کورونا کا پھیلاؤ، ملکی معیشت کے لیے خطرناک

ایڈیٹوریل  پير 30 مارچ 2020
کورونا وائرس کے خلاف ہم بحیثیت قوم حالت جنگ میں ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کورونا وائرس کے خلاف ہم بحیثیت قوم حالت جنگ میں ہیں۔ (فوٹو: فائل)

کورونا وائرس کے خلاف حکومتی سطح پر ہر طرح کے حفاظتی اقدامات روزانہ کی بنیاد پر اٹھائے جارہے ہیں۔ ملک کی سرحدیں مزید دو ہفتے کے لیے بندکر دی گئی ہیں، بیرون ملک جانیوالی پروازوں پر بھی چاراپریل تک پابندی عائد ہے۔

صورتحال روز بروز سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ ملک میں کورونا وائرس سے مزید 3 افراد چل بسے،جس کے بعد اس جان لیوا وائرس سے انتقال کرنے والوں کی تعداد 16تک پہنچ گئی ہے۔ تصدیق شدہ مریضوں کی تعداد ڈیڑھ ہزار سے بھی تجاوزکرچکی ہے، جب کہ وفاقی مشیر صحت کے مطابق ملک میں بارہ ہزارمشتبہ مریض موجود ہیں۔

ملک بھر میں اب تک کورونا وائرس کے 28مریض صحت یاب ہوچکے جب کہ 11 افراد کی حالت تشویشناک ہے، پورے ملک سمیت آزادکشمیرمیں بھی لاک ڈاؤن جاری ہے، جس کا واضح مقصد ہے کہ عوام گھروں پر رہیں اور اس وبا کے پھیلاؤ سے محفوظ رہیں۔

دوسری جانب آئی ایس پی آرکے مطابق پاک فوج کے دستے ملک بھرمیں کورونا وائرس سے عوام کو بچانے کے لیے سول انتظامیہ کی بھرپور معاونت کررہے ہیں۔ پاک فوج کی جانب سے4 ہزارمشتبہ کوروناکیسزکی ٹریکنگ کی گئی ہے ، ملک بھر میں قائم 182قرنطینہ مراکز پر بھی آرمی کی جانب سے سول انتظامیہ کی بھرپور معاونت کا سلسلہ جاری ہے۔

اس مشکل وقت پر پاک فوج کی کاوشیں لائق تحسین ہیں۔ عالمی مالیاتی فنڈ نے وزیر اعظم عمران خان کے کورونا ریلیف پیکیج کی تعریف کی ہے۔ یہ خبر خوش آیند ہے کہ پاک فضائیہ کا طیارہ چین سے امدادی سامان لے آیا ہے۔چینی حکومت نے یہ امدادی سامان ملک میں اس مہلک وبا سے موثر طریقے سے نمٹنے کے لیے پاکستان کو بطور عطیہ بھیجا ہے۔ 14 ٹن امدادی سامان میں وینٹی لیٹر ، ماسک اورحفاظتی لباس شامل ہیں۔ چین ہمارا سچا اور مخلص دوست ہے اور اس نے ہر مشکل وقت میں ہمارا ساتھ دیا اور اب بھی دے رہا ہے۔

پہلے ہی سے معاشی بحران میں گھری وفاقی حکومت کے لیے کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال کے باعث آیندہ مالی سال کے بجٹ کی تیاری میں بھی مزید مشکلات پیدا ہونے کے امکانات واضح نظر آ رہے ہیں۔ رواں مالی سال کے لیے تمام اقتصادی اہداف متاثر ہونے کی وجہ سے اگلے بجٹ کے حوالے سے اقتصادی اہداف کے تعین میں بھی مشکلات کا حائل ہونا خارج از امکان نہیں۔

کورونا سے پیدا ہونے والی صورتحال سے ملکی معیشت کو 1300 ارب روپے سے زائد نقصان پہنچنے کا اندازہ لگایا گیا ہے، جب کہ عالمی ریٹنگ کے ادارے موڈیزکی پیشگوئی کے مطابق رواں مالی سال کے دوران پاکستان کی شرح نمو 2.9 فیصد کے بجائے 2.5 فیصد رہے گی۔ یہ گھمبیر معاشی صورتحال آنے والے طوفان کا پیش خیمہ ہے کیونکہ ایک جانب توکورونا وائرس کے پھیلاؤ سے انسانی زندگیوں کی بقا کا مسئلہ درپیش ہے تو دوسری جانب ملکی معیشت بیٹھ جانے کے امکانات ہمارے لیے نئے مسائل جنم دے سکتے ہیں۔ ہمیں ایسی حکمت عملی پر ابھی سے غورکرنا چاہیے کہ ملکی معیشت کسی نہ کسی طور بہتری کی جانب رواں ہو، اس بحرانی کیفیت میں دوست ممالک سمیت ، عالمی اداروں کو بھی ہمارا خیال رکھنا ہوگا۔

وزیر اعظم کی زیرصدارت اجلاس میں کورونا ٹائیگر پروگرام میں اٹھارہ سال سے زائد عمرکے صحت مند نوجوانوں کو بطور رضاکار شامل کرنے کا عندیہ دیا گیا ہے۔ یہ رضاکار قرنطینہ مراکزکے انتظامات ، ذخیرہ اندوزوں کی نشاندہی کریں گے جس پر انتظامیہ اور پولیس فوری کارروائی کی پابند ہوں گی۔ یہ بھی ایک مستحسن اقدام ہے جسے سراہا جانا چاہیے۔

گڈز ٹرانسپورٹر تنظیموں کے رہنماؤں نے وزیر اعظم سے درخواست کی ہے کہ وہیکل ٹیکس اور روٹ پرمٹ فیس میں کم ازکم 6 ماہ کے لیے ریلیف کا اعلان کریں، کیونکہ وہ اپنی جان کی پرواہ کیے بغیر پورے ملک کے طول وارض میں اشیائے خورونوش اورجان بچانے والی ادویات کی ترسیلات جاری رکھے ہوئے ہیں۔ یہ ایک صائب مطالبہ ہے جس پر وزیراعظم کو گڈزٹرانسپورٹر کو ریلیف دینے کے لیے فوری اقدامات کرنا چاہیے۔

ایک جانب توکورونا وائرس کے سبب اموات کا سلسلہ رکنے کا نام نہیں لے رہا اور روزانہ کی بنیاد پر اس کے مریضوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ملک میں لاک ڈاؤن ہے لیکن منافع خور مافیا سرگرم ہے۔ لاہور میں دکانوں ، مارکیٹوں اور چکیوں پر آٹا نایاب ہوگیا ہے۔ چکی مالکان کا کہنا ہے کہ گندم مہنگی ہوگئی اور سپلائی کم آرہی ہے،آٹے کی جتنی مقدار ملتی فوری بک جاتی ہے۔

شہر میں دالوں کی قیمتوں میں 32روپے سے 58 روپے فی کلو تک کا اضافہ کر دیا گیا ہے۔ دال چنا 118 روپے سے بڑھ کر 150روپے کلو ہوگئی۔دال ماش 42روپے اضافہ کے ساتھ 240روپے کلو میں فروخت کی جارہی ہے جب کہ دال مونگ کی قیمت میں 58روپے فی کلو اضافے کے بعد نئی قیمت 260 روپے فی کلو ہوگئی ہے۔چینی فی کلو 10روپے اضافے کے ساتھ 75کے بجائے 85روپے کلو بکنے لگی ہے ۔ یہ صرف لاہورکی صورتحال نہیں بلکہ پورے ملک میں منافع خورمافیا سرگرم عمل ہے۔ جس کے خلاف وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو فوری اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے۔

پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں13 ہزار 380افراد کے کورونا ٹیسٹ کیے گئے جن میں 557افراد کے ٹیسٹ پازیٹو آئے، باقی 12ہزار 823افراد کے ٹیسٹ نگیٹو آئے ،557کورونا کے کنفرم مریضوں میں سے 282 زائرین ہیں جو ڈی جی خان اور ملتان میں قرنطینہ میں رکھے گئے۔ حکومت پنجاب بھی کورونا وائرس کے خلاف بھرپورانداز میں لڑرہی ہے، ساٹھ فی صد سے زائد آبادی والے صوبے میں حفاظتی انتظامات کو بروئے کار لانا آسان نہیں بلکہ انتہائی مشکل عمل ہے۔

آئی جی سندھ مشتاق مہر نے  پولیس افسران کو لاک ڈاؤن سے متعلق نئی ہدایات جاری کرتے ہوئے کہا کہ گڈز ٹرانسپورٹ ملکی معیشت کے لیے ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے اسے نہ روکا جائے،گڈزکی ترسیل میں شہریوں کوکسی قسم کی پریشانی نہیں ہونی چاہیے۔ ان کی ہدایات درست اور بروقت ہیں لیکن یہاں ہم وزیراعلیٰ سندھ اور صوبائی حکومت کی توجہ کراچی سمیت سندھ بھر میں لاک ڈاؤن کے دوران پولیس کے نامناسب رویے پربھی دلانا چاہتے ہیں۔

بعض پولیس اہلکاروں اور افسران کی جانب سے شہریوں پر تشدد ، بد زبانی، بدکلامی اور انھیں مرغا بنانے کے واقعات میڈیا میں بہت زیادہ رپورٹس ہورہے ہیں۔ اس وقت جب ملک مشکل صورتحال سے گزر رہا ہے پولیس کا شہریوں پر تشدد یا ان سے ناروا سلوک مناسب طرز عمل نہیں ، یہ شہریوں کی عزت نفس کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔ لہذا اس صورتحال کے تدارک کے لیے اقدامات اٹھائے جائیں۔

ایک خبرکے مطابق حکومت سندھ نے مساجد میں نمازجمعہ کے اجتماع کی پابندی کی خلاف ورزی کرنے والے پیش اماموں اور مساجدکی انتظامیہ کے خلاف مختلف تھانوں میں35 سے زائد مقدمات درج کرنے کے بعد کئی علماء کو تاحال گرفتارکر رکھا ہے جب کہ کچھ ضمانت پر رہا ہوئے ہیں۔

علمائے کرام کا ہمارے دین اور معاشرے میں بہت اعلیٰ مقام ہے، لہذا ایسے اقدامات اٹھاتے ہوئے احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا جائے۔ اس نازک موقعے پر حکومت عوام کے اندر زیادہ سے زیادہ وائرس کے پھیلاؤ سے ہونیوالے نقصانات اور ان سے بچاؤ کے لیے آگاہی مہم کو مزید موثر بنائے، جب عوام کو خود سمجھ آئے گی کہ یہ سب کچھ ان کی جانوں کے تحفظ کے لیے کیاجا رہا ہے تو وہ زیادہ تعاون کریں گے۔

آزاد کشمیر میں مزید 4 مریضوں میں کورونا وائرس کی تصدیق کردی گئی ہے ،کورونا وائرس کی پنجاب میں 558 افراد، سندھ میں481، خیبر پختون خوا میں 188، بلوچستان میں 138، گلگت بلتستان میں 116اور اسلام آباد میں 43 افراد میں تصدیق ہوئی ہیں۔

کورونا وائرس سے پھیلے خوف و ہراس کے باوجود ماہرین صحت نے کورونا وائرس کی مضبوط نظام مدافعت ( امیون سسٹم) سے شکست دیے جانے کی نوید سنا دی ہے،کورونا وائرس کا شکار ہوکر صحت یاب ہونے والوں کا پلازما لے کرکورونا وائرس پازٹیو کے مریضوں میں منتقلی سے انھیں کورونا سے مکمل طور پر نجات دلائی جاسکتی ہے۔ اس اہم ترین منصوبے پر سندھ اور پنجاب میں پیش رفت شروع ہوچکی ہے جس کے لیے دوسو افراد کو پلازما لگائے جانے کے پائلٹ پراجیکٹ کی تیاری بھی مکمل کرلی گئی ہے۔ آنے والے دنوں میں ہمیں ایسی مثبت خبروں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔

یہ بات انتہائی تشویش ناک ہے کہ پاکستان کی معاشی شرح نمو 2 اعشاریہ5 فیصد ہوگی۔ اس کی وجوہات میں طلب میں کمی ہونے سے معاشی ترقی کی شرح متاثر ہونا بتائی گئی ہے،کراس باڈر ٹریڈ اور سپلائی چین میں تعطل ہے، عالمی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں کم ہوگئی ہیں، تیل برآمد کرنے والے ممالک کے لیے مشکلات ہیں۔ ہمارے معاشی ماہرین کو سر جوڑکر بیٹھنا اور ملک کو معاشی بحران سے نکالنے کے لیے اقدامات پر غورکرنا ہوگا۔

حکومتی سطح پر بارڈ بندکرنے کے فیصلے میں تساہل برتنے کے سبب ایران اور افغانستان سے متاثرہ مریضوں کی بڑی تعداد پاکستان آئی اور ملک بھر میں پھیل گئی، حکومت فضائی حدود بھی بروقت بند کرنے کا فیصلہ نہ کرسکی، جس کی وجہ سے دنیا بھر سے متاثرہ مریض پاکستان آتے رہے۔

حکومت بارڈرپر قرنطینہ مراکز قائم کرنے میں ناکام رہی، یوں بیرونی ممالک سے آنیوالے پاکستانیوں نے اپنے ہم وطنوں کو مشکل میں ڈال دیا۔کورونا وائرس کے خلاف ہم بحیثیت قوم حالت جنگ میں ہیں۔ اس موقعے پر ہمیں اپنے اندرونی اختلافات ،کمزوریوں اورکوتاہیوں پر قابو پانے کی اشد ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔