انسانیت کے جرّی ہیرو

سید عاصم محمود  اتوار 19 اپريل 2020
موت سے نبردآزما مسیحاؤں کی ولولہ انگیز داستان جو تندہی سے اجنبیوں کی زندگیاں بچانے پر کمربستہ رہے اور آخرکار اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔ فوٹو: فائل

موت سے نبردآزما مسیحاؤں کی ولولہ انگیز داستان جو تندہی سے اجنبیوں کی زندگیاں بچانے پر کمربستہ رہے اور آخرکار اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔ فوٹو: فائل

 کورونا وائرس کے بطن سے پھوٹی وبا ‘ کوویڈ 19 انسانوں کو نشانہ  بنانے لگی تو سب سے پہلے ہیلتھ ورکرز یا کارکنان شعبہ ِصحت اس کے خلاف سینہ سپر ہوئے۔ تب ڈاکٹر ‘ نرسیں اور پیرا میڈیکل افراد بڑی جانفشانی اور ذمے داری سے تکلیف اور اذیت کا نشانہ مریضوں کی تیمار داری کرنے لگے۔

مقصد یہ تھا کہ انسانوں کو جس آفت نے دبوچ لیا ہے‘ اس سے انھیں نجات دلائی جائے۔ جب وبا دھیرے دھیرے پوری دنیا میں پھیل گئی تو ہر جگہ کارکنان شعبہ صحت ہی نے بڑی بہادری اور تندہی سے کوویڈ19 کا مقابلہ کیا۔ وہ وبا کا شکار بنے مردوزن کی جانیں بچانے کے لیے سرتوڑ کوششیں کرتے رہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اجنبی لوگوں کی زندگیاں بچانے کی خاطر انہوں نے اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال دیا۔مگر اس طرح گھپ اندھیرے میں امید اور روشنی کو جنم دینے والی شمعیں بھی روشن ہو گئیں۔

ایک انسان کی جان بچا لینا نہایت عظیم عمل ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: ’’جس نے کسی انسان کی جان بچائی‘ تو گویا پوری انسانیت کو بچا لیا۔‘‘ (سورہ مائدہ32)ممتاز روسی ادیب انطون چیخوف کہتا ہے: ’’پیشہ ڈاکٹری ایک کارنامہ ہے… یہ قربانیاں دینے اور روح اور سوچ کے خالص پن سے وجود میں آتا ہے‘‘۔غرض ہر انسانی معاشرے میں کارکنان شعبہ ِصحت کی بہت زیادہ اہمیت ہے۔

کوویڈ19 سے مقابلہ کرنا ویسے بھی بچوں کا کھیل نہیں تھا۔ اسے ایسے خطرناک اور پُراسرار وائرس نے جنم دیا جس کی خصوصیات ابھی تک دھیرے دھیرے سامنے آ رہی ہیں۔ مثلاً چار ماہ بعد اپریل میں انکشاف ہوا کہ وائرس بذریعہ سانس بھی ایک انسان سے دوسرے انسان میں منتقل ہو سکتا ہے۔ درحقیقت نئے کورونا وائرس،سارس کوو2کی سب سے بڑی خاصیت یہی بن گئی کہ وہ انسانی جسم میں بڑی آسانی سے داخل ہو سکتا ہے۔ اور دوسری بڑی خصوصیت یہ کہ وہ جسم میں پہنچتے ہی انسانی خلیوں سے بڑے آرام سے جڑ کر انسان کو موت کے منہ میں دھکیلنے میں لگتا ہے۔

امریکی سائنس دانوں نے تحقیق سے جاناکہ جب مریض باتیں کرے‘ تو تب بھی اس سے بذریعہ لعاب دہن وائرس قریب بیٹھے صحت مند انسانوں میں بذریعہ سانس داخل ہو سکتا ہے۔ یہ خاصیت سارس کوو2کو نہایت خطرناک وائرس بناتی ہے۔دراصل جب انسان بات کرے‘ تو اس کے منہ سے سانس کے ساتھ لعاب دہن کے غیر مرئی آبی بخارات بھی نکلتے ہیں۔ یہ آبی بخارات باہر نکلتے ہی فضا میں شامل ہو جاتے ہیں۔ ہوا میں اڑتے اڑتے سانس کے ذریعے ہی یہ قریب موجود دیگر انسانوں کے جسم میں داخل ہو سکتے ہیں اور انہی آبی بخارات میں سارس کوو2 کے وائرس ہونا ممکن ہے۔ ماہرین کی رو سے فضا میں گھومتے پھرتے آبی بخارات میں وائرس دو تین گھنٹے تک زندہ رہتا ہے۔ گویا سارس کوہ 2 کا مریض اگر بات بھی کرے تو بذریعہ آبی بخارات وہ وائرس اس جگہ پھیلا سکتا ہے۔

غرض سارس کوو 2عذاب بن کر بنی نوع انسان پر نازل ہوا۔ تاہم کارکنان شعبہ صحت غیر معمولی فرض شناسی اور بہادری دکھا کر وائرس کا بھرپور مقابلہ کرنے لگے۔ ان کی ہمتیں پست نہیں ہوئیں اور شدید دباؤ میں بھی انہوں نے اپنا حوصلہ جوان رکھا۔ جب وبا کئی ممالک میں تیزی سے پھیلی‘ تو بہت سے ہسپتالوں میں ویسا ماحول پیدا ہو گیا جو جنگ کے دنوں میں جنم لیتا ہے۔ اس جنگی ماحول میں کئی ڈاکٹروں کو بعض اوقات زبر دست نفسیاتی کشمکش سے گذرنا پڑا۔

اٹلی کے ا یک قصباتی ہسپتال کا ڈاکٹر بتاتا ہے: ’’ہمارے ہسپتال میں چار وینٹی لیٹر تھے۔ وہ ہم نے بوڑھے مریضوں کو لگا دیئے۔ چند دن بعد وہاں کوویڈ19کے پانچ نوجوان مریض لائے گئے۔ ان میں سے ایک کی حالت بہت نازک تھی۔ وہ سانس لینے میں بہت دقت محسوس کرتا تھا۔ آخر فیصلہ ہوا کہ اسے وینٹی لیٹر دیا جائے۔ میں پھر ایک بوڑھے کے پاس پہنچا تاکہ اس کا وینٹی لیٹر لے سکوں ۔جب میں نے اس کے منہ سے ماسک اتارا تو بوڑھے نے ایسی نظروں سے دیکھا کہ میں لرز کر رہ گیا۔ اس کی آنکھوں میں موت کا کرب‘ بے بسی‘ دکھ‘ لاچارگی اور نظر انداز کیے جانے کا غم … مجھے سب انسانی جذبے ملے جلے دکھائی دیئے۔ میں اس کی نگاہیں ساری عمر نہیں بھول سکتا۔‘‘ ڈاکٹر نے یہ نہیں بتایا کہ وہ بیمار بوڑھا زندہ بچ گیا یا اللہ کو پیارا ہوا۔

کوویڈ19پھیلنے لگی تو تقریباً ہر ملک میں جلد پتا چل گیا کہ ہسپتالوں میں اس کا مقابلہ کرنے کی خاطر مناسب سہولیات موجود نہیں۔ خاص طور پر اس حفاظتی سازو سامان کی کمی تھی جسے زیب تن کر کے ڈاکٹر ‘ نرسیں وغیرہ اپنے آپ کو وبا کے وائرس یا جراثیم سے محفوظ رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود کارکنان شعبہ صحت نے اپنے فرض سے منہ نہ موڑا اور بیماریوں کی تیمارداری میں مشغول رہے۔حفاظتی لباس نہ پہننے کے باعث مگر دنیا بھر میں ہزار ہا کارکنان شعبہ صحت بھی سارس کوو2 کا شکار ہو گئے۔ ان میں سے اکثر نے خود کو قرنطینہ میں رکھ کر صحت یاب کر لیا۔ تاہم دو سو سے زائد ڈاکٹروں‘ نرسوں اور پیرا میڈیکل عملے نے وبا کا دلیری سے مقابلہ کرتے ہوئے جان دے دی۔ یوں انہوں نے تاریخ انسانیت میں قربانی و ایثار کانیا لازوال باب رقم کر دیا۔حتیٰ کہ بعض مقامات پر ڈاکٹروں نے رقص کیا اور گانے گائے تاکہ مریضوں کا حوصلہ بڑھا سکیں اور انہیں زندگی کے قریب لے آئیں۔

عام مشاہدہ ہے،جب کوئی بیماری خصوصاً وبا پھوٹے تو ہر انسان کو اپنی جان بچانے کی فکر ہوتی ہے۔ ایسے غیر معمولی عالم میں صرف ڈاکٹر ‘ نرسیں اور پیرا میڈیکل افراد ہی تکلیف و اذیت میں مبتلا مریضوں کی مدد کرنے پہنچتے ہیں۔ وہ اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر موت کے در تک پہنچے انسانوں کا علاج کر تے اور انہیں شفایاب کر کے نئی زندگی عطا کرتے ہیں ۔ اسی لیے کارکن صحت کو مسیحا کہا گیا۔عام خیال ہے،بعض مسیحا مادہ پرستی کی لپیٹ میں آ کر لالچ و ہوس کا شکار ہو چکے ۔ لیکن ان کی اکثریت دیانت داری اور بے غرضی سے مریض کا علاج کرتی ہے۔ کوویڈ19 کے دوران یہی امر نمایاں ہو کر سامنے آیا۔

نئی وبا کے خلاف نبردآزما کارکنان ِشعبہ صحت کی یادگار خوبی یہ ہے کہ حفاظتی لباس اور ضروری آلات و سامان کے بغیر بھی انہوں نے اپنی ذمے داری فرض شناسی سے نبھائی اور لیت و لعل سے کام نہیں لیا۔حفاظتی لباس کی شدید کمی کے واقعات پرطانیہ‘ اسپین‘ اٹلی‘ امریکا جیسے امیر ممالک میں بھی رونما ہوئے۔ وہاں ڈاکٹر اور نرسیں اپنے چہرے اور جسم پر کوڑا پھینکنے والے پلاسٹک بیگ چڑھا کر مریضوں کی تیمار داری میں مصروف رہے۔ معالجین نے غوطہ خوری اور اسکی انگ میں کام آنے والی گوگلز پہن کر علاج کیا۔دوردراز علاقوں میں وبا سے لڑتے ڈاکٹروں کو جو کچھ ملا،وہ انھوں نے چہرے پہ پہن لیا تاکہ وائرس سے محفوظ رہ سکیں۔

عام حکم یہ تھا کہ ہر آدمی دوسرے آدمی سے کم از کم دو میٹر فاصلہ رکھے۔ ڈاکٹروں اور نرسوں وغیرہ کے لیے ایسا کرنا ممکن نہیں تھا۔ انہیں حفاظتی لباس کے بغیر مریضوں کا علاج کرتے ہوئے ان کے پاس جانا پڑا۔ اسی لیے اندازہ ہے‘ دنیا بھر میں ہزار ہا ڈاکٹروں ‘ نرسوں اور پیرا میڈیکل عملے کے اجسام میں سارس کوو2 داخل ہو گیا۔ تاہم بروقت علاج کی وجہ سے یہ وائرس خوش قسمتی سے زیادہ کارکنان صحت کی جانیں نہیں لے سکا۔ اگر ان کارکنوں کی بہت بڑی تعداد خود بیمار ہو جاتی ‘ تو ہر ملک میں نیا طبی بحران اٹھ کھڑا ہوتا۔ اٹلی میں یہی ہوا کہ ڈاکٹروں اور نرسوں کی بڑی تعداد کو سارس کوو 2چمٹنے کے باعث قرنطینہ کرنا پڑا۔ ان کی عدم موجودگی سے اٹلی میں کارکنان صحت کی شدید کمی واقع ہو گئی۔ اس خرابی نے وہاں اموات کی تعداد میں اضافہ کر ڈالا۔

خدمات انجام دیتے ہوئے ہر ملک میں کارکنان صحت کو روزانہ تیرہ چودہ بالکل زیادہ گھنٹے مسلسل کام کرنا پڑا۔ کام کی زبردست زیادتی نے کئی ڈاکٹروں ‘ نرسوں وغیرہ کی صحت پر منفی جسانی و نفسیاتی اثرات مرتب کیے۔ مگر وہ جوش و جذبے سے دکھی انسانیت کی خدمت کرتے رہے۔ انہوں نے عام رواج سے ہٹ کر احتیاطی تدابیر اپنا لیں مگر مریضوں کے علاج سے بالعموم منہ نہیں موڑا۔ یوں قربانی و ایثار کے ساتھ ساتھ ڈاکٹروں‘ نرسوں اور پیرا میڈیکل سٹاف نے بہادری اور ہمت کی بے مثال داستانیں بھی رقم کردیں۔کئی کئی گھنٹے ماسک پہننے سے نرسوں کے چہروں پہ گھٹے پڑ جاتے۔چہرہ سوج کر درد کرنے لگتا مگر وہ اپنے کام میں مشغول رہتیں۔

ڈاکٹر شوبھا لکشمی کراچی میں ڈاؤ یونیورسٹی آف ہیلتھ سائنسز اسپتال کے آئسو لیشن وارڈ کی سربراہ ہیں۔ یہ علیحدہ وارڈ کوویڈ19 سے متاثر مریضوں کی خاطر بنایا گیا۔ ڈاکٹر شوبھا بتاتی ہیں: ’’ ہمارے ملک میں شعبہ صحت کمزور ہے۔ افرادی قوت اور سازو سامان‘ دونوں کی کافی کمی ہے۔ حالیہ وبا نے ڈاکٹروں ‘ نرسوں اور دیگر طبی عملے کو تھکن‘ فکر و تردد اور پریشانی سے بھی دوچار کر دیا۔ مجھے ہی دیکھے۔ میرے پاس اب اپنے گھر والوں کے لئے کوئی وقت نہیں۔ میں دن کا بیشتر وقت وارڈ میں گزارتی ہوں تاکہ مریضوں پر توجہ دے سکوں۔‘‘

صوبہ سندھ میں کوویڈ19 کے مریضوں کا علاج جناح پوسٹ گریجویٹ میڈیکل سینٹر ‘ کراچی میں بھی جاری ہے۔36سالہ ڈاکٹر عمر سلطان متاثرین کی تیمار داری کرنے والے بہادر معالجین میں شامل ہیں۔ ان کا کہناہے: ’’حالیہ وبا نے تو پوری دنیا میں حالات تبدیل کر کے رکھ دیئے۔ اب ہر انسان اپنی صحت کی حفاظت پر مکمل توجہ دے رہا ہے۔ مگر ہمارا کام بہت کٹھن اور تھکا دینے والا بن چکا۔ ہر ہسپتال میں ڈاکٹر‘ نرسیں‘ پیرامیڈیکل حتی کہ سیکورٹی گارڈ تک اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر دوسروں کی زندگیاں بچا رہے ہیں۔‘‘

دنیا بھر میں خاتون ڈاکٹروں ‘ نرسوں اور طبی عملے میں شامل دیگر خواتین کو زبردست خراج تحسین پیش کیا گیا۔ ان خواتین نے بیمار اجنبیوں کی خاطر اپنے اہل خانہ سے دوری اختیار کر لی اور گھنٹوں ان کی تیمار داری پر صرف کئے۔ خصوصاً پاکستان سمیت سبھی ممالک میں نرسیں صف اول پر رہ کر کوویڈ 19 سے مقابلہ کرتی رہیں۔ ان کی فرض شناسی اور دلیری سے سبھی لوگوں کو متاثر کیا۔سچ یہ ہے کہ کوویڈ19 سے نبرد آزما سبھی کارکنان صحت ہمار ے ہیرو اور ہیروئنیں ہیں۔طبیمیدان جنگ میں داد شجاعت دیتے ہوئے ان میں کچھ اپنی جانیں ہم وطنوں کی خاطر قربان کر چکے۔ بقیہ وبا کے خلاف سرگرمی سے ڈٹے ہوئے ہیں، وہ وبا جس نے امیر غریب اور رنگ‘نسل اور مذہب کی پروا کئے بغیر ہر انسان کو اپنا نشانہ بنا ڈالا۔کہیں سفید جھنڈے لہرا تو کہیں گانے گا کر ان کی خدمات کو سراہا گیا ۔پولیس افسر انھیں سلیوٹ کرتے دیکھے گئے۔

دکھی انسانیت کی خاطر جان کی بازی لگا دینے والے کارکنان شعبہ صحت میں سب سے زیادہ اٹلی سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہاں 80سے زائد کارکن کووویڈ 19 کا شکار ہو کر چل بسے۔ اس کے بعد چین (20) ‘ اسپین(115) فرانس(10) ‘ برطانیہ (6) ‘ ایران(5) اور دیگر ممالک کا نمبر آتا ہے۔پاکستان میں دو کارکنوں نے اپنے فرض کی ادائیگی کے دوران موت کو گلے لگا لیا۔ ان عظیم ہیرو میں سے بعض کا تذکرہ درج ذیل ہے۔

ڈاکٹر اسامہ ریاض(پاکستان)

گلگت بلتستان سے بھی ہم وطنوں کی کثیر تعداد ایران گئی ہوئی تھی۔ جب وہ واپس آئے تو مقامی حکومت نے ان کی اسکریننگ کے عمل کا آغاز کر دیا۔ اس عمل میں چلاس سے تعلق رکھنے والے نوجوان 26سالہ ڈاکٹر اسامہ ریاض پیش پیش تھے۔ وہ اپنے کام میں اتنے مگن تھے کہ حفاظتی لباس پہنے بغیر آنے والوں کی اسکریننگ کرتے رہے۔یہ عیاں ہے کہ دوران کار متاثرین کوویڈ19 سے وائرسوں کی بڑی تعداد ڈاکٹر کے جسم میں پہنچ گئی۔ وہ ایک شام واپس آئے‘تو اچانک ان کی طبعیت خراب ہو گئی وہ پھر اسی رات چل بسے۔ وہ بالکل صحت مند تھے مگر ان کے پھیپھڑوں میں سارس کوو 2  کی وجہ سے ’’سائٹو کائن طوفان‘‘ پیدا ہو گیا۔ اسی طبی حالت نے سانس روک کر انہیں شہید کر دیا۔سائٹو کائن طوفان اس وقت وجود میں آتا ہے جب انسانی مدافعتی نظام حملہ آور وائرس کا مقابلہ کرتے ہوئے بہت زیادہ متحرک ہو جائے۔ تب وہ ا نسان کو ہلاک کر ڈالتا ہے۔

ڈاکٹر اسامہ ریاض کی موت کی ذمے دار حکومت ہے کہ وہ انہیں مطلوبہ حفاظتی لباس مہیا نہیں کر سکی۔ ڈاکٹر اسامہ تو اس منفی بات کے باوجود خوفزدہ نہیں ہوئے اور سرگرمی سے اپنا فرض ادا کرتے رہے۔ آخر دوسروں کی جانیں بچاتے ہوئے انہوںنے اپنی جان قربان کر دی۔ان کی کچھ عرصہ قبل شادی ہوئی تھی۔ ریاست آزاد کشمیر نے بعداز مرگ انہیں اپنے اعلیٰ ترین سول اعزاز نشان کشمیر سے نواز کر اپنی کوتاہی کی کچھ تلافی کر دی۔گلگت ہی میں ایک مرد نرس‘ مالک اشتر بھی کوویڈ 19 کے مریضوں کی تیمار داری کرتے ہوئے جاں بحق ہو ئے۔ ان کی عمر پچاس سال تھی۔ ان کی موت بھی موزوں حفاظتی لباس نہ ہونے کے سبب ہوئی۔ سارس کوو2منہ‘ آنکھ یا ناک کے راستے  بدن میں داخل ہو گیا۔ وہ پھر اس کے شدید حملے سے جانبر نہ ہوسکے۔

عریمہ شیخ (برطانیہ)

وسطی برطانیہ میں والسلال نامی ایک قصبہ واقع ہے۔ اسی قصبے کے والسلال میز ہسپتال سے 36 سالہ عریمہ شیخ بطور نرس وابستہ تھیں۔ ان کے والدین برسوں قبل، میرپور آزاد کشمیر سے برمنگھم، برطانیہ چلے آئے تھے۔ ان کے چار بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔ جب عریمہ کمسن تھیں تو ان کی نانی اماں بیمار ہوگئیں۔ انہوں نے بڑی چاہت اور لگاؤ سے نانی کی تیمارداری کی اور ان کا خیال رکھا۔ اسی دوران عریمہ میں نرس بننے کی تمنا نے جنم لیا۔2002ء میں عریمہ کی شادی ہوئی۔ اگلے سال وہ بطور ہاؤس کیپر والسلال مینر ہسپتال میں ملازمت کرنے لگیں۔ ساتھ ساتھ نرس بننے کی خاطر انہوں نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور نرسنگ کی تعلیم حاصل کرنے لگیں۔ پچھلے سال ان کی طویل تعلیم و تربیت اختتام کو پہنچی اور وہ ایک کوالیفائیڈ نرس بن گئیں۔ اسی اثناء میں وہ تین بچوں کی ماں بھی بن چکی تھیں۔

جب کوویڈ۔19 برطانیہ پہنچی تو وسطی علاقہ اس کا بڑا مرکز بن گیا۔ چونکہ والسلال مینر ہسپتالبڑی علاج گاہ ہے لہٰذا وہاں وبا کے مریضوں کی خاطرعلیحدہ وارڈ بنادیا گیا۔ عریمہ سمیت مختلف نرسوں کی ڈیوٹی وہاں لگی۔ وہ تندہی سے بیمار مردوزن کی نگہداشت کرنے لگیں۔ تاہم کسی مریض سے نیا کورونا وائرس انہیں بھی چمٹ گیا۔ وائرس نے تیزی سے عریمہ کے پھیپھڑوں پر حملہ کیا اور وہ شدید بیمار ہوگئیں۔ ان کا علاج کیا گیا مگر وہ جانبر نہ ہوسکیں۔ یوں وہ اپنی ذمے داری پوری صلاحیتوں سے نبھاتے ہوئے شہید ہوگئیں۔

عریمہ شیخ کے ایثار اور قربانی کو برطانیہ بھر میں سراہا گیا اور ان کی تعریف و توصیف کی گئی۔ برطانوی وزیر صحت، میٹ ہنوک نے صحافیوں کو بتایا کہ عریمہ دلیر ہیلتھ ورکر تھیں۔ تمام تر خطرات کے باوجود انہوں نے مریضوں کی تیمارداری سے منہ نہیں موڑا اور اپنی جان دے کر فرض شناسی کی اعلیٰ ترین مثال قائم کردی۔عریمہ شیخ کے عزیز و اقارب اور ملنے جلنے والوں نے برطانوی میڈیا کو بتایا کہ وہ ایک بے غرض خاتون تھیں اور ہر کسی کی مدد کرنے کو تیار رہتیں۔ انہوں نے ہمیشہ اپنے آپ پر دوسروں کو ترجیح دی اور خود کو آخر میں رکھا۔ لہٰذا ان کی شہادت کا سن کر عریمہ کے اہل خانہ کو زیادہ حیرت و پریشانی نہیں ہوئی۔ انہوں نے کمال جرأت اور اس ایمانی جذبے سے تکلیف دہ خبر کا سامنا کیا کہ ہر بندے کو اپنے رب کی جانب لوٹ جانا ہے۔

عریمہ شیخ سے قبل برطانیہ کے علاقے،لی آن سی(Leigh-on-Sea)میں مقیم ایک پاکستانی نژاد ڈاکٹر،حبیب زیدی مریضوں کا علاج کرتے جاں بحق ہو گئے تھے۔خیال ہے کہ کسی مریض سے وائرس انھیں چمٹ گیا۔علاج ہوا مگر وہ حالت سنبھل نہ سکی اور ڈاکٹر حبیب چل بسے۔

ڈاکٹر عبدالقادر سومرو(پاکستان)

اوائل اپریل میں کراچی کے ماہر امراض جلد، ڈاکٹر عبدالقادر سومرو بھی کوویڈ۔19 کے ہاتھوں چل بسے۔ آپ سماجی فلاح و بہبود میں سرگرم مسیحا تھے۔ ضلع شکارپور میں 1956ء میں پیدا ہوئے۔ چانڈکا میڈیکل کالج لاڑکانہ سے ایم بی بی ایس کیا۔ امراض جلد میں تخصص کرکے مختلف ہسپتالوں اور اداروں سے وابستہ رہے۔نظریاتی انسان تھے اور صوبہ سندھ میں کئی فلاحی ہسپتال قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔مرحوم کراچی کے علاقے گلشن حدید میں کلینک چلاتے تھے۔ کوئی غریب آتا تو اس سے نہ صرف فیس نہیں لیتے بلکہ ادویہ بھی پلّے سے دیتے۔

جب کوویڈ۔19 کی وبا پھیلی تو دوست احباب نے تجویز کیا کہ وہ اپنا کلینک بند کردیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ان کے پاس امراض جلد ہی نہیں عام بیماریوں کے مریض بھی آتے ہیں۔ کلینک بند ہوا تو وہ کہاں جائیں گے؟ چناں چہ وہ ہر مریض کا معائنہ کرتے رہے۔ لیکن اسی دوران کوویڈ۔19 کے کسی مریض نے انہیں سارس کو2 وائرس منتقل کردیا۔ڈاکٹر عبدالقادر سومرو ذیابیطس اور بلڈ پریشر میں مبتلا تھے۔ وبائی حملے نے اسی لیے ان کی حالت تشویش ناک بنادی اور وہ جانبر نہ ہوسکے۔ مرحوم چاہتے تو دوسرے لوگوں کی طرح گھر بیٹھ کر خود کو محفوظ کرسکتے تھے مگر بہ حیثیت معالج انہوں نے اپنا فرض ادا کرنا ضروری سمجھا اور اسے نبھاتے ہوئے ہی جان واپس اپنے رب کے سپرد کردی۔

ڈاکٹر عادل الطیار (سوڈان)

64 سالہ ڈاکٹر عادل سوڈان کے قصبے، اعتبارا میں پیدا ہوئے۔ والد سرکاری محکمے میں معمولی کلرک تھے۔ ان کے بارہ بیٹے بیٹیاں تھے۔ گھر میں جو شے آتی، وہ بارہ حصوں میں تقسیم ہوجاتی۔ اس چلن نے بچپن ہی میں کمسن عادل کو نظم و ضبط کا خوگر بنادیا۔ انہیں یہ بھی احساس ہوا کہ اگر وہ پڑھ لکھ جائیں تو اپنے اہل خانہ کی مدد کرسکتے ہیں۔ سوڈانی تہذیب میں خاندان کی مدد کرنا بوجھ نہیں اپنی ذمے داری سمجھی جاتی ہے۔یہی وجہ ہے،عادل دل لگا کر پڑھنے لگے اور ڈاکٹر بننے میں کامیاب رہے۔

وہ پھر برطانیہ چلیے آئے تاکہ اپنے اہل خانہ کا معیار زندگی بلند کرسکیں۔ وہ مختلف سرکاری ہسپتالوں سے وابستہ رہے۔ اپنی کمائی سے بہن بھائیوں کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ اعضا کی منتقلی کے سرجن تھے۔ 2010ء میں سوڈان میں آرگن ٹرانسپلانٹ سینٹر قائم کیا جہاں غریبوں کا مفت علاج ہوتا ہے۔ یوں برطانیہ جاکر بھی انہوں نے اپنے وطن کو فراموش نہیں کیا۔جب کوویڈ۔19 برطانیہ پہنچی، تو ڈاکٹر عادل نے حفاظتی تدابیر اختیار کرلیں۔ تاہم کسی مریض کا علاج کرتے ہوئے وبا کا وائرس ان سے بھی چمٹ گیا۔ آخر وہ ان کی جان لے کر ہی ٹلا۔ یوں برطانیہ میں ایک اور مسلمان ڈاکٹر مریضوں میں شفایابی تقسیم کرتے اللہ کو پیارے ہوئے۔ وہ اپنے دوست احباب میں ہردلعزیز شخصیت تھے۔

الفا سعادو(نائیجیریا)

یہ 1970ء کی بات ہے جب الفا سعادو نائیجیریا سے لندن، برطانیہ طب کی تعلیم حاصل کرنے آئے۔ 1976ء میں وہ ڈاکٹر بنے اور پھر انگلستان ہی میں بس گئے۔ انہوں نے لندن کے کئی ہسپتالوں میں کام کیا۔ ہزارہا مریض ان کے ہاتھوں شفایاب ہوئے۔ تجربے کار بن گئے تو برطانوی ہسپتالوں کے ناظم بھی رہے۔

2017ء میں ریٹائر ہوگئے۔ کوریڈ۔19 حملہ آور ہوئی تو ڈاکٹر الفا سعادو نے ریٹائرمنٹ کو خیرباد کہا اور مقامی کوئن وکٹوریہ میموریل ہسپتال میں جزوقتی کام کرنے لگے۔ وہ اپنے تجربے سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وبا کے مریضوں کو صحت یاب کرنا چاہتے تھے۔ گویا جب انسانیت وبا میں گرفتار ہوئی، تو انہوں نے گھر بیٹھنا پسند نہیں کیا اور میدان عمل میں اتر آئے۔ یہ انسان دوستی کی اعلیٰ مثال ہے۔بیماروں کا علاج کرتے ہوئے خطرناک وائرس نے ڈاکٹر الفا کو بھی دبوچ لیا۔ علاج ہوا مگر موذی جسم میں اپنے پنجے گاڑتا چلاگیا۔ آخر ڈاکٹر الفا اپنے پیاروں کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ اپنے حلقے میں مقبول شخصیت تھے۔ ایک باعمل مسلمان جنہوں نے غیر مسلموں پر اپنے مثالی کردار سے اسلام کے لیے مثبت خیالات مرتب کیے۔

’’اخلاقی‘‘ زخم

جنگ یا وبا کے دوران ہسپتالوں میں مسلسل مریض آنے لگتے ہیں۔ مریضوں کی کثرت کے باعث اکثر ڈاکٹر اور نرسیں اس مخمصے میں پھنس جاتے ہیں کہ کس کا علاج پہلے کیا جائے؟ ایسی مشکل میں عموماً کم زخمی انسانوں کو ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ ان کے بچنے کا موقع زیادہ ہوتا ہے۔ اسی طرح نوجوانوں کو بوڑھوں پر ترجیح ملتی ہے۔ لیکن کبھی طبی عملہ دونوں کو بچا نہ پائے تو بعض ڈاکٹر یا نرسیں غم و اندوہ حتیٰ کہ احساس جرم میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔ انہیں لگتا ہے کہ اموات کے ذمے دار وہ ہیں۔ ماہرین نفسیات نے اس انوکھی کیفیت کو ’’اخلاقی زخم‘‘ (moral injury) کا نام دے رکھا ہے۔

کوویڈ۔19 کے دوران بھی دنیا بھر کے ڈاکٹروں، نرسوں اور دیگر طبی عملے کو ’’اخلاقی زخم‘‘ لگتے رہے۔ دراصل ہر ہسپتال میں وینٹی لیٹر، حفاظتی سامان اور آلات وغیرہ کی شدید کمی تھی۔ اس لیے ہزارہا مریض اچانک آئے تو یہ طے کرنا کٹھن مسئلہ بن گیا کہ کس کا علاج پہلے کیا جائے۔ ایک ڈاکٹر کہتے ہیں ’’ہم معالج کسی کو مرتے دیکھ کر زیادہ پریشان نہیں ہوتے۔ ہمیں موت کا مقابلہ کرنا سکھایا جاتا ہے۔ مسئلہ تب جنم لیتا ہے جب ہم انسانوں کی قیمتی زندگی بچا نہ پائیں۔ عام حالات میں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘

دراصل جنگ یا وبا کے وقت سبھی ہیلتھ ورکرز طویل عرصے مسلسل کام کرتے ہیں۔ انہیں آرام کرنے اور سونے کا وقت بہت کم ملتا ہے۔ اس حالت میں انسان قدرتاً جسمانی و نفسیاتی تھکن کا نشانہ بنتا اور تب کسی کمزور لمحے وہ غلط فیصلہ بھی کرسکتا ہے۔ اگر یہ غلط فیصلہ کسی کی جان لے ، تو اخلاقی جرم سوہان ِروح بن جاتا ہے۔ ایک ممتاز برطانوی ڈاکٹر بتاتا ہے ’’ہم سب لوگوں کی مدد کرنے اس شعبے میں آتے ہیں۔ مگر جب بے بسی کا احساس جنم لے تو ہم کیا کریں؟ تجربے کاری اور بہترین آلات کے ہوتے ہوئے بھی تب ہم کسی کی جان نہیں بچاپاتے۔‘‘

سنگین بحران میں حکومت کا کردار بھی کارکنان شعبہ صحت پر اثر انداز ہوتا ہے۔ ایسے موقع پر حکومت کی بے حسی اور کوتاہیاں ان میں شدید غم و غصہ پیدا کرتی ہیں جو انہیں ادویہ اور ضروری آلات فراہم نہیں کرپاتیں۔ ایسے موقع پر ایک نرس نے اپنے جذبات یوں ظاہر کیے :’’ سب جانتے ہیں کہ ہم دوسروں کی زندگی بچانے کے مشن پر ہیں۔ مگر ہمیں یہ سمجھ نہیں آتی کہ ہمارے حکمران اس مشن سے کیوں بے خبر رہتے ہیں۔؟

۔۔۔

’’میرا وینٹی لیٹر نوجوان کو دے دو‘‘
بلجیم کی ایک نوے سالہ خاتون نے ایثار اور قربانی کی لازوال مثال قائم کردی۔ وسط مارچ میں قصبہ بنکوم کی رہائشی بوڑھی خاتون، سوزین ہولیرئس کو مقامی ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اسے کسی طرح کوویڈ۔19 چمٹ گئی تھی۔ ہسپتال میں پہلے ہی وبا سے متاثر مریض داخل تھے اور وینٹی لیٹرز کی شدید کمی تھی۔ جلد ہی سوزین سانس لینے میں دقت محسوس کرنے لگیں جو کوویڈ۔19 کی خاص علامت ہے۔ تبھی انہوں نے سنا کہ ڈاکٹر آپس میں باتیں کرتے کہہ رہے تھے، خاتون کے لیے اب وینٹی لیٹر کہاں سے لائیں۔ وہ کافی پریشان تھے۔

سوزین نے اشارے سے ایک ڈاکٹر کو بلایا اور کہا ’’بچے! مجھے وینٹی لیٹر لگانے کی ضرورت نہیں۔ میں تو بھرپور انداز میں زندگی گزار چکی۔ میرا چل چلائو ہے۔ میرے لیے وینٹی لیٹر کا بندوبست ہوجائے تو وہ کسی نوجوان لڑکے، لڑکی کو لگا دینا۔‘‘ یہ سن کر ڈاکٹر کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔

اگلے دن سوزین چل بسی۔ اس کی بیٹی نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا ’’میری اماں ایسی ہی تھیں، دوسروں کی مدد کرنے والی، اپنی ذات پیچھے اور پیاروں کی تمنائیں مقدم رکھنے والی۔ ان کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔