کہاں ہیں وہ جنگیں جیتنے والے

ظہیر اختر بیدری  منگل 31 مارچ 2020
zaheer_akhter_beedri@yahoo.com

[email protected]

ساری دنیا کورونا کی وبا سے دہشت زدہ ہے اور اپنی جانوں کی فکر میں مبتلا ہے لیکن دو قسم کے لوگ ایک دوسرے کی جانیں لینے میں مصروف ہیں۔ ایک سامراجی ذہنیت کے لوگ جوکسی نہ کسی اختلاف کو بہانہ بنا کر جنگوں کی آگ سلگاتے رہتے ہیں، جن میں انسانی خون پانی کی طرح بہتا ہے، دوسرے دہشت گرد جو بغیرکسی معقول جوازکے ایک دوسرے کوگاجر مولی کی طرح کاٹ کر یا گولیوں سے بھون کر اپنی ذہنی تسکین کا سامان پورا کرلیتے ہیں۔ انھیں صرف اتنا معلوم ہوتا ہے کہ آج کتنی انسانی جانوں کا خاتمہ کرنا ہے۔ دنیا کو ترقی یافتہ اور مہذب کہا جاتا ہے، اگر انسان کا بغیرکسی معقول وجہ کے خون بہاتا ہے تو وہ کسی حوالے سے مہذب نہیں بلکہ وحشی ہی کہلاتا ہے۔

دنیا کی تاریخ جنگوں سے بھری ہوئی ہے، انسانی تاریخ خون سے شروع ہوئی ہے اور یہی حال رہا تو پھر خون پر ہی ختم ہوگی۔ انسان نے جنگوں کو روکنے اور امن کو فروغ دینے کے لیے کئی ادارے علاقائی بنیادوں پر بنائے ہیں۔ ان سب میں بڑا ادارہ اقوام متحدہ ہے اسے بااختیار انسانوں کی ذلالت ہی کہا جاسکتا ہے کہ یہ ادارہ ایک نمائشی ادارہ بن کر رہ گیا ہے۔

اس ادارے کی موجودگی میں کئی جنگوں کے علاوہ کشمیر اور فلسطین میں 70-75 سال سے جنگ جاری ہے اور انسانی خون پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ اور اس کے سرپرست یہ خونی تماشا روز دیکھ رہے ہیں لیکن ان کے کانوں پرجوں نہیں رینگتی کیونکہ یہ بنیادی طور پر انسان نہیں انسانوں کی شکل میں حیوان ہیں اور جب تک یہ حیوان کمانڈنگ پوزیشن میں رہیں گے، دنیا جہنم بنی رہے گی۔ جنگوں اور اس حیوانیت کی سب سے بڑی وجہ انسانوں کی مختلف حوالوں سے تقسیم ہے۔ ہندو، مسلمان، سکھ، عیسائی وغیرہ لیکن اس کے علاوہ ایک بڑی اور اصل تقسیم قوموں اور ملکوں کی ہے۔

امریکی، روسی، چینی، جرمنی، فرانسیسی وغیرہ وغیرہ۔ سرمایہ دارانہ نظام نے ایک لڑائی اور جنگوں کی جڑ ’’ قومی مفادات‘‘ کے نام پر دنیا میں متعارف کرائی ہے۔ دنیا میں ماضی اور حال میں جو جنگیں ہوئیں اور اب بھی ہو رہی ہیں ان میں قومی مفاد بنیادی محرک ہے۔ جس کسی نے قومی مفادات کا فلسفہ دنیا کو دیا ہے وہ انسانوں کا سب سے بڑا دشمن ہے اور یہ دشمنی صدیوں سے چلی آ رہی ہے۔ ماضی چونکہ جہل سے عبارت رہا ہے اس لیے اس دور کے خون خرابے کو جہل کا کارنامہ کہا جاسکتا ہے لیکن آج کا انسان اعلیٰ تعلیم یافتہ اور مہذب ہے لیکن عملاً وہ ماضی کے جاہل انسان سے ہزارگنا بڑا جاہل ہے۔

شمالی کوریا اور امریکا، ایران اور امریکا، ہندوستان اور پاکستان وغیرہ ایک عرصے سے ایک دوسرے کے سامنے کھڑے ہیں کیونکہ یہ بھیڑیے یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ دنیا کے سارے انسان آدمؑ کی اولاد ہیں اس طرح یہ سب خونی رشتے میں بندھے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود یہ حیوان ایک دوسرے کو انتہائی بے دردی سے قتل کر رہے ہیں۔

اس حوالے سے المیہ یہ ہے کہ دنیا دانشوروں، مفکروں، ادیبوں، شاعروں سے بھری ہوئی ہے جو جنگ اور امن کے بارے میں ہر حقیقت کو جانتے ہیں لیکن گونگے بہرے اندھے ہیں۔ انسان کو اشرف المخلوقات کہا جاتا ہے ایسا کیوں کہا جاتا ہے؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ کون سی طاقت ہے جو انسان کو برائی سے نہیں روکتی بھلائی کی طرف آنے کی ترغیب نہیں دیتی؟ جہل جب انسان کو برائی سے نہیں روکتا، بھلائی کی طرف نہیں لاتا، جہل سو بیماریوں کی ایک بیماری ہے اور ہر ملک سے اس بیماری کو روکنے میں علم اور دانش دونوں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔انسان بہت طاقتور اور با اثر ہے لیکن بعض وقت انسان بہت کمزور پڑجاتا ہے اور بے اثر ہوجاتا ہے دنیا میں جگہ جگہ جنگ اور نفرت کے الاؤ بھڑکانے والے بعض وقت قدرت کے سامنے اتنے کمزور پڑ جاتے ہیں کہ انھیں اپنی جان اپنی بقا کے علاوہ کچھ نہیں سوجھتا۔ بڑے بڑے نامور پہلوان، بڑے بڑے طاقتور حکمران، بڑے بڑے دولت مند انسان بعض وقت بعض موقعوں پر اتنے ڈرپوک بلکہ بزدل ہوجاتے ہیں کہ انھیں جان عزیز ہوتی ہے۔

آج کل کورونا وائرس کا دور دورہ ہے اس وبا نے بہادر سے بہادر انسان کو اس قدرکمزور بنادیا ہے کہ وہ بھاگتا اور چھپتا پھر رہا ہے۔ آج کل کورونا نے قومی مفادات کے فلسفے کو بھی سر کے بل کھڑا کردیا ہے وہ قومی مفاد جو جاہل حکمرانوں کو جنگوں پر مجبور کردیتا ہے۔ آج مکمل طور پر ذاتی مفاد میں بدل گیا ہے انسان اس قدر بزدل ہو گیا ہے کہ دوستوں سے ہاتھ ملانے سے خوفزدہ ہے۔ دانشور، مفکر، ادیب، شاعر اور حکمرانوں کو صرف اپنی جان کی پڑی ہے۔ بزدل اور جاہل انسان خود تو موت سے اس قدر خوفزدہ رہتا ہے لیکن قومی مفادات کے نام پر ہزاروں انسانوں کو قتل کروا دیتا ہے۔

کورونا کو نہ کسی ایٹمی میزائل سے ختم کیا جاسکتا ہے نہ ایٹم بم سے یا F-16 سے نہ کسی بھاری بھرکم فوج سے جو جدید اسلحے سے لیس ہوتی ہے۔ کورونا ایک مشکل سے نظر آنے والا وائرس ہے لیکن اس کے پاس اتنی طاقت ہے کہ وہ بڑے بڑے سپر پاورکے حکمرانوں کو اتنا خوفزدہ کردیا ہے کہ وہ گھر سے باہر نکلتے ہوئے ڈرتے ہیں۔ آج ان کی نظر صرف اور صرف اپنی بقا پر ہے فطرت کے سامنے اس قدر بے بس اور بزدل انسان کہیں قومی مفادات کے نام پر انسانوں کا خون بہا رہا ہے تو کہیں دین دھرم اور قوم و ملک کے حوالے سے لاکھوں انسانوں کو انتہائی بے دردی سے قتل کر رہا ہے تو دوسری طرف کورونا وائرس کے نام سے اس کی گھگی بندھ گئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔