مصوری کا یہ اہم شاہکار لوگوں کی سانسوں سے متاثر ہورہا ہے

ویب ڈیسک  ہفتہ 23 مئ 2020
دیوار پر ایڈوارڈ مونک کی مشہور پینٹنگ ’اسکریم‘ کو دیکھا جاسکتا ہے جو 1910 میں بنائی گئی تھی۔ فوٹو: بشکریہ مونک میوزیم

دیوار پر ایڈوارڈ مونک کی مشہور پینٹنگ ’اسکریم‘ کو دیکھا جاسکتا ہے جو 1910 میں بنائی گئی تھی۔ فوٹو: بشکریہ مونک میوزیم

اوسلو: اگر آپ مصوری کے شوقین نہیں تب بھی آپ نے مصوری کی ایک شاہکار پینٹنگ ضرور دیکھی ہوگی جسے ’اسکریم‘ یا چیخ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ پینٹنگ اب لوگوں کی سانس سے شدید متاثر ہورہی ہے جو اسے دیکھنے کے لیے ہزاروں کی تعداد میں آتے ہیں۔

یہ پینٹنگ ایڈوارڈ مونک نے 1910 میں بنائی تھی جو اوسلو کے مونک میوزیم میں موجود ہے۔ لیکن پینٹنگ کے ناقدین کے مطابق یہ تصویر بہت تیزی سے اپنی خوبصورتی کھورہی ہے اور اس کے رنگ پھیکے پڑ رہے ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ اس کے اردگرد مصنوعی روشنی اسے متاثر کررہی ہے۔ لیکن اب معلوم ہوا ہے کہ لوگوں کی سانسوں کی نمی اور دیگر اقسام کے کیمیکلز بھی اس پینٹنگ کے دشمن بن چکے ہیں۔

اس پینٹنگ کی تشخیص کے لیے امریکا، بیلجیئم، اٹلی اور برازیل نے مشترکہ طور پر یہ تحقیق شروع کی ہے۔ انہوں نے دیکھا کہ عقب میں ڈوبتے سورج اور چیخنے والے کردار کی گردن کا پیلا رنگ دھیرے دھیرے سفید ہورہا ہے اور پھیکا پڑ رہا ہے۔

اس کی تفصیلات سائنس ایڈوانسس میں شائع ہوئی ہے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ ایڈوارڈ مونک کے غیرارادی طور پر کیڈمیئم والا پیلا رنگ استعمال کیا تھا۔ یہ رنگ نمی میں ہلکا ہوتاجاتا ہے اور اگر نمی ضرورت سے کم ہو تو اس کی پپڑیاں بن کر اترنا شروع ہوجاتی ہے۔

یونیورسٹی آف آنٹ ورپ کے سائنسداں کوئن جینسن نے بتایا کہ روزانہ ہزاروں لوگوں اس پینٹنگ کو دیکھتے ہیں اور ان کی سانسوں کی نمی اور کلورائیڈز اسکریم کو تباہ کررہے ہیں۔ سائنسدانوں کے مطابق مونک نے بہت مہنگے رنگ نہیں خریدے تھے اور اس وقت پینٹنگ کے روغن غیرمعیاری تھے۔ لیکن ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ایڈوارڈ  نے ان رنگوں کو استعمال جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔

اس سال یہ پینٹنگ اوسلو کے اوپرا ہاؤس میں نصب کی جائے گی۔ واضح رہے کہ 22 اگست 2004 میں یہ پینٹنگ چوری ہوگئی تھے جسے پولیس نے 2006 میں دوبارہ برآمد کیا گیا اور عین اسی عرصے میں اس عظیم شاہکار کو بہت نقصان ہوا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔