پاکستانی سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی کیجیے

زمرد نقوی  پير 27 اپريل 2020
www.facebook.com/shah Naqvi

www.facebook.com/shah Naqvi

چیئرمین این ڈی ایم اے لیفٹیننٹ جنرل محمد افضل نے کہاہے کہ کورونا وائرس کی نئی لہر کے لیے مئی کا مہینہ اہم ہوگا۔ ہزاروں آئی سی یو بیڈز تیار ہیں۔ خراب صورت حال کے لیے صوبوں کے ساتھ مل کر مختلف شہروںمیں ہوٹلز بھی بک کروائے جاچکے ہیں۔فی الحال ہمیں باہر سے وینٹی لیٹرز منگوانے کی ضرورت نہیں۔ سرکاری اور نجی اسپتالوں میں چار ہزار وینٹی لیٹرز موجود ہیں۔ 1300 وینٹی لیٹرز کو کورونا کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ فوج کے ذریعے 526 اسپتالوں کو حفاظتی سامان مہیا کیاگیا ہے۔

انھوں نے کہا کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے اس ادارے کو 13 مارچ کو کورونا سے نمٹنے کا ٹاسک دیاگیا۔ اس وقت کورونا سے لڑنے کے لیے وسائل ناپید تھے۔حقیقت یہ ہے کہ پاکستان جیسے ملک جہاں وسائل انتہائی محدود اور صحت کا انتظام انتہائی ناقص تھے کا تو ذکر ہی کہا ترقی یافتہ ممالک امریکا اٹلی فرانس اسپین برطانیہ جو شروع میں اس وبا کوتسلیم کرنے سے انکار کرتے رہے جب وبا اپنی شدت پر آئی تو سب کے ہوش وحواس جواب دے گئے کیونکہ ان ممالک میں صحت کا انتظام اس وبا کا مقابلہ کرنے میں انتہائی ناقص نکلا۔

چیئرمین نے بتایا کہ جب وبا پھوٹی تو ہمارا ٹیسٹنگ نظام بہت کمزور تھا۔صرف 14 لیبارٹریزتھیں جو روزانہ 700 ٹیسٹ کررہی تھیں۔ آج پچاس لیبارٹریز میں روزانہ 6 ہزار سے زائدکورونا ٹیسٹ کیے جارہے ہیں۔پاکستان میں ٹیسٹ کرنے کے لیے 8 لاکھ ری ایکشنز موجود ہیں۔ پاکستان میں اس وقت اسپتالوں میں 17 ہزار آئی سی یو بیڈز ہیں۔اس کی سپورٹ کے لیے وقتی اسپتالوں میں 19ہزار بیڈز کا انتظام کیاگیا ہے۔

فرانسیسی ماہرین کی ایک تشخیص میں انکشاف ہوا ہے کہ کورونا وائرس 60 ڈگری سنٹی گریڈ درجہ حرارت پر بھی زندہ رہ سکتاہے۔چنانچہ یہ مفروضہ غلط ثابت ہوگیا ہے کہ گرم موسم میں اس وائرس کا خاتمہ ہوجائے گا اس کے ساتھ یہ بھی کہ نوجوانوں پر اس کا اثر نہیں ہوتا اب تو پوری دنیا سے نوزائیدہ بچوں کے متاثر ہونے کی خبریں آرہی ہیں۔

ماہرین نے یہ بھی دیکھا کہ صاف ماحول میں رکھا گیا وائرس مکمل طور پر غیر موثر ہوگیا لیکن خراب او ر گندے ماحول میں رکھا گیا وائرس اتنے زیادہ  درجہ حرارت یعنی 92ڈگری سنٹی گریڈ پربھی تقسیم در تقسیم  ہوکر زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔یعنی یہ چالاک دھوکا باز وائرس جب اپنے آپ کوخطرے میں دیکھتا ہے تو نہ صرف انسانی مدافعتی نظام کودھوکا دینے کے لیے  اپنے سے مختلف وائرس بنانے کی صلاحیت بھی رکھتا ہے۔  بہرحال اس سے یہ پتہ چلتاہے کہ نہ صرف ہم اپنے آپ کو صاف ستھرا  رکھیں بلکہ اپنے گھر گلی محلے کو بھی صاف ستھرا رکھیں اگر ہمیں اس خطرناک وائرس کے حملے سے بچنا ہے۔

ایک خوشخبری یہ بھی ہے کہ صرف ترقی یافتہ ممالک ہی ویکسین تیار نہیں کررہے بلکہ پاکستان بھی  ان ممالک کی صف میں شامل ہوچکاہے۔ اس ضمن میں پاکستانی سائنس دانوں نے دنیا کے کئی اور ممالک کی طرح کورونا کے کم قیمت اور کم وقت میں نتائج دینے کے حوالے سے تحقیقات مکمل کرکے چین کے شہر ووہان  میں معروف سائنسدانوں سے مشاورت کے لیے اپنا ریسرچ پیسر روانہ کیا اور وہاں سے مثبت نتائج ملنے کے بعد حکومت کو دو اپریل کو اپنی تحقیقات سے آگاہ کیا۔ اس ٹیکنالوجی کو Lamp ٹیکنالوجی کہاجاتاہے۔

اس ٹیکنالوجی کے ذریعے کورونا کا ٹیسٹ صرف پانچ سو روپے میں ہوسکے گا جب کہ اس کا نتیجہ صرف 2 گھنٹے میں آسکے گا۔جب کہ پاکستان میں یہ ٹیسٹ آٹھ سے نوہزار روپے میں ہورہا ہے۔اتنا زیادہ خرچہ تو آج کل کے دور میں پاکستان کی بیشتر آبادی برداشت نہیں کرسکتی۔ حکومت کوچاہیے کہ اپنی اولین فرصت میں پاکستانی  سائنسدانوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اس طریقہ علاج کو متعارف کرائے۔ اگر بیوروکریسی اپنے وقتی  مفادات کے لیے اس میں کوئی رکاوٹ ڈالتی ہے تو اس کے ذمے داروں کو قرار واقعی سزا دے۔ یہ ٹیسٹ اس لیے مہنگے ہیں کہ اس میں بیرونی مفادات وابستہ ہیں جس میں کمیشن مافیا ملوث ہے۔

وقت گذرنے کے ساتھ اس وائرس کی آڑ میں اربوں روپے کے گھپلے سامنے آئیں گے۔ اس وقت زرمبادلہ کی شدید قلت ہے۔ہمیں چاہیے کہ خود انحصاری کرتے ہوئے ملک میں وینٹی لیٹرز سمیت ہر طرح کی حفاظتی اشیاء ملک میں ہی تیار کرنے کی عادت ڈالیں تاکہ ملک کا انتہائی قیمتی زرمبادلہ نہ صرف بچ سکے بلکہ اس کا صحیح مصرف سامنے آئے۔ ماضی کی اس قبیح عادت سے ہمیں جلد از جلد چھٹکارا پانا چاہیے کہ ہر چیز جس کی ہمیں ضرورت ہے باہر سے منگوائی جائے۔ اس میں صرف اور صرف اسلام آباد میں بیٹھے کمیشن مافیا کا فائدہ ہے۔ اب تو ہمیں 70 سالہ اس عوام دشمن مافیا سے نجات پالینی چاہیے۔

آئی ایم ایف نے عالمی برادری پر زور دیا ہے کہ وہ مہلک کورونا وائرس کی وبا کو روکنے کے لیے عالمی سطح پر کم لاگت کی ویکسین فراہم کرے۔ آئی ایم ایف نے خدشہ ظاہر کیاکہ وائرس سے پیدا ہونے والے معاشرتی اور معاشی بحران پر توجہ نہ دینے یا غیرسنجیدہ رویہ سے بعض ممالک میں بدامنی کی نئی لہر پیداہوسکتی ہے۔یہ بات انتہائی توجہ طلب ہے۔ جب ویکسین ایجاد ہوگی تو کیا غریب ممالک کے غریب افراد اسے افورڈ بھی کر سکیں گے یا یہ نئی ویکسین بھی ملٹی نیشنل مغربی کمپنیوں کی دولت میں بے تحاشا اضافے کا باعث بنے گی۔

مغربی کمپنیاں اربوں ڈالر کے خرچ سے نئی ویکسین ایجاد کرنے کی سر توڑ کوشش کررہی ہیں۔ موت سے بچنے  کے لیے کوئی بھی شخص گھر سمیت اپنے تمام اثاثے فروخت کرنے پر آمادہ ہوجاتاہے تووہ شخص جس کے پاس کچھ بھی نہ ہو وہ کیسے اس مہنگی ویکسین کوخریدے گا۔ اس پر ہمیں ابھی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔