ناول کورونا وائرس کی ابتدا کہاں سے ہوئی؟َ

زبیر بشیر  بدھ 8 اپريل 2020
سائنسی مطالعے اور حقائق نے ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ میں اس وائرس کی پیدائش کے نظریے کو پھیکا کردیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

سائنسی مطالعے اور حقائق نے ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ میں اس وائرس کی پیدائش کے نظریے کو پھیکا کردیا ہے۔ (فوٹو: انٹرنیٹ)

دنیا میں بہت سے لوگوں کے ذہن میں یہ سوال موجود ہے کہ ناول کورونا وائرس (کووڈ-19) کی ابتداء کہاں سے ہوئی اور یہ کیسے پھیلا؟ فروری کے اختتام تک محدود معلومات، تحقیق کی کمی اور مغربی میڈیا کی تعصبات سے بھری خبروں کی موجودگی میں دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ، حتیٰ کہ طبی ماہرین کی توجہ بھی ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ پر مرکوز رہی۔ وقت گزرنے کے ساتھ مختلف تجزیاتی رپورٹس، سائنسی مطالعات اور حقائق نے ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ میں اس وائرس کی پیدائش کے مفروضے کو پھیکا کردیا۔

امریکا کی ٹولین یونیورسٹی میں وائرسیات (وائرولوجی) یعنی علم الوائرس کے ماہر پروفیسر رابرٹ گیری نے حال ہی میں نشریاتی ادارے اے بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ان کے تجزیے کے مطابق چین کے شہر ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ ناول کورونا وائرس کا ماخذ نہیں۔ تاہم ووہان میں سب سے پہلے اس وائرس کی تشخیص نے دنیا بھر کی توجہ اس جانب مبذول کروا دی تھی۔

 

وائرس کی پیدائش قدرتی عمل ہے

رابرٹ گیری کہتے ہیں کہ یہ وائرس فطری طور پر پیدا ہوا ہے۔ اس سے قبل 17 مارچ کو اعلیٰ درجے کے بین الاقوامی علمی جریدے ’’نیچر میڈیسن‘‘ نے امریکا، برطانیہ اور آسٹریلیا سے تعلق رکھنے والے پانچ سائنس دانوں کا مشترکہ تصنیف کردہ ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا۔ اس مقالے کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ ناول کورونا وائرس لیبارٹری میں تیار نہیں کیا گیا، نہ ہی یہ کسی خاص مقصد کے تحت بنایا گیا ہے؛ اور اس کی ساخت یہ بتاتی ہے کہ اسے قابو میں نہیں رکھا جاسکتا۔ 18 مارچ کو امریکا کی مذکورہ یونیورسٹی کی سرکاری ویب سائٹ نے اس مقالے کے مصنّفین اور معروف وائرولوجسٹ رابرٹ گیری کا انٹرویو اپنی ویب سائٹ پر شائع کیا۔ اپنے انٹرویو میں گیری نے کہا ’’میں آپ کو بتا سکتا ہوں کہ یہ حیاتیاتی ہتھیار نہیں۔ کسی نے بھی اس وائرس کو لیبارٹری میں نہیں بنایا۔ یہ قدرت کی پیداوار ہے۔ اب تک ہم یہ نہیں جانتے کہ یہ وائرس انسانوں میں کب سے موجود ہے۔ ہوسکتا ہے کہ صرف چند مہینوں، شاید برسوں یا عشروں سے بھی زیادہ عرصے سے یہ انسانی جسم میں موجود ہو، اور پھر اچانک اس کی ساخت میں کوئی تغیر آیا جس نے اسے تیزی سے پھیلادیا۔‘‘

معاملے کی حساسیت کے پیش نظر 27 مارچ تاریخ کو اے بی سی نے گیری کے ساتھ ایک انٹرویو کیا۔ اس انٹرویو میں گیری نے ایک اہم پیغام میں کہا کہ اگرچہ کچھ لوگوں کا خیال ہے وائرس کی ابتدا چین کے شہر ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ میں ہوئی ہے، لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔ ان کا کہنا تھا ’’ہمارے تجزیئے کے ساتھ کچھ سائنس دان یہ بھی سمجھتے ہیں کہ یہ وائرس ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ سے کہیں پہلے کا معاملہ ہے۔‘‘ گیری نے کہا ’’ووہان سی فوڈ مارکیٹ سے متعلقہ کچھ لوگ اس کا شکار ضرور ہوئے ہیں، لیکن یہ وائرس وہاں پیدا ہوا، اس میں کوئی حقیقت نہیں۔‘‘

 

اس وائرس کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟

یہ سوال اپنی جگہ قائم ہے کہ اس وائرس کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟ اب تک ایک بڑی تعداد میں محققین یہ ثابت کرچکے ہیں کہ یہ وائرس بہت سی دوسری جگہوں پر پیدا ہوسکتا ہے۔ 24 جنوری کو ’’دی لینسٹ‘‘ کے آن لائن ورژن نے ایک تحقیقی مقالہ شائع کیا، جس میں ووہان جین یانٹن اسپتال کے سات معالجین کے تجربات شامل ہیں۔ ان کے مطابق ناول کورونا وائرس کے ابتدائی 41 کیسز میں سے 13 افراد ایسے تھے جن کا ووہان سی فوڈ مارکیٹ سے کسی قسم کا کوئی تعلق یا رابطہ نہیں تھا۔ حتیٰ کہ وہ یا ان کے قریبی افراد میں سے کوئی بھی وہاں نہیں گیا تھا۔

26 جنوری کو دنیا میں صفِ اوّل کے تحقیقی جریدے ’’سائنس‘‘ کی ویب سائٹ پر کورونا وائرس کی ابتداء سے متعلق ایک خبر میں جارج ٹاؤن یونیورسٹی، امریکا میں متعدی بیماریوں کے ماہر ڈینیئل لیوسی کے تاثرات شائع ہوئے، جو کچھ یوں تھے: ’’جنوبی چین کے شہر ووہان کی سی فوڈ مارکیٹ ناول کورنا وائرس کی جائے پیدائش نہیں۔ اس حوالے سے مستند شواہد تو کیا، تھوڑے سے شواہد بھی موجود نہیں۔‘‘ ان کا خیال ہے کہ اگر اس وائرس کو ایسی ہی کسی جگہ سے جنم لینا تھا تو اس سے زیادہ موافق مقامات کئی اور جگہوں پر موجود ہیں۔

چین کے ممتاز سائنسدان ژونگ نانشن نے بھی حال ہی میں نشاندہی کی تھی کہ یہ وبا پہلے چین میں ظاہر ضرور ہوئی تھی، لیکن یہ ضروری نہیں کہ اس کی ابتدا چین میں ہوئی ہو۔ کچھ دن پہلے کینیڈا کے تھنک ٹینک ’’گلوبل ریسرچ‘‘ کی ویب سائٹ پر لیری رومانوف کا ایک مضمون شائع ہوا۔ مضمون کے مطابق چین، اٹلی اور ایران کے متاثر افراد میں پائے جانے والے وائرس کی ساخت مختلف ہے۔ مضمون میں یہ بھی نشاندہی کی گئی کہ مغربی میڈیا کی طرف سے چین پر زیادہ توجہ دینے کے باعث بہت سارے لوگوں کا ابتدائی خیال یہ تھا کہ ناول کورونا وائرس چین سے دوسرے ممالک میں منتقل ہوا تھا، لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ یہ مفروضہ غلط ثابت ہورہا ہے۔

26 تاریخ کو دنیا کے ایک اور موقر علمی جریدے ’’سیل‘‘ نے شنگھائی، فوڈن یونیورسٹی سے وابستہ پبلک ہیلتھ کلینیکل سینٹر کے پروفیسر ژانگ یونگ زن اور سڈنی یونیورسٹی کے اسکول آف میڈیکل سائنسز کے پروفیسر ایڈورڈ ہومز کا مشترکہ تصنیف کردہ ایک مضمون شائع کیا۔ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دسمبر 2019 میں آبادی میں ’’کرپٹک ٹرانسمیشن‘‘ کے مرحلے سے پہلے ناول وائرس میں کچھ اہم تغیرات ہوئے جنہوں نے اسے اتنا طاقتور بنادیا۔

 

سائنس پر یقین رکھیے اور تعصب سے بچیے

اس وقت سائنسدان تمام تعصبات سے بالاتر ہوکر حقائق کی تلاش میں سرگرم عمل ہیں۔ وائرس کے خلاف بہتر تحقیق کے لیے اب ان کیسز پر زیاہ سے زیادہ توجہ دی جارہی ہے جن کا براہ راست چین سے کوئی تعلق نہیں۔ مثلاً کیلیفورنیا میں سامنے آنے والے کیسز میں مریضوں نے ایک طویل عرصے سے کبھی بھی اپنے علاقے سے باہر سفر اختیار نہیں کیا تھا۔ اسی طرح ایران میں تشخیص ہونے والے دو مریض ایسے ہیں جو نہ تو کبھی چین گئے اور نہ ہی انہوں نے ایسے لوگوں کے ساتھ ملاقات کی جو چین گئے تھے۔ جاپان کا ایک متاثرہ شخص ایسا ہے جو نہ چین گیا اور نہ ہی اس نے ماضی قریب میں کوئی سفر اختیار کیا۔

بی بی سی اور دیگر میڈیا رپورٹس کے مطابق اگرچہ برطانیہ میں ناول کورونا وائرس کا پہلا کیس 31 جنوری کو سامنے آیا، لیکن وسط جنوری میں برطانیہ کی سسیکس کاؤنٹی میں ایک ایسا کنبہ موجود تھا جو ناول کورونا وائرس کا شکار ہوا۔ اس خاندان کے افراد کبھی کسی چینی سے رابطے میں نہیں آئے، تاہم دسمبر 2019 میں ان کی ملاقات چند امریکیوں سے ہوئی تھی۔

 

تو وائرس کہاں سے آیا؟

اس حوالے سے ہمیں سائنس کو مزید وقت دینا چاہیے۔ سائنسی انداز سے سوچنے اور سائنسی طریقہ کار کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اس سے قطع نظر کہ وائرس کی ابتداء کہاں سے ہوئی؟ اسے کسی نسل، رنگ یا علاقے سے منسوب نہ کریں۔ یہی عالمی اتفاق رائے اور انسانی ضمیر کی متفقہ آواز ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

زبیر بشیر

زبیر بشیر

بلاگر ان دنوں چائنا میڈیا گروپ سے وابستہ ہیں۔ ریڈیو پاکستان لاہور کے سینئر پروڈیوسر ہیں۔ اس سے قبل ڈوئچے ویلے بون جرمنی میں بطور ایڈیٹر خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔