11 کروڑ پاکستانیوں کے حساس ڈیٹا کی چوری، سندھ ہائیکورٹ کا متعلقہ اداروں کونوٹس

کورٹ رپورٹر  بدھ 13 مئ 2020
۔ ڈیٹا میں موبائل صارفین کا شناختی کارڈ نمبرز، مکمل ایڈریس فون نمبر اور دیگر چیزیں شامل تھیں۔ فوٹو، فائل

۔ ڈیٹا میں موبائل صارفین کا شناختی کارڈ نمبرز، مکمل ایڈریس فون نمبر اور دیگر چیزیں شامل تھیں۔ فوٹو، فائل

 کراچی: سندھ ہائیکورٹ نے ساڑھے 11 کروڑ پاکستانیوں کا حساس ڈیٹا ڈارک ویب پر فروخت ہونے سے متعلق وفاقی وزارت داخلہ، سیکرٹری آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ نادرا اور دیگر کو از سر نو نوٹس جاری کردیے۔

جسٹس محمد علی مظہر اور جسٹس یوسف علی سعید پر مشتمل دو رکنی بینچ کے روبرو ساڑھے 11 کروڑ پاکستانیوں کا حساس ڈیٹا ڈارک ویب پر فروخت ہونے سے متعلق طارق منصور ایڈوکیٹ کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ عدالتی نوٹس کے باوجود فریقین نے جواب جمع نہیں کرایا۔ پی ٹی اے کے وکیل کی جانب سے جواب جمع کرانے کے لیے مہلت طلب کرنے پر عدالت برہم ہوگئی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیے پاکستانی عوام کا حساس ڈیٹا چوری ہونا انتہائی سنجیدہ معاملہ ہے۔ ڈیٹا چوری روکنے کی روک تھام کے لیے متعلقہ ادارے کیا اقدامات کررہے ہیں؟ ڈیٹا چوری ہونے کی سینیٹ میں بھی بات ہوئی ہے تو اداروں کو دیکھنا چاہئے۔ عدالت نے وفاقی وزارت داخلہ، سیکرٹری آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ نادرا اور دیگر کو از سر نو نوٹس جاری کرتے ہوئے فریقین سے 29 مئی کو تفصیلی جواب طلب کرلیا۔

دائر کی گئی  درخواست میں طارق منصور ایڈوکیٹ نے موقف دیا کہ 10 اپریل کو ساڑھے گیارہ کروڑ پاکستانیوں کا حساس ڈیٹا فروخت کرنے کے لیے ڈارک ویب پر اپلوڈ کیا گیا۔ شہریوں کا حساس ڈیٹا 35 کروڑ روپے میں فروخت کیا جارہا ہے۔ ڈیٹا میں موبائل صارفین کا شناختی کارڈ نمبرز، مکمل ایڈریس فون نمبر اور دیگر چیزیں شامل تھیں۔ مزید برآں شہریوں کو ڈیٹا بھی فروخت کیا جاسکتا ہے۔ ڈیٹا چوری کے الزام میں ڈپٹی چیئرمین نادرا کو ملازمت سے فارغ کیا گیا تھا۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی میں بھی یہ بات سامنے آچکی ہے۔ اعلی حکام اس بات کو دبانے کی کوشش کررہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔