’گوری تیرے پیار میں‘ کیا وہ اسے حاصل کر پائے گا

گو کہ دونوں مرکزی کرداروں کے درمیان کیمسٹری نہ ہونے کے برابر نظر آتی ہے، مگر کوئی بھی یہ تاثر لے سکتا ہے کہ یہ چیز۔۔۔


عنبرین حیدر December 02, 2013
فلم کی کہانی دو خوش اخلاق مگر مختلف ذہنیت کے لوگوں کے گرد گومتی ہے۔ فوٹو: پبلسٹی

اپنی پرورش کے دوران میں نے ہمیشہ ایک چیز نوٹ کی کہ "روم کوم" کے نام سے بھی جانی جانے والی رومانوی فلموں کی اکثر کہانیاں ایک ہی طرح کی ہوتی ہیں کہ ایک لڑکا اور لڑکی کی نظر ممکنہ طور پر کسی گہرے اختلاف کی وجہ ایک دوسرے پر پڑتی ہے، وہ اپنے اندر ہی کہیں پر موجود کشش کو محسوس کرتے ہیں، دنیا سے لڑتے ہیں اور جنگ کو جیت کر گانوں اور بھنگڑے کے درمیان ایک ہوجاتے ہیں یا ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔

اگرچہ ہالی ووڈ اس حوالے سے تبدیلی لے کر آیااور ایسی "روم کوم "فلمیں بنانا شروع کیں جس میں محبت کرتے والے جوڑوں کے ایک ہونے کے بعد کی زندگی کو دکھایا گیا تاہم بالی ووڈ نے کچھ عرصہ قبل تک اس قسم کی کہانیوں سے دوری ہی اپنائے رکھی۔

چلتے چلتے اور ساتھیا کا شمار ان ابتدائی فلموں میں ہوتا ہے جن میں شادی کے بعد موضوع کو لیا گیا اور دونوں فلموں کا شمار عموما بالی ووڈ کی معمولی دیکھی جانے والی "روم کوم" فلموں کی نسبت کچھ زیادہ شمار کی جاتی ہیں۔ تاہم ان فلموں نے بالی ووڈ کے لیے اس قسم کی مزید فلمیں بنانے کے لیے روستہ کھولا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ایک نوجوان دوشیزہ کے بجائے دو مضبوط افراد کا مشکلات گھرا ہونے جیسی ایک نئی چیز سامنے آئی، جیسا کہ تاریخ میں دیکھا گیا ہے۔

اس بریک تھروکی وجہ سے" بریک کے بعد "اور حال ہی میں یہ جوانی ہے دیوانی "جیسی فلمیں بنیں۔

فلم گوری تیرے پیار میں کچھ حد تک دونوں ہی قسم کی کہانیاں ہیں، یقیناً فلم کی سحرانگیزی میں خالصتا ًاس کے مرکزی کردار عمران خان اور کترینہ کیف ہیں جب کہ کرن جوہر کی پروڈکشن اور بذات خود اس کی کہانی بھی عام سی ہے ۔


فلم کی کہانی دو خوش اخلاق مگر مختلف ذہنیت کے لوگوں کے گرد گومتی ہے۔ دیا جس کا کردار کرینہ کپورخان نے ادا کیا ہے ایک مضبوط سوچ اور رائے والی ماہرماحولیات ہے جس کی تمام تر توجہ غریبوں کی زندگی کو بہتر بنانے پر ہے۔

دوسری جانب، شری رام وینکت کا کردار نبھانے والا عمران خان ایک موج مستی کرنے اور کامیابی کی سوچ سے دور معاشقے لڑانے والے لڑکا ہے جو کہ اپنے والد کے دفتر میں کبھی کبھی کام کرتا ہے۔ اس کی زندگی مادی چیزوں کے گرد گھومتی ہے اور اس کی بہتر تعریف دیا کے مطابق ایک خود پسند مگر اتنا بھی بے حساس نہیں جتنا وہ ظاہر کرتا ہے۔

گو کہ دونوں مرکزی کرداروں کے درمیان کیمسٹری نہ ہونے کے برابر نظر آتی ہے، مگر کوئی بھی یہ تاثر لے سکتا ہے کہ یہ چیز دانستہ طور پر بیان کی گئی۔ دونوں کرداروں کو ایک انفرادیت پسندانہ اور آزاد رشتہ گزارنا ہوتا ہے اتنا زیادہ کہ سری رام اسے زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیتا۔ لیکن بعد میں اسے معلوم ہوتا ہے کہ دیا اس بارے میں سنجیدہ ہے، گو کہ وہ اس بات اس سے اتفاق رکھتی ہے اس رشتے کا اثر ان کی شخصیات پر نہیں پڑنا چاہیے۔

یقینا تب تک، کشش ختم ہو جاتی ہے اور حقیقت کاٹنے کو دوڑتی ہے۔

فلم کا پہلا حصہ دونوں کا اپنے خیالات اور شخصیات پر سمجھوتا کیے بغیر اس رشتے کو سمجھنے کے گرد گھومتا ہے جب کہ دوسرا حصہ سری رام کی ایک دوردراز گاؤں میں دیا کی تلاش اور اسے دوبارہ حاصل کرنے کے گرد گھومتا ہے۔

فلم کو ڈرامیٹک نہ کہنا غلط ہوگا کیونکہ اس میں کئی ڈرامیٹک مواقع ہیں جیسا کہ دھولا کا بھاگنا اور ایک ٹوٹے ہوئے دل والے لوور کا اپنی کھوئی ہوئی محبت کی شادی میں دوسروں کے ساتھ گانا گانا ہے۔


بہرحال، وہ چیز جس پر اس فلم اور اس کی کہانی کی تعریف کی جانی چاہیے وہ تعلقات میں معمولی اختلافات برقرار رکھتے ہوئے بھی آگے بڑھنا، ایک دوسرے کو جاننے اور مستقبل کی منصوبہ بندی پر اختلافات اور اپنے تعلق اور چھوٹی چھوٹی چیزوں پر ہونے والے اختلاف کا دوبارہ جائزہ لینا ہے۔

اور یقیناً، موضوع سے متعلق سب سے اہم اور جس پر بہت کم بات کی گئی وہ یہ کہ تعلقات میں آگے بڑھنے کا فیصلہ کون کرتا ہے اور کیا یہ ہمیشہ باہمی ہوتا ہے؟

گو کہ اصل کہانی اس سوال کے گرد گھومتی ہے کہ "کیا وہ اسے واپس حاصل کر پائے گا؟"، لیکن اس موضوع کو محض چند ڈائلاگز اور مناظر کے ذریعے سر سری طور پر ہی بیان کیاگیا ہے۔

اگرچہ فلم میں موجود گانے کسی حد تک سننے کے قابل ہیں مگر اس میں کوئی بھی یاد رہنے والا نہیں ہیں اور نہ ہی اس میں کوئی بہترین ڈائے لاگ شامل ہیں۔ تاہم فلم میں دو مضبوط سپورٹنگ کاسٹ ممبرز شامل ہیں جن میں وسودھا کا کردار ادا کرنے والی شردھا کپور اور جس گاؤں ميں دیا سری رام سے علیحدگی کے بعد جاتی وہاں موجود ٹیکس جمع کرنے والا کرپٹ افسر جس کا کردار انوپام خیر سے ادا کیا ہے شامل ہیں۔


پھر بھی فلم میں کئی ایسے لمحات ہیں جب اسے دیکھنے والے ہنسی سے لوٹ پوٹ جائیں، اس مزاح کے تڑکے کا زیادہ کریڈٹ عمران خان اور انوپام خیر کو جاتاہے۔جس کی مثال وہ کیکڑا بھی ہو سکتا ہے جسے سری رام نے دیا اور اس کے مقصد سے محبت دکھانے کے لیے بجائے ایک ہوٹل میں کھانے کے" گود "لے لیا۔



مجموعی طور پر فلم مستقبل میں یاد آنے والے کئی لمحات کے ساتھ ساتھ دیکھنے میں ہلکی تفریح اور مزح فراہم کرتی ہے۔

مقبول خبریں