مارکیٹ اکانومی، ماحولیاتی تبدیلی

جاوید قاضی  اتوار 3 مئ 2020
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

خبریں چاہے اچھی ہوں یا بری، خبریں ہونی چاہئیں، نہ کہ جھوٹی ہوں، افواہیں ہوں یا پھر پروپیگنڈا۔ اور پھر ہم ہیں جو خبروں کی پہچان نہیں رکھتے۔ یہی ماجرا ہوا حال ہی میں،کورونا کے علاج کے حوالے سے جب ایک غلط دوائی سے علاج کیا گیا جس کے نتیجے میں، ایران میں سات سو لوگ مارے گئے۔ ایک خطرناک نسخہ ٹرمپ صاحب بھی دے رہے تھے کہ کورونا سے بچنے کے لیے بلیچ کے انجیکشن لگا لیجیے۔

کورونا کا پھیلاؤ تب جاکے تھمے گا جب کوئی ویکسین دریافت ہوگی۔ حال ہی میں انسانوںکی قریب تر نسل والے بندروں پر کچھ تجربات کیے گئے، برطانیہ ان تجربات اور تحقیق میں سب سے آگے ہے ان بندروں کو کورونا وائرس کے شدید ڈوز لگائے گئے، وہ بیمار ہوئے اس سے پہلے ان کو یہ ویکسین لگائے گئے۔ اٹھائیس دن بعد وہ صحت یاب بھی ہونے لگے، مگر کیا یہ ضروری ہے کہ یہ ادویات vaccine)) انسانوں پر بھی اسی طرح سے موثر ہوں۔ اب اگلے دو مہینوں تک یہ ویکسین برطانیہ میںچھ ہزار لوگوں پر استعمال ہونے جارہی ہے اور ستمبر تک یہ تیار ہو کر مارکیٹ میں آنا شروع ہوجائے گی۔

دوسری جنگ عظیم کے بعد اس وبا کا پھیلنا دنیا کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ یہ چیلنج سامنے نہ آتا تو ہم اسی طرح مصروف رہتے۔ چین اور امریکا کے درمیان سرد جنگ اپنا آغاز کر چکی تھی۔ ہر خطے میں کوئی نہ کوئی جنگ لگی ہو ئی ہے۔ ہجرتوں کے قافلے تھے جو شام سے یورپ چل نکلے تھے۔ پوری دنیا میں مسلمانوں سے نفرت عروج پر تھی۔ مگر کورونا نے ایک دم کایا پلٹ دی۔ بالکل ویسے ہی جس طرح دوسری جنگ عظیم کے بعد اقوام متحدہ جب معرض وجود میں آئی۔

کورونا اور ماحولیاتی تبدیلی کا سوال آج ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ جس طرح پہلی جنگ عظیم کی تباہی نے۔ ’’لیگ آف نیشن‘‘ کے ادارے کو بنایا، دوسری جنگ عظیم نے اقوام متحدہ کواسی طرح آج اس وبا کی ہولناکی نے سب کو متحد کردیا ہے اس کے خلاف لڑنے کے لیے۔ دنیا کا درجۂ حرارت تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ انٹارکٹیکا سے الاسکا تک برف پگھل رہی ہے۔ ہمیں کاربن گیسز کے اخراج میں شدید حد تک کمی لانی ہوگی۔ اور ضروری ہے کہ کیپیٹلزم کے تصور پرکھڑی اس پوری معیشت کو ایک نئے انداز سے منظم کیا جائے۔

گذشتہ دنوں جس طرح تیل کی مندی ہوئی ہے اس سے ہمیں باآسانی مارکیٹ فورسز سمجھ میں آگئی ہوں گی۔ کورونا وبا ایک جھٹکے میں ہی تیل کی کھپت کو پہلے آدھی، پھر اس سے بھی آدھی سطح پر لے آئی۔ مگر یہ بات  سعودی عرب اور روس کو سمجھ نہ آئی۔ وہ پٹرول کی پیداوار کو بڑھاتے رہے۔ دوسری طرف وہ ممالک تھے جو تیل کے درآمد کنندہ تھے، وہ تیل کی زیادہ مقدار کو ذخیرہ کرنے کے اہل نہ تھے اور پھر تیل کا عالم یہ ہوا کہ مفت توکیا پیسے بھی لو اور تیل بھی لو۔

ایک طرف کپیٹلزم پر بنی یہ مارکیٹ تھی جو بیٹھ گئی اور دوسری طرف آسمان تھا جوکہ اتنا نیلگوں کہ مجھے کراچی میں اپنی چھت سے ستارے اس طرح چمکتے نظر آئے جس طرح کبھی میں نے آج سے بیس سال پہلے ہنزا میں دیکھے تھے۔ ان تین مہینوں میں کاربن گیسز کا اخراج اس قدر کم ہوا کہ انٹارکٹیکا میں ہماری دھرتی کی Ozone layer بحال ہوگئی۔

ہم سب محصور تو ہوگئے، راستے سنسان، کیفے بند، بازاروں میں سناٹا تو چھا گیا مگر جنگلوں سے جانور بستیوں کی طرف نکل پڑے۔ شیر راستوں پر سوئے ہوئے پائے گئے، مور دلی کی شاہراہوں پر سیر سپاٹے کر رہے تھے۔ ہمارے لیے یہ منظر شاید قیامت سے کم نہ ہو مگر یہ کچھ اور نہیں بس آنکھ آنکھ کا فرق ہے کہ جن سے ہم نے دھرتی چھینی جن پر ہم نے زندگی تنگ کی کم از کم ان کے لیے یہ منظر جنت سے کم نہیں۔ ہم انسان دراصل مارکیٹ فورسز کے پیچھے گھومتے ہیں۔ مارکیٹ ہمارا عکس ہے اور ہم مارکیٹ کا۔ جو چاہے ہمارے دام لگا دے اور یہ وبا جس کو چاہے کسی سے دور کر دے اور کسی کو کسی کے لیے قریب، کورونا سب کو دیکھتا ایک ہی نظر سے ہے مگر اس کے سامنے کوئی آئے تو۔

سب جیسے رک گیا۔کورونا کے سامنے نہ آنے کی اس تگ و دو میں سب بند ہوگیا۔ مارکیٹ بیٹھ گئی۔ دبئی جو دنیا کی آمدرفت کے حوالے سے مصروف ترین ایئرپورٹ تھا، بالکل ویران پڑ گیا۔ ہوائی جہاز مہینوں سے ساکن اورخاموش کھڑے ہیں۔ اسپین ،روم، اٹلی، پیرس، نیوریاک جو سیاحوں سے کچھا کھچ بھرے ہوتے تھے، سب کے سب سناٹے کی نذر ہوگئے۔

گر آج تجھ سے جدا ہیں تو کل بہم ہوںگے

یہ رات بھر کی جدائی تو کوئی بات نہیں

گر آج اوج پہ ہے تالائے رقیب تو کیا

یہ چار دن کی خدائی تو کوئی بات نہیں

(فیض)

مگر اب مارکیٹ اور ماحولیات میں دشمن والی نگاہ نہیں ہونی چاہیے ان کا آپس میں سنگم ہو۔

گلوں میں رنگ بھرے باد نو بہار چلے

چلے بھی آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے

(فیض)

ہالینڈ میں لاکھوں ٹن پھول اکھاڑ لیے گئے اور اربوں ڈالر کے یہ پھول جن کا کوئی خریدار نہ تھا۔ ہمارے ہاں ہوٹل کیا بند ہوئے وہ ٹماٹر جو تین سو روپے فی کلو ملتا تھا مگر اب خریدار نہیں۔ پورے یورپ کو جو ملک آلو فراہم کرتا تھا اس کے سارے آلو خراب ہوگئے کہ فاسٹ فوڈ کی ساری چینیں بند ہوگئیں۔

دراصل یہ وقت ہے سنگم کا، ماحولیاتی تبدیلی کو اب مارکیٹ کے پیمانوں پر رکھنا ہوگا۔ ہزاروں ارب ڈالر ہم جنگی سامان پر خرچ کردیتے ہیں صرف ان اختلافات کی بنا پر جن کو ٹیبل پر بیٹھ کر حل کیا جاسکتا ہے۔ یہ انھی انسانوں نے اپنے لیے معیشت کے اصول بنائے ہیں جو ماحولیات کے لیے سوائے تباہی کے اور کچھ نہیں۔ یہ وہ اصول ہیں جن سے خود انسان اور یہ معیشت ہی متاثر ہوسکتی ہے جس طرح آج کورونا نے ثابت کیا ہے۔ کہتے ہیںکہ کورونا گرمی برداشت نہیں کرسکتا۔ مئی اور جون کی شدید گرمی اس کو نڈھال کردے گی۔ مگر ہماری کوئی تیاری نہیں۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری قوت مدافعتImmunity  قدرے بہتر ہے کہ کورونا ہم پر اس طرح سے اثر انداز نہیں ہوا جس طرح سرد ملکوں کے باشندوں پر ہوا ہے۔

پوری دنیا ایک نئے موڑ پر آن کھڑی ہے، ایسا موڑ جہاں سے بہتر راستے کھلتے ہیں۔کورونا نے آنے والی تیسری جنگ عظیم کے راستے روک لیے، کورونا اگر نہ آتا تو ہم ماحولیات کی تبدیلی جو اب آرہی ہے اس کو اتنی سنجیدگی سے نہ لیتے۔کورونا نے ریاستوں کو اب مجبور کردیا ہے کہ وہ اپنے صحت کے نظام کو بہتر بنائیں۔ یقینا اکیسویں صدی کی ریاستیں فلاحی ریاستیں ہوں گی اور جو نہ ہوں گی وہ تاریخ کا حصہ ہوجائیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔