی متحدہ اپوزیشن اور جام حکومت کے درمیان اچھے تعلقات کی خبروں کو شاید ایک مرتبہ پھر نظر لگ گئی ہے۔ کرونا وائرس کے خلاف جام حکومت اور اپوزیشن جماعتوں نے جس طرح سے مل کر لڑنے کا پیغام دیا تھا اور عوامی حلقوں میں اس پیغام کو پذیرائی بھی ملی تھی، مگر چند دنوں میں ہی دوبارہ ان میں اُس وقت دوری نظر آئی جب متحدہ اپوزیشن کے رہنماؤں نے کرونا وائرس کے خلاف حکومتی اقدامات کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے صوبائی اسمبلی کے اجلاس کے انعقاد کیلئے ریکوزیشن جمع کرانے کا اعلان کیا۔ متحدہ اپوزیشن کے رہنماؤں کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے کرونا وائرس کی روک تھام کیلئے جو فیصلے کئے ہیں اُس میں اپوزیشن کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

جام حکومت کے غلط فیصلوں کے باعث کرونا وائرس کے ملک بھر میں پھیلاؤ کے حوالے سے جو داغ بلوچستان پر لگا ہے اُسے کبھی بھی دھو نہیں سکیں گے۔ اُن کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبائی حکومت کرونا وائرس کی روک تھام کیلئے بنیادی ضروریات کے آلات اور ادویات تک فراہم نہیں کرسکی ہے لہٰذا اُسے فوری طور پر ان بنیادی آلات اور ادویات سمیت دیگر اشیاء کیلئے5 سے10 ارب روپے مختص کرنے چاہئیں۔ اسی طرح مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس بُلا کر اُس میں وزیراعظم سے بلوچستان کیلئے خصوصی پیکج کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

شہر کے اندر گنجان آبادی میں کورنٹائن بنانے سے گریز کرنا چاہیے اور پی ڈی ایم اے کو اب تک جو فنڈز جاری کئے گئے ہیں اُن کے اخراجات کی تحقیقات کرائی جانی چاہیے۔ متحدہ اپوزیشن نے صوبائی حکومت کی جانب سے کرونا وائرس کی روک تھام کیلئے کئے گئے اقدامات اور فیصلوں پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے انہیں حکومت کی نا اہلی سے تعبیر کیا اور یہ اعلان کیا کہ متحدہ اپوزیشن نے جام حکومت کی اس نا اہلی پر بلوچستان اسمبلی کا اجلاس ریکوزٹ کرکے اس پر بحث کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بعد ازاں متحدہ اپوزیشن کی جانب سے بلوچستان اسمبلی کے اجلاس کیلئے ریکوزیشن بھی جمع کرائی گئی تاہم اس ریکوزیشن پر اسپیکر بلوچستان اسمبلی میر عبدالقدوس بزنجو نے اپوزیشن سے گزارش کی کہ وہ اس ریکوزیشن کو واپس لے کیونکہ ملک میں کرونا وائرس کے حوالے سے ایمرجنسی نافذ ہے اور ہم عوام کو یہ ترغیب دے رہے ہیں کہ دس سے زائد افراد ایک جگہ پر اکٹھے نہ ہوں اور ہم اس کی خود خلاف ورزی کریں کیونکہ اجلاس میں ارکان اسمبلی سمیت سٹاف اوروزیٹر بھی آئیں گے سینکڑوں افراد کا ہجوم ہوگا جو کہ مناسب نہیں اور یہ عمل کسی خطرے سے خالی نہیں۔ اسپیکر بلوچستان اسمبلی نے ریکوزیشن واپس لینے کی درخواست کے ساتھ اپوزیشن کو تحریری مراسلہ ارسال کردیا ہے۔

تاہم متحدہ اپوزیشن نے ان کی اس درخواست کو مسترد کرتے ہوئے ریکوزیشن واپس لینے سے انکار کرتے ہوئے یہ موقف اختیار کیا ہے کہ اپوزیشن چاہتی ہے کہ بلوچستان میں کرونا وائرس سے بچاؤ کیلئے مشترکہ لائحہ عمل اپنایا جائے اور اراکین اسمبلی سے کرونا وائرس کی روک تھام کے حوالے سے رائے اور تجاویز لی جائیں متحدہ اپوزیشن کے لیڈر ملک سکندر خان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اسمبلی اجلاس بلانے میں کوئی قباحت نہیں ویسے بھی اجلاس ہوتے رہتے ہیں اسمبلی کے اندر اور باہر لوگ ایک دوسرے سے فاصلے پر ہی ہوتے ہیں اورمتحدہ اپوزیشن نے یہ ریکوزیشن بڑی سوچ سمجھ کر دی تھی اور اب ہم نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ ہم اسے قطعاً واپس نہیں لیں گے۔

سیاسی مبصرین کے مطابق متحدہ اپوزیشن کی جانب سے کرونا وائرس کے حوالے سے جام حکومت پر تنقید کے بعد بعض صوبائی وزراء اور حکومتی اراکین نے بھی اپنے شدید ردعمل کا اظہار کیا اور اپوزیشن کے رویئے کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے اسے صرف فوٹو سیشن اور عملی طور پر کوئی کردار ادا نہ کرنے سے تعبیر کیا جس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ جس تیزی سے کرونا وائرس کی وباء پر مل کر کام کرنے کے حوالے سے متحدہ اپوزیشن اور حکومت ایک پیج پر دکھائی دے رہے تھے اتنی ہی تیزی سے ان میں دوریاں پیدا ہوتی نظر آرہی ہیں اور اب صورتحال پوائنٹ آف نوریٹرن پر پہنچ چکی ہے گلے شکوے اپنی جگہ لیکن تند و تیز بیانات نے صوبے کے سیاسی ماحول میں ایک مرتبہ پھر گرمی پیدا کردی ہے اور جس طرح سے اپوزیشن اسمبلی کا اجلاس بلا کر کرونا وائرس کے حوالے سے حکومت کو ہر زاویئے سے تنقید کا نشانہ بنانے کا ارادہ رکھتی ہے اسی طرح حکومت اس اجلاس کے انعقاد سے گریزاں ہے۔

دوسری جانب بلوچستان میں کرونا وائرس کے کیسز میں اضافے سے جہاں حکومت میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے وہاں سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی تمام سیاسی سرگرمیوں کو معطل کرنے کا اعلان کیا ہے اور اس مشکل وقت میں اپنی تمام سیاسی مخالفت کو بالائے طاق رکھ کر صوبائی حکومت کے ساتھ بھرپور تعاون کرنے کی یقین دہانی کرائی ہے جبکہ عوام کو احتیاطی تدابیر سے آگاہی کیلئے سیاسی جماعتوں، غیر سیاسی تنظیموں، این جی اوزاور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے مخیر حضرات میدان میں اُترے ہیں اور آگاہی مہم میں حصہ لے رہے ہیں۔ صوبائی حکومت نے بھی کرونا وائرس کی روک تھام کیلئے ماہرین طب اور پبلک ہیلتھ ایکسپرٹس کی مشاورت سے قرنطینہ اور آئسولیشن کے حوالے سے اقدامات کرنے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ علماء اور سماجی و قبائلی رہنماؤں سے بھی عوام میں شعور اُجاگر کرنے میں مدد لی جائے گی۔

حکومتی سطح پر ان اقدامات کے یقیناً مثبت نتائج برآمد ہو رہے ہیں تاہم عوام میں گزرتے دنوں کے ساتھ خوف پھیلتا جارہا ہے سیاسی حلقوں کا یہ کہنا ہے کہ مصیبت کی اس گھڑی میں من حیث القوم ہمیں متحد ہو کر کرونا وائرس کے خلاف لڑنا ہوگا۔ متحدہ اپوزیشن کو بھی چاہیے کہ وہ صوبے کے بہتر مفاد میں حکومت کا ساتھ دے اور اُس کے اقدامات پر کڑی نگرانی رکھے اور حکومت کو بھی چاہیے کہ وہ متحدہ اپوزیشن کو اپنے تمام فیصلوں میں اعتماد میں لے۔ تنقید برائے تنقید کے بجائے تنقید برائے تعمیر کے فارمولے کو اپنایا جائے کیونکہ متحد ہو کر ہی اس جنگ کو جیتا جاسکتا ہے۔ آج اگر ہمارے عوامی نمائندوں نے اپنی ذمہ داری اور فرائض کو سمجھتے ہوئے اپنے رویوں میں تبدیلی نہیں لائی اور سیاسی پوائنٹ سکور کرنے کی کوشش کی تو یقیناً صوبے کی سیاسی تاریخ میں مصیبت کی اس گھڑی کو ان کے غیر ذمہ دارانہ رویوں کے باعث اچھے الفاظ میں یاد نہیں کیا جائے گا جو کہ ہمارے صوبے کی روایتی اور قبائلی سیاست کو بھی داغدار کرسکتا ہے جس کی ایک اپنی مثالی تاریخ ہے۔

لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں اطراف سے لچک پیدا کی جائے پوائنٹ اسکورنگ کی پالیسی سے گریز کیا جائے اور رویوں میں مثبت تبدیلی لائی جائے تاکہ صوبے کی شاندار روایتی اور قبائلی سیاست نہ صرف برقرار رہے بلکہ ایک نئی تاریخ رقم ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔