- فیصل واوڈا نے عدالتی نظام پر اہم سوالات اٹھا دیئے
- پاکستان کو آئی ایم ایف سے قرض کی نئی قسط 29 اپریل تک ملنے کا امکان
- امریکی اکیڈمی آف نیورولوجی نے پاکستانی پروفیسر کو ایڈووکیٹ آف دی ایئر ایوارڈ سے نواز دیا
- کوہلو میں خراب سیکیورٹی کے باعث ری پولنگ نہیں ہوسکی
- 9 ماہ کے دوران 9.8 ارب ڈالر کا قرض ملا، وزارت اقتصادی امور ڈویژن
- نارووال: بارات میں موبائل فونز سمیت قیمتی تحائف کی بارش
- کراچی کے مختلف علاقوں میں زلزلے کے جھٹکے
- کوئٹہ: برلن بڈی بیئر چوری کے خدشے کے پیش نظر متبادل جگہ منتقل
- گجرات میں اسپتال کی چھت گرنے سے خاتون سمیت تین افراد جاں بحق
- سعودی فرمانروا طبی معائنے کیلیے اسپتال میں داخل
- امریکی سیکریٹری اسٹیٹ سرکاری دورے پر چین پہنچ گئے
- ہم یہاں اچھی کرکٹ کھیلنے آئے ہیں، جیت سے اعتماد ملا، مائیکل بریسویل
- پچھلے میچ کی غلطیوں سے سیکھ کر سیریز جیتنے کی کوشش کرینگے، بابراعظم
- امریکا میں ٹک ٹاک پر پابندی کا بل سینیٹ سے بھی منظور
- محمد رضوان اور عرفان خان کو نیوزی لینڈ کے خلاف آخری دو میچز میں آرام دینے کا فیصلہ
- کے ایم سی کا ٹریفک مسائل کو حل کرنے کیلئے انسداد تجاوزات مہم کا فیصلہ
- موٹروے پولیس اہلکار کو روندنے والی خاتون گرفتار
- ہندو جیم خانہ کیس؛ آپ کو قبضہ کرنے نہیں دیں گے، چیف جسٹس کا رمیش کمار سے مکالمہ
- بشری بی بی کو کچھ ہوا تو حکومت اور فیصلہ سازوں کو معاف نہیں کریں گے، حلیم عادل شیخ
- متحدہ وفد کی احسن اقبال سے ملاقات، کراچی کے ترقیاتی منصوبوں پر تبادلہ خیال
مصوری کا یہ اہم شاہکار لوگوں کی سانسوں سے متاثر ہورہا ہے
اوسلو: اگر آپ مصوری کے شوقین نہیں تب بھی آپ نے مصوری کی ایک شاہکار پینٹنگ ضرور دیکھی ہوگی جسے ’اسکریم‘ یا چیخ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ پینٹنگ اب لوگوں کی سانس سے شدید متاثر ہورہی ہے جو اسے دیکھنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں آتے ہیں۔
یہ پینٹنگ ایڈوارڈ مونک نے 1910 میں بنائی تھی جو اوسلو کے مونک میوزیم میں موجود ہے۔ لیکن پینٹنگ کے ناقدین کے مطابق یہ تصویر بہت تیزی سے اپنی خوبصورتی کھورہی ہے اور اس کے رنگ پھیکے پڑ رہے ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ اس کے اردگرد مصنوعی روشنی اسے متاثر کررہی ہے۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ لوگوں کی سانسوں کی نمی اور دیگر اقسام کے کیمیکلز بھی اس پینٹنگ کے دشمن بن چکے ہیں۔
اس پینٹنگ کی تشخیص کے لیے امریکا، بیلجیئم، اٹلی اور برازیل نے مشترکہ طور پر یہ تحقیق شروع کی ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ عقب میں ڈوبتے سورج اور چیخنے والے کردار کی گردن کا پیلا رنگ دھیرے دھیرے سفید ہورہا ہے اور پھیکا پڑ رہا ہے۔
اس کی تفصیلات سائنس ایڈوانسس میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایڈوارڈ مونک کے غیرارادی طور پر کیڈمیئم والا پیلا رنگ استعمال کیا تھا۔ یہ رنگ نمی میں ہلکا ہوتاجاتا ہے اور اگر نمی ضرورت سے کم ہو تو اس کی پپڑیاں بن کر اترنا شروع ہوجاتی ہے۔
یونیورسٹی آف آنٹ ورپ کے سائنسداں کوئن جینسن نے بتایا کہ روزانہ ہزاروں لوگوں اس پینٹنگ کو دیکھتے ہیں اور ان کی سانسوں کی نمی اور کلورائیڈز اسکریم کو تباہ کررہے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق مونک نے بہت مہنگے رنگ نہیں خریدے تھے اور اس وقت پینٹنگ کے روغن غیرمعیاری تھے۔ لیکن ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایڈوارڈ نے ان رنگوں کو استعمال جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔
اس سال یہ پینٹنگ اوسلو کے اوپرا ہاؤس میں نصب کی جائے گی۔ واضح رہے کہ 22 اگست 2004 میں یہ پینٹنگ چوری ہوگئی تھے جسے پولیس نے 2006 میں دوبارہ برآمد کیا گیا اور عین اسی عرصے میں اس عظیم شاہکار کو بہت نقصان ہوا تھا۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔