کورونا، دنیا تبدیل ہو جائے گی

زمرد نقوی  پير 30 مارچ 2020
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ کورونا وائرس کی وبا کا اگلا عالمی مرکز امریکا بن سکتا ہے۔امریکی صدر ٹرمپ نے کہا ہے کہ وہ ایسٹر کے موقعہ پر چاہتے ہیں کہ گرجا گھر بھرے ہوئے نظر آئیں۔

ٹرمپ نے کہا کہ مسلسل لاک ڈاؤن سے امریکا تباہ ہوسکتا ہے۔ امریکا شٹ ڈاؤن کے لیے نہیں بنا تھا اس طرح ہم اپنا ملک خود تباہ کررہے ہیں۔فلو سے ہزاروں امریکی مرتے ہیں لیکن ہم ملک کو بند نہیں کرتے۔ اس سے زیادہ لوگ حادثات میں مرتے ہیں لیکن ہم کاریں بنانا بند تو نہیں کرتے۔

نیو یارک کے میئر نے کہا ہے کہ مجھ سمیت کروڑوں امریکیوں کو سمجھ نہیں آرہی کہ ٹرمپ کورونا کے خاتمے کے لیے کیا کر رہے ہیں۔ڈاکٹر، نرسیں اور دیگر طبی عملے کو ضروری حفاظتی آلات یہاں تک کہ ماسک تک میسر نہیں۔واشنگٹن کو پچاس ہزار بیڈز کے اسپتال کی ضرورت ہے۔

پینٹاگون نے کہا ہے کہ یہ وائرس امریکا میں اگلے کئی ماہ مزید پھیلے گا۔پینٹا گون کا کہنا تھا کہ کورونا وائرس نے دنیا کے بیشتر ملکوں میں سیاسی ابتری پھیلا دی ہے۔ٹرمپ کی تجویز پر کلورو کوئین استعمال کرنے کے باوجود ایک امریکی شہری ہلاک اور اس کی اہلیہ کی حالت تشوناک ہے۔ جب کہ ٹرمپ کے اس نادر مشورہ کے بعد دنیا بھر میں اس دوا کی طلب میں اضافہ ہوگیا ہے۔

فرانس کے وزیراعظم نے فرانس میں لاک ڈاؤن میں مزید دوہفتے کی توسیع کردی ہے۔ بقول ان کے مشرقی فرانس تو کورونا وائرس میں ڈوب چکا اور اب شمالی فرانس ڈوبنے جارہا ہے۔جرمنی نے وائرس کے بڑھتے ہوئے پھیلاؤ اور اموات کے نتیجے میں جنوبی کوریا ماڈل اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔یعنی شہریوں کا زیادہ سے زیادہ کورونا ٹیسٹ اور مثبت نتیجہ سامنے آنے پر  گھر کو قرنطینہ قرار دے دیا جائے۔

ٹرمپ صاحب نے اپنے تازہ بیان میں اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ امریکا اگست میں اس وائرس پرقابو پالے گا یعنی آج سے پانچ مہینے کے بعد ایک اندازے کے مطابق اس وقت تک کم ازکم دس لاکھ امریکن اس وائرس میں مبتلا ہوچکے ہوں گے۔27 مارچ کو اٹلی میں اس وائرس سے  ہلاکتوں کی بلند ترین تعداد ایک دن میں 1969 ہوگئی۔ یہ دنیا میں اب تک ایک ریکارڈ ہے۔اٹلی کے سماجی امور کے سربراہ نے بھی کہا ہے کہ ہمیں نہیں پتہ کہ اس وقت اٹلی میں اس وائرس سے مبتلا ہونے کی حقیقی تعداد کیاہے  ہوسکتاہے کہ یہ 6 لاکھ تک پہنچ گئی ہو۔

پاکستان میں بھی لاک ڈاؤن کی سختی بتدریج مرحلہ وار بڑھتی چلی جائے گی۔سندھ اور پنجاب میں یہی کچھ ہورہا ہے اگر لوگ باز نہ آئے تو پھر قوم کو کورونا کی سخت آزمائش سے گذرنا پڑے گا۔ ڈنڈے کے یار پھر ڈنڈے سے ہی باز آئیں گے۔یہ مسائل ہم جیسے ترقی پذیر ملکوں وہاں تعلیم اور شعور کی شدید کمی ہے۔وہاں ترقی یافتہ اٹلی وغیرہ بھی مسائل سے دوچار ہیں۔کورونا وائرس کے بارے میں ایک نئی تحقیق سامنے آئی ہے یہ وائرس کسی بھی سطح پر 17 دن تک زندہ رہ سکتاہے۔

امریکی تحقیقی ادارے نے دو بحری جہازوں پر تحقیق کی جن میں 800 سے زیادہ کیسز اور 10 اموات ہوئی تھیں۔ جن سے یہ نتیجہ اخذ ہوا۔پنجاب حکومت نے ایک حکم جاری کیا ہے کہ جس میں کورونا سے جاں بحق ہونے والے کا جسم چھونے سے منع کیا گیا ہے۔مرنے والے شخص کو غسل دیے والوں کے لیے حفاظتی کٹ پہننا اور لاش کو خصوصی تابوت میں رکھا جائے گا۔اس کے علاوہ لاش کو کلورین  سے پاک اور اس کو لازمی طور پر پلاسٹک بیگ میں لپیٹا جائے۔ لاش گھر نہیں براہ راست قبرستان جائے گی اور اس کی تدفین محکمہ صحت کی خصوصی ٹیم خود کرے گی۔

جو لوگ کوروناکو مذاق لے رہے ہیں۔انھیں نہیں  پتہ کہ اس کا نتیجہ درد ناک موت کی شکل میں نکلے گا۔ یہ وائرس نظام تنفس پر اثر انداز ہوکر پھیپھڑوں کو ناکارہ  کر دیتاہے۔ جب بھی مریض سانس لیتاہے اسے شدید درد ہوتاہے وہ چیخ چیخ کر روتا اور موت مانگتا ہے لیکن جان آسانی سے نہیں نکلتی یاد رہے کہ یہ انتہائی تکلیف دہ اور عبرت ناک موت ہے۔

کورونا جیسی آفت تاریخ میں کم ہی نمودار ہوتی ہے۔لیکن جب بھی آتی ہے اس کی کوئی وجہ ہوتی ہے۔ پچھلے سال دسمبر کے آخر میں سورج گرہن ہوا۔ اس کے ساتھ ہی سات ستارے ایک جگہ پر انتہائی نحس ترین پوزیشن میں آگئے۔یہی وہ وقت تھا جب خوفناک کورونا وائرس چین میں نمودار ہوا۔آج سے بیس سال پہلے بھی ستاروں کا ایسا ہی ایک جگہ اجتماع ہوا جس کے نتیجے میں نائن الیون، عراق، افغانستان پر حملہ ہوا۔ اب ہم پھر دوبارہ ایسے دور میں داخل ہورہے ہیں جس کے اثرات اگلے بیس سال پر محیط ہوں گے یا ان کے اندر تبدیلی آئی گی، نظام تبدیل ہوگے اورسوچ میں تبدیلی آئے گی۔ رسموں رواج روایات تبدیل ہوںگے ، یہ دور دنیا کو مکمل طور پر تبدیل کردے گا۔جب یہ مکمل ہوگا دنیا پہچانی نہیں جائے گی۔اس لیے ہر شخص کے لیے اس دور سے گزرنا آسان نہیں ہوگا۔

اپریل کے آخر اور مئی کے شروع سے کورونا کا  زور ٹوٹ سکتاہے۔(عالمی جنگ وقتی طور پر اس وائرس سے ٹل گئی ہے۔

سیل فون:03464527997

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔