حزب اختلاف حکومت کے خلا ف پھر مورچہ لگانے کیلئے تیار

شاہد حمید  بدھ 3 جون 2020
فوٹو : فائل

فوٹو : فائل

 پشاور:  پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کی معیشت زیادہ دیر معاشی بوجھ سہارنے کے قابل نہیں اس لیے لاک ڈاون میں نرمی بھی کی گئی ہے اور سرکاری دفاتر بھی پوری طرح کھل گئے ہیں۔ چونکہ کورونا وائرس کی وبا عام ہونے کے بعد سیاسی جماعتوں نے بھی اپنی سرگرمیاں معطل کردی تھیں اس لیے اب وہ بھی رفتہ ،رفتہ اپنی سرگرمیاں بحال کرنے لگی ہیں۔

جماعت اسلامی نے بیرون ملک پھنسے ہوئے پاکستانیوں کو درپیش تکالیف اور انھیں پاکستان واپس لانے کے حوالے سے درپیش مشکلات کے خلاف احتجاج کیا ہے اور اس احتجاج کو موثر بنانے کے لیے خود امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی احتجاجی مظاہرہ سے ٹیلی فونک خطاب کیا جبکہ ان کی پارٹی کے دیگر قائدین بھی اس احتجاج میں موجود تھے ۔

عوامی نیشنل پارٹی نے مارچ کے مہینے سے اپنی معطل سیاسی سرگرمیوں کو بحال کرنے کا اعلان کردیا ہے جبکہ جمعیت علماء اسلام (ف) نے کورونا وائرس کے حوالے سے پیدا صورت حال سمیت ملک وقوم کو درپیش مسائل کا حل تلاش کرنے کے لیے 6 جون کو آل پارٹیز کانفرنس طلب کرلی ہے جس میں پارٹیوں کی مرکزی قیادت کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے۔

اگر اس اے پی سی میں سیاسی پارٹیوں کی مرکزی قیادت یعنی مولانا فضل الرحمٰن کے علاوہ اسفند یار ولی خان ،آفتاب احمدخان شیر پاو، سراج الحق اور دیگر قائدین شریک ہوتے ہیں تو اس کا یقینی طور پر الگ ہی رنگ ہوگا تاہم اگرپارٹیوں کی مرکزی قیادت اے پی سی میں شریک نہ ہو پائی تو اس صورت میں یہ اے پی سی مرکزی حیثیت کھوکر صوبائی سطح کا اکٹھ بن جائے گی۔  جے یوآئی کے قائدین اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ وہ اس اکٹھ کو کامیاب بنانے کے لیے پارٹیوں کی مرکزی قیادت کی اس میں شرکت کو یقینی بنائیں تاکہ حکومت کوہٹانے کے لیے آزادی مارچ کے حوالے سے جے یوآئی کے پلے میں جو ناکامی پڑی تھی وہ داغ بھی دھل جائیں ۔

سیاسی جماعتوں کی جانب سے تو اپنی سرگرمیوں کو شروع کر دیا گیا ہے لیکن صوبائی حکومت، اسمبلی کے بجٹ سیشن کو  بلانے کے سلسلے میں گومگو کی کیفیت کا شکار ہے جس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ایم پی ایز بھی کورونا وائرس کا شکار ہو رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے حکومت یا سپیکر صوبائی اسمبلی یہ رسک لینے کے لیے تیار نہیں کہ اسمبلی اجلاس بلاکر دیگر ارکان کی جانوں کو بھی خطرے میں ڈالا جائے۔

یہی وجہ ہے کہ بجٹ پیش کرنے کے لیے اسمبلی سیشن کے سلسلے میں تین آپشنز پر غور کیا جا رہا ہے جن میں پہلا آپشنز یہ ہے کہ تمام اراکین اسمبلی کو اجلاس کے لیے نہ بلایا جائے بلکہ ہر سیاسی جماعت کو متناسب نمائندگی دیتے ہوئے اجلاس میں ان کی شرکت کو یقینی بنایاجائے جس کے لیے ہر پارلیمانی جماعت سے چند ارکان ہی اجلاس میں شریک ہو پائیں گے تاہم اراکین اسمبلی اس کے لیے شاید ہی تیار ہوں کیونکہ اسمبلی کا بجٹ سیشن ہی ایسا ہوتاہے کہ جس میں ہر رکن اپنے حلقے کی بات کرتا ہے ۔

متناسب نمائندگی کا طریقہ کار اختیار کیے جانے کی صورت میں وہ اپنے حلقوں کی نمائندگی کرنے سے محروم رہ جائیں گے ۔اس کے ساتھ ہی یہ آپشن بھی زیر غور ہے کہ اسمبلی اجلاس میں صرف اور صرف اراکین اسمبلی ہی شرکت کریں اور ان کے علاوہ مہمان ،آفیسرز اور دیگر تمام جو معمول کے اجلاسوں میں شریک ہوتے اور مہمانوں کی گیلریوں میں بیٹھ کر ایوان کی کاروائی دیکھتے ہیں انھیں اسمبلی میں نہ مدعو کیا جائے۔

اس ضمن میں یہ ترتیب زیر غور ہے کہ ہال میں موجود نشستوں کے ساتھ مہمانوں کی گیلریوں کو بھی اراکین اسمبلی کے بیٹھنے کے لیے استعمال میں لایا جائے تاکہ اراکین اسمبلی ایک دوسرے سے فاصلے پر بیٹھتے ہوئے اسمبلی اجلاس میں شریک بھی ہوسکیں اور ان کی جانوںکو کسی قسم کا کوئی خطرہ بھی نہ ہو جبکہ اس کے ساتھ تیسرا آپشن اسمبلی کے ورچوئل اجلاس کے انعقاد کا ہے جس کے تحت اراکین اسمبلی کو ویڈیو کانفرنسنگ کے ذریعے اجلاس میں شریک کیاجائے گا۔

ان تینوں آپشنز میں سے تاحال کسی ایک کے بارے میں بھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیاگیا،جلد ہی سپیکر صوبائی اسمبلی حکومت اوراپوزیشن سے اس سلسلے میں مشاورت کرتے ہوئے کوئی حتمی رائے قائم کریں گے اور اس ہی کے تحت اسمبلی اجلاس بلایاجائے گا۔

چونکہ وفاقی بجٹ12جون کو پیش کیا جا رہا ہے اس لیے خیبرپختونخوا حکومت آئندہ مالی سال 2020-21ء کے لیے صوبہ کا بجٹ ماہ جون کے تیسرے ہفتے میں پیش کرنے پر غور کر رہی ہے، گزشتہ سال بھی صوبہ کا بجٹ 17جون کو پیش کیا گیا تھا اور اس سال کے حوالے سے بھی یہی امکان ظاہر کیا جا رہا ہے صوبائی بجٹ 17 یا18جون کو ہی پیش کیا جائے گا اور اس کے حوالے سے غالب امکان یہی نظر آ رہا ہے کہ پارلیمانی جماعتوں کو متناسب نمائندگی دیتے ہوئے ان کی اجلاس میں شرکت کو یقینی بنایاجائے گا جس کے تحت اسمبلی کے 145ارکان کا تیسرا حصہ ہی اجلاس میں شرکت کرپائے گا۔

اپوزیشن،حکومت کے ساتھ کس قدر تعاون کرتی ہے اس کا انحصار وزیراعلیٰ کی جانب سے اپوزیشن کو ترقیاتی فنڈز کی فراہمی پر ہوگا جس کے لیے وزیراعلیٰ اور اپوزیشن رہنماوں کے مابین ہونے والے مذاکرات میں کمیٹی کی تشکیل پر اتفاق کیاگیاتھا تاہم مذکورہ کمیٹی تاحال تشکیل نہیں دی جاسکی اس لیے اپوزیشن پہلے کمیٹی کی تشکیل پر ذور دے گی اور پھر ترقیاتی فنڈز کے حصول کو ممکن بنانے کی کوشش کرے گی اور اگر حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ نرمی دکھائی تو اپوزیشن بھی بجٹ سیشن کے موقع پر حکومتی وکٹ پر کھیلنے کے لیے تیار ہوسکتی ہے اس لیے بظاہر تو یہی نظر آرہا ہے کہ اس وقت بال حکومتی کورٹ میں ہے کہ وہ معاملات کو کیسے چلانا چاہتی ہے۔

اگر حکومت معاملات کو بہتر انداز میں چلانے کی خواہاں ہے تو اس کے لیے اسے اپوزیشن کو راضی کرنا پڑے گا اور حکومتی التفات کے نتیجے میں اپوزیشن کا موم ہوجانا بھی بعید ازقیاس نہیں کیونکہ بہرکیف تالی دونوں ہاتھوں ہی سے بجتی ہے لیکن اس کی ابتداء بہرکیف حکومت کو ہی کرنی ہوگی ۔بظاہر تو یہی نظر آرہا ہے کہ عاطف خان اور شہرام ترکئی کا باب بند ہوگیاہے یا یوں کہئے کہ بند کرنے والوں نے یہ باب بند کردیاہے لیکن شاید ایسا نہیں اور کسی نہ کسی سطح پر یہ کوشش ضرور ہو رہی ہے کہ یہ باب دوبارہ کھل جائے اور عاطف خان اور شہرام ترکئی ایک مرتبہ پھر حکومتی ٹیم میں شامل ہوکر کاروبار حکومت میں شامل ہو سکیں۔

اس سلسلے میں یہ بھی نظر آرہا ہے کہ دونوں جانب سے اعصابی جنگ جاری ہے ،حکومت اور پارٹی قیادت ان دونوں سابق صوبائی وزراء کو میدان سے باہر کرنے کے بعد اس بات کے منتظر ہیں کہ یہ اپنی بحالی کے لیے کس قدر کوشش کرتے ہیں اور کیونکر حکومت اور پارٹی قیادت کو راضی کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ان کی کمی کو محسوس کرتے ہوئے یہ خلاء پر کرنے کی غرض سے انھیں حکومتی ٹیم میں واپس لے لیا جائے گا۔ عاطف خان اور شہرام ترکئی اگر حکومتی ٹیم میں واپس آنے کے خواہاں ہیں تو انھیں ماضی کی غلطیوں کی تلافی کرتے ہوئے خود کوحکومتی وکٹ پر کھیلنے کے لیے تیار کرنا پڑے گا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔