کورونا وائرس کے معیشت پر اثرات؛ معاشی کورونا سے بچنے کیلئے ’’کاروباری لاک ڈاؤن‘‘ بتدریج ختم کرنا ہوگا!

اجمل ستار ملک / احسن کامرے  پير 13 اپريل 2020
صنعتوں کو کھولنے کیلئے مکمل احتیاطی قواعد و ضوابط بنا کر عملدرآمدکو سختی سے یقینی بنایا جائے، ماہرین اقتصادیات۔ فوٹو: ایکسپریس

صنعتوں کو کھولنے کیلئے مکمل احتیاطی قواعد و ضوابط بنا کر عملدرآمدکو سختی سے یقینی بنایا جائے، ماہرین اقتصادیات۔ فوٹو: ایکسپریس

کورونا وائرس سے اب تک دنیا بھر میں 17 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں جبکہ ایک لاکھ سے زائد اموات ہوئی ہیں اور ابھی ان میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ کورونا وائرس سے جہاں انسانوں کی صحت متاثر ہوئی ہے وہاں معمولات زندگی خصوصاََ معیشت پر اس کے گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔

عالمی ادارے کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کورونا وائرس سے عالمی معیشت کو 5 ہزار ارب ڈالر کا نقصان ہوگا۔ پاکستان کی بات کریں تو یہاں بھی شدید معاشی نقصان ہورہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق مارچ 2020ء میں 30ارب روپے کامالی خسارہ ہوا جبکہ 20 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے ہیں۔ کورونا وائرس کی وجہ سے حکومت لاک ڈاؤن کرنے پر مجبور ہے جس کی وجہ سے معیشت کا پہیہ جام ہے۔

موجودہ معاشی چیلنجز کو دیکھتے ہوئے ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں ’’کورونا وائرس کے معیشت پر اثرات‘‘ کے موضوع پر ایک مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہرین اقتصادیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو ںنذر قارئین ہے۔

ڈاکٹر قیس اسلم (ماہر اقتصادیات )

سابق کمیونسٹ ممالک سوویت یونین اور چین کا جائزہ لیں تو گزشتہ 70سے100 برسوں میں انہوں نے 4 چیزوں پر زور دیا۔ پہلی ماس سائنٹیفک ایجوکیشن، جس سے انہوں نے اپنی نوجوان نسل کو سائنٹیفک پروڈکٹیو قوم بنا دیا۔ دوسرا انہوںنے سائنٹیفک پبلک ہیلتھ سیکٹر بنایا جس کی وجہ سے وہ کورونا وائرس جیسی بیماری پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے حالانکہ یہ بیماری سب سے پہلے چین میں آئی تھی۔ تیسری چیز انفراسٹرکچر ہے۔ انہوں نے اپنے ملک میں ہر طرح کا انفراسٹرکچر بنایا جس کی وجہ سے چین اور روس نے معاشی ترقی کی۔ چوتھی چیز روبسٹ ڈیفنس ہے۔ان ممالک نے اپنے لوگوں کو ایک چیز نہیں دی اور وہ ہے سیاسی آزادی کیونکہ وہاں یک جماعتی نظام ہے۔ کمیونسٹ کیوبا سب سے زیادہ ڈاکٹر پیدا کرتا ہے جبکہ کمیونسٹ شمالی کوریا میں بھی معاملات بہتر ہیں حالانکہ ہمارے لحاظ سے وہ غریب ہیں۔ دوسری طرف یورپ اور کیپٹلسٹ ممالک نے اپنے لوگوں کو تعلیم دی، انفراسٹرکچر قائم کیا، ڈویلپمنٹ کی اور ڈیفنس پر بھی کافی خرچ کیا۔ ان ممالک نے سیاسی آزادی بھی دی اور جو نہیں دیا وہ پبلک ہیلتھ ہے۔ انگلینڈ کے علاوہ ان ممالک میں پبلک ہیلتھ سسٹم کمزور ہے یہی وجہ ہے اٹلی، سپین، امریکا و یورپی ممالک میں کورونا وائرس سے معاملات خراب ہوئے ہیں اور اب چین، کیوبا، روس و دیگر ممالک سے میڈیکل سامان ان ممالک میں جا رہا ہے۔ بدقسمتی سے ہم نے گزشتہ 70 برسوں میں صرف دفاع پر خرچ کیا۔ ہمارا نظام تعلیم پرانا ہے اور کئی اقسام کا ہے جس میں سائنسی تعلیم دی ہی نہیں جارہی۔ ہمارا نظام صحت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ ہمارے پاس جدید آلات ہیں اور نہ ہی ریسرچ۔ حالانکہ ہمارے ڈاکٹرز دنیا میں جاتے ہیں۔ ہمارا انفراسٹرکچر بالکل نہیں ہے۔ ہم نے گزشتہ 3 حکومتوں میں سیاسی آزادی دینے کی کوشش کی مگر اس نظام میں کرپشن نظر آتی ہے اور ہماری سیاسی ایلیٹ اور اعلیٰ سرکاری افسران معاملات کو اس طرح آگے نہیں بڑھا رہے جیسے ہونا چاہیے تھا۔ ہمیں اس وائرس سے ڈر اس لیے ہے کہ ابھی تک اس کا ’’اینٹی ڈوٹ‘‘ نہیں بنا۔ تکنیکی طور پر اس کی تیاری میں ڈیڑھ سال لگے گا۔ جب تک ویکسین تیار نہیں ہوگی تب تک اس وائرس سے ڈر رہے گا جس پر قابو پانے کیلئے دنیا نے معاشی سرگرمیاں کم کر دی ہیں۔ ہمارے جیسے ملک کے پاس اس وقت دو راستے ہیں، ایک یہ کہ باہر نکلیں اور بیماری سے مر جائیں جبکہ دوسرا یہ کہ گھر بیٹھیں اور بھوک سے مرجائیں۔ ایف بی آر کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ ماہ کے دوران 30 ارب روپے کا مالی خسارہ ہوا جبکہ پائیڈ کی رپورٹ کے مطابق 20 لاکھ افراد بے روزگار ہوئے اور اگر یہ لاک ڈاؤن 6ماہ تک جاری رہا تو میرے نزدیک 1 کروڑ افراد بے روزگار ہوسکتے ہیں۔ اس لیے بہت ضروری ہے کہ پرائیویٹ سیکٹر کے ساتھ مل کر موجودہ حالات میں ’’آؤٹ آف دی باکس‘‘ فیصلے کیے جائیں۔ وفاقی و صوبائی حکومتیں تو سنجیدہ نظر آتی ہیں مگر انفراسٹرکچر اور اداروں میں شفافیت کا مسئلہ ہے۔ حکومت نے احساس پروگرام کے تحت ضرورمندوں میں 12 ہزار روپے تقسیم کرنے کا آغاز کردیا ہے، اس رقم کا لوگوں تک پہنچنا ایک سوال ہے، رقم کس کو ملے گی؟ ملک کے 80 فیصد ہاؤس ہولڈ غریب ہیں جن میں سے 50 فیصد خط غربت سے نیچے ہیں جو کل آبادی کا 40فیصد ہیں۔ہمارے ہاں نجی شعبہ انجن آف گروتھ ہے جس کا چلنا بہت ضروری ہے۔ حکومت کو اس حوالے سے جامع حکمت عملی بنانا ہوگی، مالکان کو پابند کی جائے کہ وہ اپنے ملازمین کے لیے حفاظتی اقدامات کریں، ایک سے ڈیڑھ سال کیلئے ان پٹ پرائس کم کی جائے، حکومت اخراجات کم کرے، ڈویلپمنٹ پر زیادہ خرچ کیا جائے، ٹیکس کم کیا جائے اور شرح سود 7فیصد کی جائے ۔ہمارے بچپن میں جب ملک میں بحران آیا تو لوگوں کو راشن کارڈ دیئے گئے۔ اب پیسے دیے جارہے ہیں۔ خدارا! قوم کو بھکاری نہ بنائیں کہ وہ حکومت اور امراء سے پیسے مانگیں بلکہ یوٹیلٹی سٹورز کے نیٹ ورک کو استعمال کرتے ہوئے لوگوں کو راشن کارڈ جاری کیے جائیں۔ حکومت کو اس بجٹ اور اگلے بجٹ میں بھی بڑے اقدامات کرنا ہونگے۔ دنیا میں پٹرول سستا ہوگیا ہے، حکومت نے اس کی امپورٹ بند کردی ہے حالانکہ یہ موقع ہے کہ پٹرول کے ذخائر بنائے جاتے، اس سے لوگوں کو روزگار بھی مل جاتا اور سال، ڈیڑھ سال کا پٹرول بھی ذخیرہ ہوجاتا۔سوال یہ ہے کہ حکومت نے خود کو معاشی فریق کیوں بنایا ہوا ہے؟ ہمارا انجن آف گروتھ نجی شعبہ ہے لہٰذا اس کو فروغ دیا جائے۔ ہماری ایکسپورٹس نہیں ہورہی۔ ہمارے تعلیمی ادارے انٹرنیٹ پر چلے گئے ہیں لہٰذا ہمیں ایسی جدید چیزیں اپنے لوگوں کو دینا ہونگی۔ بین الصوبائی گڈز ٹرانسپورٹ کو کھولنا ہوگا اور سپلائی چین کو بڑھانا ہوگا ورنہ شہروں کے اندر بحران پیدا ہوجائے گا۔ ابھی تک ہمارے ہاں کورونا وائرس سے جتنی ہلاکتیں ہوئی ہیں اس سے زیادہ تو بس الٹنے سے ہوجاتی ہیں مگر وہاں تو اس قسم کے اقدامات نہیں کیے جاتے۔ آپ نے ٹرانسپورٹ کو تو ریگولیٹ نہیں کیا حالانکہ روزانہ بڑے بڑے حادثات ہوتے ہیں مگر یہاں 50 افراد ہلاک ہوئے تو ملکی معیشت کا برا حال کر دیا گیا۔ لاک ڈاؤن کرنا ٹھیک تھا مگر بہتر پالیسی سے آہستہ آہستہ کاروبار کھولنا چاہیے تھا۔ معاشی حالات سنگین ہوتے جارہے ہیں، ہماری معیشت 2 فیصد پر آگئی ہے، اس سے نیچے نہیں جانی چاہیے لہٰذاحکومت کو بہتر پالیسی سازی کرنا ہوگی۔ جہاں کورونا کی تشخیص ہوئی ہے صرف ان کو لاک کریں لیکن پورا ملک بند نہ کریں۔ حکومت کو سمجھنا چاہیے کہ معاشی پہیہ چلے گا تو کورونا سمیت دیگر ملکی مسائل ختم ہوجائیں گے۔ حکومتی مشیر اپنے مفادات میں مشورے دیتے ہیں جن کا فائدہ ملک و قوم کو نہیں ہوتا لہٰذا پالیسی سازی میں تمام سٹیک ہولڈرز کو شامل کیا جائے۔

عرفان اقبال شیخ (صدر لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز )

کورونا وائرس نے پوری دنیا میں تباہی مچائی ہے، یہ ایک آفت ہے جو وباء کی صورت میں آئی ہے اور اس کے خاتمے میں وقت لگے گا۔ امریکا، اٹلی، سپین نے اس بیماری کو ہلکا لیا، وہاں لوگ اکٹھے ہوئے اور پھر تیزی کے ساتھ  وہاں یہ وباء پھیل گئی جس کے بعد اب ان کیلئے اس پر قابو پانا مشکل ہوتا جارہا ہے۔ کورونا وائرس نے یکدم ختم نہیں ہونا بلکہ یہ ابھی کچھ عرصہ چلے گا لہٰذا ایسی صورتحال میں مکمل لاک ڈاؤن ملکی مفاد میں نہیں۔ ہماری کمزور معیشت اس کی متحمل نہیں ہوسکتی لہٰذا اگر یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا اور معاشی منصوبہ بندی نہ کی گئی تو معیشت کو کورونا ہوجائے گا جس کے خطرناک نتائج سامنے آئیں گے۔کورونا وائرس کے بعد سب سے بڑا مسئلہ ’’کیش فلو‘‘ کا آئے گا، لوگوں کے پاس کاروبار کیلئے پیسے ہی نہیں ہونگے۔ اس وقت ہماری ساری انڈسٹری جمود کا شکار ہے۔ اگر یہ لاک ڈاؤن مزید جاری رہا تو خطرناک معاشی نتائج سامنے آئیں گے۔ ایکسپورٹ اور فارماسیوٹیکل انڈسٹری کھل گئی ہے مگر مقامی صنعت بالکل بند ہے۔ عام آدمی کے ساتھ ساتھ چھوٹے کاروباری افراد کے پاس پیسے ختم ہوگئے ہیں۔ حکومت کو میری تجویز ہے کہ صنعت، تجارت اور کاروبار کی بحالی کے حوالے سے ’’ایس او پیز‘‘ طے کرے اور بتدریج کاروبار کھولا جائے،مارکیٹس کھولنے کے حوالے سے بھی لائحہ عمل بنایا جائے۔ کنسٹرکشن کے کاروبار کی طرح تمام کاروباری شعبہ جات کو ریلیف دینا ہوگا۔ اس وقت معیشت کا چلنا ضروری ہے لہٰذا 1 سے 2 برس کرلیے تمام کاروبار کو کنسٹرکشن کے کاروبار کی طرح پیکیج دیا جائے۔ اگر حکومت نے بروقت اقدامات نہ کیے اور شناختی کارڈ کی شرط و دیگر رکاوٹیں کھڑی کیں تو سنگین مسائل پیدا ہوجائیں گے۔ معاشی بدحالی کی وجہ سے مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے مرنے والوں کی تعداد کورونا وائرس کے متاثرین سے زیادہ ہوگی۔ یہ درست ہے کہ حکومت پر عالمی اداروں کا دباؤ بھی ہے لیکن اپنے ملکی حالات دیکھتے ہوئے انہیں دبنگ فیصلے لینا ہونگے۔کورونا کی وجہ سے آغاز میں ہی بہت نقصان ہوچکا ہے۔ ہمارا خیال تھا کہ اس مرتبہ 25 سے 26 بلین کے درمیان ہماری ایکسپورٹ ہوگی۔ ہماری ٹیکسٹائل انڈسٹری بھی بہت اچھی چل رہی تھی اور اپنی کپیسٹی سے زیادہ رزلٹ دے رہی تھی۔ بدقسمتی سے کورونا وائرس کی وجہ سے سب کچھ ڈسٹرب ہوگیا۔ چین سے ہم سالانہ ساڑھے 14بلین کی امپورٹ کرتے تھے جبکہ 1.8 بلین ایکسپورٹ کرتے تھے۔ اسی طرح امریکا و پورپی ممالک کے ساتھ بھی ہمارا بہت زیادہ بزنس تھا جو اب نہیں ہورہا اور آئندہ چند ماہ میں ایکسپورٹس کا 3 سے 4 بلین کا نقصان ہوگا۔ ہماری مقامی انڈسٹری بھی نہیں چل رہی، اگر ابھی پلاننگ نہ کی گئی تو بے روزگاری ایک بہت بڑا مسئلہ ہوگی۔ حکومت نے میڈیسن کمپنیاں اور ایکسپورٹ والے کاروبار کھولے ہیں لیکن اگر ان سے منسلک سینکڑوں دوسری صنعتیں نہ کھولی گئیں تو مشکل صورتحال پیدا ہوجائے گی۔کاروبار کی بحالی کیلئے سالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد کیلئے تمام چیمبرز اور فیڈریشن کو ساتھ ملایا جائے ۔ ہر انڈسٹری کے ایس او پیز مختلف ہیں لہٰذا حکومت ہمارے ساتھ مل کر ان کے ایس او پیز تیار کرے۔ فیکٹریوں اور صنعتوں کے باہر سینی ٹائزیشن گیٹ لگائے جائیں۔سینی ٹائزر کا استعمال یقینی بنایا جائے۔ ماسک اور دستانے لازمی قرار دیے جائیں۔ لیبر کو چیک کرنے کیلئے ایک ڈاکٹر بٹھایا جا ئے جو ملازمین کا ٹمپریچر چیک کرے اور کسی بھی مشتبہ ملازم کو اندر آنے سے روکے۔یہ ایس او پیز طے کیے جائیں اور صنعت کو بتدریج کھولا جائے۔ جہاں گنجان مارکیٹ نہیں ہے، اسے کھولنے کے حوالے سے بھی ایس او پیز تیار کیے جائیں اور انہیں کھولا جائے۔ یہ کام ابھی سے ہی شروع کیے جائیں تاکہ معیشت کو کورونا سے بچایا جاسکے۔ اب صرف باتیں نہیں عملی طور پر کام کرنا ہوگا۔ لاہور چیمبر نے وزیراعظم ریلیف فنڈ میں 2 کروڑ ، وزیراعلیٰ پنجاب کو 1 کروڑ روپے کے فنڈز دیے ہیں جبکہ ہم گورنر پنجاب کے ساتھ مل کر بھی کام کر رہے ہیں۔ فوری طور پر حقداروں کو امدادی رقم دی جائے۔ میں نے اس حوالے سے وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کو ایک سکیم دی ہے کہ بجلی کے بلوں سے مستحقین اور غرباء کا اندازہ لگایا جائے۔ لاہور چیمبر نے لیسکو سے 50 سے 100یونٹ استعمال کرنے والے صارفین کا ڈیٹا اکٹھا کیا ہے، 50 یونٹ استعمال کرنے والوں کی تعداد 4 لاکھ 9 ہزار جبکہ 100 یونٹ والوں کی تعداد ساڑھے 8 لاکھ ہے۔ یہ تمام لوگ غریب ہیں جن کا نام، پتہ اور رابطہ نمبر سب موجود ہے۔ حکومت تمام بجلی کمپنیوں سے مستحق افراد کا ڈیٹا لے کر ان کی مدد کرے۔

ڈاکٹر محمد ارشد (ریجنل چیئرمین فیڈریشن آف پاکستان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز)

کورونا وائرس نیا نہیں ہے۔ میرے استاد ڈاکٹر اکرم منیر نے 1995ء میں اس وائرس پر امریکا سے پی ایچ ڈی کی۔ اس وائرس کی ایک فیملی ہے جس کے اب تک تین وائرس سامنے آچکے ہیں۔ پہلا وائرس SARS ، دوسرا MERS اور تیسرا COVID-19 ہے۔MERS کی شرح اموات 37فیصد تھی مگر ہم نے اس کا ذکر اتنا نہیں سنا۔ حالیہ کورونا وائرس کی شرح اموات کے حوالے سے ایک سائنسدان نے کہا ہے کہ اس کے بارے میں ابھی کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہے۔ جس طرح اس کی سکریننگ ہوتی جائے گی، سیمپل سائز بڑا ہوگا تو اس کا درست حساب لگایا جاسکے گا۔ ووہان چین کا نیا شنگھائی ہے جہاں سے کورونا وائرس کا آغاز ہوا۔ چین سے دنیا میں لاکھوں لوگ سفر کرتے ہیں۔ ووہان سے لوگ پورے چین میں گئے مگر اس نے پورے ملک میں لاک ڈاؤن نہیں کیا بلکہ صرف ووہان، شنگھائی اور بیجنگ میں کیا۔ باقی چین میں کوئی ریڈ الرٹ نہیں تھا؟ ہم گلوبل ویلیج میں رہتے ہیں اس لیے مجھے حکومت کی مجبوریوں کا ادراک ہے۔ ہم دنیا کی خواہشات پر چلتے ہیں، ہمیں اپنے ملک کے حالات و واقعات کے مطابق فیصلے لینے چاہئیں۔ اس وائرس کی تحقیق کیلئے پاکستان کو چین کے وائرولوجسٹ کی سپرویژن میں اپنے بہترین وائرولوجسٹ کی ٹیم بنانی چاہیے جو اس وائرس کی تحقیق کرے۔ چین آج اس وائرس سے نمٹنے کی کامیابی کا جشن منا رہا ہے۔ اس نے اپنے سیاحتی مقامات بھی کھول دیے ہیں۔ ہمیں چین کے تجربے سے فائدہ اٹھانا چاہیے نہ کہ دنیا کے پیچھے بھاگنا چاہیے۔ آج امریکی صدر اپنے گورنرز کے ساتھ وہ زبان استعمال کر رہا ہے جو ہماری سیاست میں کبھی استعمال نہیں ہوئی۔ مجھے وزیراعظم عمران خان سے توقع ہے کہ وہ اس صورتحال پر موثر اقدامات کریں گے۔ کہتے ہیں کہ عظیم ملاحوں کا پتا عظیم طوفان ہی دیتے ہیں۔ جو پر سکون سمند ر میں کشتی چلاتے ہیں، انہیں تو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ بھنور سے کیسے نکلنا ہے۔ ہماری معیشت کمزور ہے، اس میں دیگر ممالک جتنا دم نہیں ہے لہٰذا ہمیں بڑے فیصلے لینا ہونگے۔ چینی ماہرین کے مطابق کورونا وائرس کے حوالے سے 28 دن سے زیادہ لاک ڈاؤن کی ضرورت نہیں۔ پاکستان میں موجود وائرس زیادہ مہلک نہیں ہے۔ ہمارے معاملات یورپ و دیگر ممالک سے مختلف ہیں۔ ہمارا ریکوری ریٹ زیادہ ہے، لوگوں کی قوت مدافعت بہتر ہے لہٰذا اب معاشی بہتری کیلئے اقدامات کیے جائیں۔ لوگ غربت اور بے روزگاری سے تنگ آگئے ہیں، لوگوں کا کاروبار اور روزگار بحال کیا جائے مگرحفاظتی اقدامات اور آگاہی مہم بھی جاری رکھی جائے۔ معیشت کی بحالی کیلئے تمام کاروباری شعبوں کو کنسٹرکشن کے کاروبار جیسا پیکیج دیا جائے، جو بھی شخص بینک کے ذریعے پیسہ لائے ا س سے رقم کے بارے میں نہ پوچھا جائے اور 5برس کی ٹیکس چھوٹ دی جائے تاکہ ملک معاشی طور پر مضبوط ہوسکے۔ کورونا وائرس سے پیدا ہونے والی صورتحال کو پیسہ کمانے کا ذریعہ نہ بنایا جائے، حکومت کو چاہیے کہ ٹیسٹنگ کٹس و غیرہ پر 10 فیصد سے زیادہ منافع کمانے والے کو جرمانہ کیا جائے۔ خوراک اور کنسٹرکشن کے کاروبار سے 50 سے زائد صنعتیں جڑی ہیں لہٰذا ان کی بحالی کے حوالے سے بھی لائحہ عمل تیار کیا جائے۔موجودہ صورتحال ہمارے دینی قائدین کے پاس تبلیغ کیلئے موثر ہے۔ آج دنیا کو یہ بتایا جائے کہ ہاتھ دھونا اور صفائی ستھرائی تو ہمارے دین کا جزو ہے۔ دن میں 36 مرتبہ ہاتھ دھونے کی ہدایت ہے۔ 5نمازوں میں 15 مرتبہ، 2 نفل نمازوں میں 6 مرتبہ، کھانے میں 6 مرتبہ(کھانے سے پہلے اور بعد)، ٹائلٹ سے فراغت کے بعد ہاتھ دھونے کی تلقین ہے۔ جتنی مرتبہ آج عالمی ادارہ صحت ہاتھ دھونے کی ہدایت کر رہا ہے اس سے زیادہ تو ہاتھ تو ہم پہلے ہی دھوتے ہیں۔ یہ دینی تبلیغ کیلئے اہم وقت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔