خواتین خانہ گھر بھر کو یک سانیت کا شکار نہ ہونے دیں

رضوان طاہر مبین  منگل 31 مارچ 2020
’کورونا فرصت‘ میں اہل خانہ کو گھر گرہستی میں ساجھے دار بنانے کے کچھ گُر

’کورونا فرصت‘ میں اہل خانہ کو گھر گرہستی میں ساجھے دار بنانے کے کچھ گُر

’کورونا‘ وائرس کی وبائی صور ت حال نے دنیا بھر میں سبھی کو سخت آزمائش میں ڈالا ہوا ہے۔ ہمارے ملک میں بھی اس وبا کے انکشاف کے بعد پہلے بچوں کو چھٹیاں دے دی گئی تھیں، اب اس مہلک مرض پر قابو پانے کے لیے گذشتہ ایک ہفتے سے زندگی کی دیگر تمام سرگرمیاں بھی معطل کر دی گئی ہیں۔۔۔ یقیناً یہ ایک مشکل وقت ہے، بالخصوص یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کے مسائل بہت زیادہ ہیں، اور اب تنخواہ دار ملازمین بھی شدید واہموں کا شکار ہونے لگے ہیں، لیکن اس وائرس سے ہم اپنے مثبت طرز فکر، عزم وحوصلے کے ساتھ تب ہی کام یابی سے گزر سکتے ہیں، جب اس کے حوالے سے دی گئی حفاظتی تدابیر کو ملحوظ خاطر رکھیں، جس میں صفائی ستھرائی کے ساتھ سب سے اہم امر گھر کے اندر رہنا ہے۔

ویسے عام طور پر گھر پر رہنا، آرام کرنا اور اہل خانہ کے ساتھ وقت گزارنا کسے اچھا نہیں لگتا، لیکن اگر اس کی وجہ موجودہ مجبوری والی اور اس قدر طویل ہو تو یہ انسانی مزاج ہے کہ وہ بیزار ہو جاتا ہے۔ دوسری طرف خواتین خانہ بھی پہلے کبھی ایسی صورت حال سے دوچار نہیں ہوئیں۔ یہ بات درست ہے کہ زندگی گزارنے کے لیے گھر سے باہر آمدورفت بھی ضروری ہوتی ہے، لیکن یہ وقت کا تقاضا ہے کہ آپ کو گھر میں ہی اچھی طرح نہ صرف اپنا وقت گزارنا ہے، بلکہ اسے کارآمد اور خوش گوار بھی بنانا ہے۔

عام طور پر بچوں اور مرد حضرات کے گھروں پر موجود ہونے سے خواتین خانہ کا کام بڑھنے کا تاثر پیدا ہوتا ہے، بالخصوص فرصت میں کھانے پینے کی طرف زیادہ توجہ ہو جاتی ہے اور کچھ نہیں تو چائے کے ’دور‘ ہی چلنے لگتے ہیں۔ اس لیے خواتین اس ضمن میں مرد حضرات اور بچوں کو اپنے کاموں میں شامل کر کے نہ صرف اچھی مصروفیات فراہم کر سکتی ہیں، بلکہ خود بھی ان کے ساتھ مل کر گھر گرہستی میں رنگ بھرنے میں شانہ بشانہ ہو سکتی ہیں۔

بچوں کی تعلیم وتربیت میں رخنہ نہ پڑنے دیں

26 فروری کو ملک میں ’کورونا‘ وائرس کا پہلا مریض سامنے آنے کے بعد سب سے پہلے احتیاطی تدبیر کے طور پر بچوں کی چھٹیوں کا اعلان کیا گیا تھا، جس میں توسیع کرتے ہوئے اب اس میں گرمیوں کی قبل ازوقت چھٹیاں بھی شامل کر دی گئی ہیں۔۔۔ یقیناً بچوں کے لیے یہ ایک طویل وقت ہے، جس میں وہ اپنی پڑھائی سے بالکل دور رہیں گے۔

بہت سی نجی جامعات میں تو ’آن لائن‘ کلاسوں کے ذریعے تعلیمی نقصان کا ازالہ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، لیکن ظاہر ہے ابھی اسکولوں وغیرہ میں اس کا چلن نہیں ہے۔ اس لیے گھر کے بڑوں اور بالخصوص ماؤں کی اس موقع پر ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ بچوں کو نصابی اور غیر نصابی کتابوں سے جوڑے رکھیں اور حتی الامکان انہیں تعلیمی سرگرمیوں سے منسلک کریں۔۔۔ کوشش کریں کہ کم سے کم روزانہ کچھ وقت کے لیے وہ اپنا بستہ کھول کر ضرور بیٹھیں اور کاپی پینسل لے کر کچھ نہ کچھ لکھیں، چاہے وہ کتابوں سے ’نقل‘ ہی کیوں نہ کریں۔ اس سے ان کا تعلیم سے تعلق منقطع نہیں ہوگا اور جوں ہی دوبارہ اسکول کھلیں گے۔

انہیں دوبارہ تعلیم سے جُڑنے میں دقت یا دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ بچوں کو گھر میں روکنے کے لیے ان کے ہاتھ میں ’اسمارٹ فون‘ دے دیا جاتا ہے، جس میں وہ مختلف کارٹون اور گیم کھیلنے لگتے ہیں، ظاہر ہے اس کا زیادہ استعمال بھی مناسب نہیں ہے، کوشش کیجیے کہ کچھ وقت ان کے ساتھ باقاعدہ گفتگو میں صرف کیجیے، انہیں اپنی زندگی کے تجربات اور کچھ سچائیوں کے بارے میں بتائیے، ہمیں امید ہے کہ بچے یقیناً اس میں دل چسپی لیں گے اور ان کا دماغ کی خالی سلیٹ پر یہ اچھی باتیں تادیر نقش رہیں گی۔

اپنا باورچی خانہ کھول دیجیے

عام تاثر یہی ہے کہ ’کورونا‘ کی چھٹیوں میں ’باورچی خانے‘ کے کام زیادہ بڑھ گئے ہیں، کیوں کہ معمول کی ہانڈی روٹی تو جاری ہی ہے، ساتھ میں بچوں اور مرد حضرات کے بھی پسندیدہ پکوانوں کی فرمائشیں اب روزانہ ہی جاری رہتی ہیں۔ تو اِن چھٹیوں میں یوں کریں کہ کچھ ضروری ہدایات کے بعد آپ اپنے باورچی خانے کے دروازے دیگر اہل خانہ کے لیے کھول دیں، اور اپنی نگرانی میں اِن سے باورچی خانے کے ضروری امور میں مدد لیں۔ اس ضمن میں ذرا بڑے بچے بھی آپ کا خاصا ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔۔۔ اگر آپ کے ہاں مردوں کو ’امور خانہ داری‘ سے اللہ واسطے کا بیر ہے، تو اس ضمن میں ان کے من بھاتے پکوان بنانے کا اعلان انہیں اس طرف رغبت دلانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔ آپ ان کے پسندیدہ کھانوں کو اِن کے ’تعاون‘ سے مشروط کردیجیے، اگر ’حضرات‘ پر یہ ترکیب کارگر ہو تو ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کر کے ایک وقت کے کھانے کے لیے باورچی خانہ ان کے سپرد کرنے کا دل چسپ تجربہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح گھر میں بیٹھے ہوئے ’اہل خانہ‘ کے یک سانیت کے تاثر میں نہ صرف کمی آئے گی، بلکہ خواتین خانہ کو بھی ذرا فرصت میسر ہو سکتی ہے۔

گھر کی ’بڑی صفائی‘ کا پروگرام

یوں تو ہم روزانہ ہی اپنے خادمین اور ماسیوں وغیرہ کے ساتھ مل کر جھاڑو پونچھا کرتے ہیں، لیکن چھٹیوں کی فرصت میں ہمارا پہلا دھیان ذرا ’بڑی صفائی‘ کی سمت جاتا ہے، یعنی ذرا اچھی طرح قالین اور بچھونے اٹھا کر ، الماریاں ہٹوا کر اچھی طرح صفائی کی جائے۔۔۔ کمروں کے خاک ودھول میں اٹے ہوئے کونے کھدروں کو بھی پانی سے دھو لیا جائے۔۔۔ ان دنوں ظاہر ہے بیش تر ماسیاں وغیرہ بھی چھٹیوں پر ہیں اور بہت سے دیگر ملازمین بھی کاموں پر نہیں آرہے، اکثر کو حفاظتی اقدام کے تحت پہلے ہی منع کر دیا گیا تھا، مبادا کسی اور گھر سے ’کورونا‘ کے پھیلاؤ کا باعث نہ بن جائیں، لیکن اس ’لاک ڈاؤن‘ کی بنا پر گھر کے مرد اور بچے گھر پر موجود ہیں اور کسی نئی مصروفیت کے متلاشی بھی ہیں، تو کیوں ناں انہیں اس بڑے پیمانے پر گھر کی صفائی میں شریک کیا جائے۔۔۔ یقیناً جب اس صفائی ستھرائی میں آپ تمام اہل خانہ کو شامل کر لیں گی، تو یہ امر آپ کے لیے بڑی سہولت کا باعث بنے گا اور فارغ بیٹھے رہنے والے مرد اور بچوں کو بھی ایک اچھی مصروفیت میسر ہوگی۔

گھر میں ’گھر‘ بدل ڈالیے!

ہمارے گھروں کی ترتیب ہماری گنجائش اور ضرورت کے حساب سے ہوتی ہے۔ ہم اپنی سہولت کے حساب سے ہی گھر کے مختلف گوشوں کو اپنی خواب گاہ، آرام گاہ، مہمان گاہ یا مطالعہ گاہ بناتے ہیں۔۔۔ یہی نہیں بلکہ ہمارے گھر کے سامان کی ترتیب اور آرائش بھی اسی مناسبت سے کی جاتی ہے۔۔۔ پھر کبھی ہمیں لگتا ہے کہ یوں نہیں یوں کر لینا بہتر ہے، تو پھر ہم اپنے گھر میں ویسی ہی تبدیلی کر لیتے ہیں۔۔۔ لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ گھر کے سامان کی ترتیب ایسی ہو جائے، لیکن اس کے لیے وقت نہیں مل رہا ہوتا، یا اس میں گھر کے مرد حضرات کی مدد کی ضرورت ہوتی ہے اور وہ اپنے کاموں میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ چاہتے ہیں کہ کبھی دو، تین چھٹیاں ایک ساتھ ہوں، تو پھر وہ اس جانب توجہ دیں۔۔۔ سو، اب یہ چھٹیاں جاری ہیں، اگر گھر کی ترتیب سے متعلق کسی ایسی تجویز پر عمل کرنا ہے، تو اس پر عمل کر گزریے۔ اگر ایسی کوئی ضرورت نہیں بھی ہے، تب بھی فقط اپنی زندگی میں ایک تبدیلی لانے کی خاطر، تجرباتی طور پر اِن تبدیلیوں کو کیجیے۔ یقیناً یہ امر بچوں سے لے کر بڑوں تک کی زندگی میں ایک مثبت رنگ بھرے گا اور وہ گھر میں ٹھیرے رہنے میں بوریت کا شکار نہیں ہوں گے۔

ذرا اپنے ’اسٹور‘ کا رخ کیجیے

ہم سب کے گھروں میں ہی کوئی دوچھتی، کوئی مچان یا ’اسٹور‘ ایسا ضرور ہوتا ہے جہاں ہمارا پرانا یا ذرا کم استعمال میں آنے والا سامان موجود ہوتا ہے۔ ہماری بہت سی چیزیں ایسی ہوتی ہیں، جنہیں ہم رکھنے یا انہیں تلف کرنے کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کر پاتے۔ وہ ہمارے کام میں بھی نہیں آتیں اور انہیں ختم کرنے میں بھی ہمیں پس وپیش ہوتا ہے، چناں چہ انہیں پھر ہم ایسے مچان، دو چھتی یا ’اسٹور‘ میں ڈال دیتے ہیں، پھر زندگی میں ہمیں بہت کم وقت ایسا ملتا ہے کہ جب ہم انہیں دوبارہ توجہ دے پاتے ہیں۔۔۔ اور یوں انہیں پڑے پڑے بہت مدتیں گزر جاتی ہیں۔ موجودہ ’لاک ڈاؤن‘ میں آپ اپنے گھر کے ایسے گوشوں کا رخ کر سکتی ہیں۔

جہاں یقیناً ایسی بہت سی چیزیں موجود ہوں گی۔۔۔ بہت سے کم استعمال میں آنے والی چیزیں، گئے وقتوں کے کچھ تحائف، ٹرافیاں، میڈل، اسناد اور بھی جانے کون کون سا پرانا سامان۔۔۔ جن پر بیتے زمانے کا سراغ ملتا ہوگا۔ اس بہانے یہاں کی صفائی بھی ہو جائے گی اور عین ممکن ہے کہ آپ بہت سے ایسے غیر استعمال شدہ چیزوں کے مستقبل کے حوالے سے بھی کوئی فیصلہ کر پائیں کہ آیا انہیں رکھ لیا جائے یا پھر کسی اور کو دے دیا جائے۔۔۔ اپنے ’اسٹور‘ کے اس سفر میں آپ اپنے گھر کے حضرات اور بچوں کو شامل کیجیے۔۔۔ یقیناً یہ گھر کے اندر رہتے ہوئے ایک ایسے نگر کی سیر کا باعث بنے گا، جسے ان الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، بلکہ صرف وہیں اور انہی چیزوں کے ساتھ محسوس کیا جا سکتا ہے۔ یوں نہ صرف تمام اہل خانہ ذرا دیر کو خود کو ’لاک ڈاؤن‘ کی بندش سے کچھ آزاد محسوس کریں گے، بلکہ گھر کے ایک نظرانداز گوشے کی از سرنو ترتیب بھی ہو جائے گی۔

ملبوسات کی الماریاں خالی کر دیجیے!

خواتین خانہ اکثر یہ شکایت کرتی ہیں کہ کہیں آنے جانے کے لیے یا کسی شادی بیاہ کی تقریب میں زیب تن کرنے کے لیے ان کے پاس کپڑے نہیں ہیں، اور اکثر یہ عالَم ہوتا ہے کہ جب وہ اپنے ملبوسات کی الماریاں کھولتی ہیں، تو یہ اتنی بھری ہوئی ہوتی ہیں کہ کھولتے کے ساتھ ہی ان الماریوں کے مختلف خانوں میں رکھے ہوئے کپڑے باہر گرنے لگتے ہیں، یعنی کپڑوں کی الماریوں میں لاتعداد کپڑے ٹھونسے گئے ہوتے ہیں۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس ایسے کپڑوں کی تعداد بہت زیادہ ہے، جنہیں ہم بوجوہ نہیں پہن رہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ذرا اگر فرصت ہو تو اپنی اس الماری کو ایک بار خالی کیجیے اور اس کی ازسرنو ترتیب کرتے ہوئے فیصلہ کیجیے کہ کون سے کپڑے رکھنے ہیں اور کون سے نکالنے ہیں۔ اس سرگرمی میں ظاہر ہے صرف آپ ہی کو حصہ لینا ہوگا، کیوں کہ آپ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہیں کہ آپ کے کون سے کپڑے اہم ہیں اور کن سے غیر اہم۔

امید ہے ہماری ان تجاویز پر عمل سے ’خواتین خانہ ‘ لاک ڈاؤن کے دوران میسر ہونے والی مجبوری کی فرصت کو نہ صرف کارآمد کرسکیں گی، بلکہ گھر بھر کے ماحول کو یک سانیت کا شکار ہونے سے بھی بچا لیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔